ذبح و بے گور لاشے اور ٹویٹر حکم ران

Waris Raza

ذبح و بے گور لاشے اور ٹویٹر حکم ران

از، وارث رضا

کفن پہنی ہوئی کئی روز سے ٹھٹھرتی بے گور لاشیں… ذبح کیے گئے بے جان ماؤں کے سپوت… آہ و بکا کرتی ماں، بہن اور بیٹیوں کی صدائے ہائے… جوانوں کا مشتعل جذبات میں ضبط اور بوڑھوں کی پُر نم آنکھوں سے تر نا تواں جھکی کمر کے با وصف صبر کا درس دیتے ہوئے صداقت بھرے قدم، کسی طور بے حس و بے توقیر حکم ران اور ان کی قومی سلامتی کے احساس کو جگانے میں نا کام ہر گز نہیں، بَل کہ ان ریاست مدینہ کے سفاک اور عوام دشمن سہولت کاروں کے چہروں کو بے نقاب کرنے میں کام یاب و کامران ہیں۔

بربریت سے ذبح کیے گئے ہزارہ کمیونٹی کے ان دس افراد کے سرد بے گور لاشوں کے غم میں آج پوری قوم صدائے احتجاج و غم بنی ہوئی ہے مگر اگر سفاک طرزِ عمل ہے تو صرف وزیر اعظم کی انا بھری قومی سلامتی کا کہ جس کے نزدیک یہ افسوس ناک واقعہ محض بیرونی سازش کے سوا کچھ نہیں۔

مہنگائی سے مارے اور بجلی اور گیس کی ہوش ربائی سے ستائے ملک کے عوام ہزارہ کے مسلسل قتل و غارت پر ان کے ہم رکاب و ہم نشین ہیں۔ ریاستی پابندیوں میں جکڑا صحافتی قلم و زبان ہزارہ کے بے دردی سے ذبح کیے جانے والے ان شہیدوں پر مسلسل ماتم کناں ہیں۔

ہزارہ قوم کے دس کان کن قانون کے ہوتے ہوئے مشقت کے جرم میں اربوں روپے سے پالی گئی خفیہ ایجنسیوں کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ کر دہشت و وحشت کی بربریت کا شکار ہوئے۔

آج ہزارہ کے بے گناہ ذبح کیے گئے لواحقین کو منانے کی غرض سے وفاقی وزراء اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے اظہارِ افسوس سے زیادہ پوری قوم سلیکٹیڈ حکم رانوں کے نقاب اتارنے پر یک سُو دکھائی دیتی ہے۔ جب کہ ریاست کے بے حس طاقت ور حکم ران اپنے اجلاسوں میں ملکی امن و امان پر مطمئن ہونے کی نوید دے کر کیا نا معلوم دہشت گرد عناصر کو اپنی محفوظ کمین گاہوں میں واپس جانے کا پیغام دے رہے ہیں؟

ہتھیاروں سے مسلح بَہ ظاہر چاق و چوبند ریاستی قوتیں عوام کو غیر محفوظ کر کے مسلسل شاید یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اب اس ملک کے عوام قتل پر نہ دُہائی دیں نہ گِریہ کریں اور نہ ماتم کناں ہوں۔ عالمی میڈیا اس اندوہ ناک اور انسان دشمن واقعے پر جہاں رپورٹنگ کر رہا ہے وہیں اقوامِ متحدہ اس سفاکانہ عمل کو انسانی توقیر کے خلاف ایک ریاستی دہشت گردی سے تعبیر کر رہا ہے۔

بلوچستان اور بَہ طور خاص کوئٹہ میں آباد یہ ہزارہ برادری دَھائیوں سے آباد ایک تعلیم یافتہ اور محنت کشوں پر مشتمل وہ قبیلہ ہے جو ملکی ترقی و تعمیر میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ پس ماندہ بلوچستان میں ہزارہ قوم کی معیشت اور سرکاری نوکریوں میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کی یہ کوشش اس ریاست میں تسلسل سے قتل و غارت کی شکل میں جاری ہے، جس کا دکھائی جانے والی دہشت گرد سے زیادہ ہزارہ برادری کے بلوچستان کی معیشت و تعلیم میں گڑے پنجے اکھاڑنے کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

جاری کردہ محتاط اندازے کے مطابق بلوچستان میں آباد مذکورہ ہزارہ قوم پر اب تک 115 مرتبہ دہشت گردی کے حملے کیے جا چکے ہیں جس کے نتیجے میں ہزارہ برادری کے 1 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جب کہ 2800 سے زائد افراد ان دہشت گردانہ حملوں کی زَد میں آ کر زخمی ہیں اور مکمل زندگی گذارنے سے اب تک محروم ہیں جب کہ بار بار کی ریاستی یقین دہانیوں کے با وجود ان واقعات میں ملوث ایک بھی دہشت گرد کو نہ منظرِ عام پر لایا جا سکا ہے اور نہ ہی کسی کو گرفتار کر کے اسے سزا دی گئی ہے۔

اس بربریت پر ہزارہ قوم اپنے پیاروں کے بے گور و کفن لاشے ٹھٹھراتی سردی میں رکھے ملک کے وزیرِ اعظم کے رُو بَہ رُو اپنے دکھوں کا مداوا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک سرکار کی جانب سے نا معلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنا کسی “لالی پوپ” سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔

اسلام آباد سے وزیرِ اعظم اپنے خصوصی جہاز سے تین وُزَراء بھیج چکے ہیں جو اب تک نا کام لوٹے ہیں۔ لواحقین کا مطالبہ ہے کہ ہم اپنے پیاروں کے بے گناہ لہو کا مداوا وزیرِ اعظم سے چاہتے ہیں جب کہ ملک کے وزیر اعظم تا حال مقتول کے لواحقین کو صرف ٹویٹر سے تسلیاں دے رہے ہیں اور کوئٹہ آنے میں نجانے کیوں تردد برتا جا رہا ہے…؟

ہزارہ مزدوروں کے بے دردانہ اور سفاکانہ قتل پر ملک میں جگہ جگہ اظہارِ یک جہتی کے لیے دھرنے دیے جا رہے ہیں اور دوسری جانب پوری قوم وزیر اعظم کے کوئٹہ نہ جانے کی وجہ سے حیرت و استِعجاب میں ہے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے یہ مطالبہ ضرور کیا ہے کہ “عوامی سماج سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بلوچستان سمیت پورے ملک سے فوجوں کو واپس ان کے بیرکوں میں بھیجا جائے تا کِہ منتخب قیادتیں عوام کی مدد سے دہشت گردی کا سد باب کر سکیں۔

ایک جانب کوئٹہ کے سرد موسم میں ٹھٹھرتے ہوئے سرد لاشوں کے ساتھ ان کے لواحقین دھرنا دیے بیٹھے ہیں، تو دوسری جانب حکومت عوام کی داد رسی سے زیادہ اپوزیشن کی تحریک کو نا کام بنانے میں مصروف ہے، جو کسی طور قابلِ اطمینان بات نہیں ہے۔

پاکستان کے موجودہ سرد موسم میں سیاسی حرارت میں تیزی کے  ساتھ نجانے کیوں ہزارہ کے بے گور و کفن لاشے اور لواحقین کے دکھ حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو نظر نہیں آتے۔ ایسا نہ ہو کہ بے گناہ لاشوں کی یہ بے توقیری اور دورِ جدید کی ٹیکنالوجی اور با خبر سوشل میڈیا کا استعمال مُنھ زور  بپھرے ہجوم اور سیاسی تربیت سے نا آشنا عوام اپنے آخری تجزیے میں حکومت  سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو کسی بھی لمحے بہا کر لے جائے۔

ایسے موقع پر  یہ بے ہنگم لاوا ملک میں غدر و انارکی کی صورتِ حال پیدا کرنے کا بے قابو سبب بن سکتا ہے۔ عوام کے اس موڈ سے سیاسی دانش مندی کے ذریعے بچنا ہی ملکی بقاء کے لیے ضروری ہے… وگرنہ پھر… ایوانوں کی خیر نہیں۔

About وارث رضا 36 Articles
وارث رضا کراچی میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ ملک میں چلنے والی مختلف زمینی سیاسی و صحافتی تحریکوں میں توانا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کا مستقبل عوام کے ہاتھوں میں دیکھنا ان کی جد وجہد کا مِحور رہا ہے۔