حویلی مہر داد کی ملکہ

حویلی مہر داد کی ملکہ
Painting by Rajeshwar Nyalapalli

حویلی مہر داد کی ملکہ

افسانہ از، فارحہ ارشد

وہ کسی یونانی دیومالائی داستان کا رنگ و آہنگ لیے کوئی جمالیاتی تجربہ تھی یا ‘ایفروڈائٹ’ کا پُر اسرار پیکر۔ ویسی ہی پُر فریب، وہی جوشیلا شباب۔

اس کی مدہوش کر دینے والی اٹھان دیکھ کر سکھی سہیلیوں کا حسن اور جوانیاں ماند پڑ گئیں اور بڑی بوڑھیاں تو اسے چلتی پھرتی قیامت سے تشبیہہ دیتی کانوں کو ہاتھ لگانے لگیں ایسی الہڑ جوانی اور چنچل ہوشربا ادائیں کہ لڑکوں بالوں کے خیالات کی دنیا تو اتھل پتھل ہوئی ہی، بوڑھوں کی بھی رال ٹپک پڑی۔ ایسے میں اگر بوڑھا زمیندار چند ٹکڑے زمین کے عوض اس کے باپ سے اس کا ہاتھ مانگ رہا تھا تو وہ گھر آئی لکشمی سے مُنھ کیسے موڑ لیتا۔ زمین تو ملی ہی، بیٹی کا مستقبل بھی محفوظ ہو گیا۔ انکار کی صورت میں سودا بھی ہاتھ سے جاتا اور بیٹی بھی۔ بوڑھے زمیندار کے لیے کیا مشکل تھا کہ اگر گھی سیدھی انگلیوں نہیں نکلتا تو جھٹ انہیں ٹیڑھی کر لیتا۔

مُکھو جیسا چاند کا ٹکڑا غریب کے آنگن میں اترے تو یا تو اس کو پہلے سے بھی زیادہ کنگال کر ڈالتا ہے یا پھر لکشمی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ اس سے پہلے کہ چاند اپنا آپ آئینے میں دیکھ کر مزارع کے برتن، دنیا سے اٹھواتا اس نے لکشمی کا دروازہ پورے کا پورا کھول دیا۔

نام تو اس کا ملکہ تھا مگر بگڑتے بگڑتے مُکھو ہو گیا تھا۔ حسن و شباب میں بے مثل اور کافی ذہین بھی۔ ذہانت کو اگر سیدھا رستہ نہ ملے تو ٹیڑھے میڑھے رستوں سے ‘بہنے’ لگتی ہے۔ اور اگر ‘ٹیڑھے میڑھے رستے بنانے والی’ ذہانت کی مالکہ کو یہ ادراک ہو جائے کہ وہ اپک بھڑکتا چنگھاڑتا شباب بھی رکھتی ہے تو وہ لڑکی سےعورت بنتے دیرنہیں لگاتی۔
عورت ۔۔۔ جسے ہر کوئی کہاں جانتا ہے۔

حویلی مہرداد کوئی عام حویلی نہ تھی۔ سیاست کا گڑھ اور پرانی روایات کامرکزتھی۔ غریبوں کے لیے ہمیشہ سے ایسی حویلیاں کشش رکھتی ہیں۔ مُکھو جیسی دولت سے پیار کرنے والی اگر نازاں تھی کہ وہ اس حویلی کی مالکن بننے جا رہی ہے تو تعجب کیسا۔

بوڑھے زمیندار نے کئی شادیاں کیں جو حویلی کی گھمن گھیریوں میں سے بے نام قبروں میں بھیج دی گئیں یا طلاق لے کے ایسی گئیں کہ دوبارہ حویلی مہر داد کے آس پاس بھی نہ پھٹکیں۔ البتہ اب تک دو بڑی زمیندارنیاں اور ان کی اولادیں وہاں راج کر رہی تھیں۔ اور کسی کو پَر بھی نہ مارنے دیتیں۔ ایسے میں مُکھو کا بوڑھے زمیندار کی زندگی میں آنا بھونچال لے آیا جب وہ اس کی طرف سے مکمل مطمئن تھیں کہ اب بھلا بوڑھے زمیندار کو گھاس کون ڈالے گا۔ مگر بوڑھا زمیندار تو ایک مرد تھا۔ اس پہ اپنےعلاقے کا طاقتور حکمران بھی۔ آج تک کون اسے روک پایا تھا کہ اب روکتا۔

حویلی کی دہلیز پار کرتے ہی مُکھو کا استقبال گالیوں سے ہوا مگر اس کے کانوں میں تو سونے کی جھنکار تھی اور حویلی مہرداد کی مالکن ہونے کے احساس نے ارد گرد کی ساری آوازوں کو مدھم کر ڈالا تھا۔ وہ بوڑھے زمیندار کے ساتھ یوں اٹھلا کے چل رہی تھی گویا دنیا فتح کر لی ہو۔ کیسی گالیاں، کیسی پروا۔

اپنی فتح میں مست آنکھوں کے لال ڈوروں پہ چڑھی سونے کی پٹی کے اوپر سے بوڑھے زمیندار کا کڑیل جوان لڑکا کیا نظر آیا۔ ساری خوشی پل بھر میں خاک میں جا ملی۔ ایسا کڑیل جوان ۔۔۔ وہ دیکھتی رہ گئی۔ اس کا جی چاہا بوڑھا زمیندار منظر سے غائب ہو جائے اور اس کی جگہ وہ شینہہ جوان آ کھڑا ہو۔

بوڑھا زمیندار کئی عورتوں کے ساتھ زندگی گذار کے آیا تھا۔ مُکھو کی آنکھ کا رنگ کیسے نہ بھانپتا۔ ڈیرے میں بڑے بڑے فیصلے کرنے والا اور جہاندیدہ، یوں کیسے جیتی ہوئی بازی ہار جاتا۔ سونے کا سات لڑیوں والا کٹ مالا اور حسن کے قصیدے سے مالا مال کرتا اور اپنے طور مُکھو کو بہلا تا اندر ہی اندر ہنس دیا۔

“ہونہہ ۔۔۔ بے چاری عورت”۔ مگر وہ عورت کو برتنے والا عورت کو جانتا ہی کتنا تھا۔
شباب کا ایسا جوشیلا اور بانکا زور کہ پہلی انگڑائی بھی نہ ٹوٹی اور وہ ہانپنے لگا۔ حکیموں کے نسخے چند راتوں کے بعد ہی کم پڑنے لگے اوراُدھر سمندر کی چھل جیسی اٹھان والا بدن کہ اسے ثابت نگلنے کو تیار۔
ایسی غضب کے روپ کی دھوپ کہ چیل انڈا چھوڑے۔

وہ سرِ شام ہی اس کو کمرے میں بند کر لیتی اور کسی مُنھ زور سانڈنی کی طرح اپنے سوارکو صحرا صحرا لیے گھومتی۔ سرکش شباب کی ایسی گرمی کہ دانہ بھُن جائے۔ ٹھٹھرتا، کانپتا بوڑھا زمیندار جیسے جاڑے کا بخار چڑھا ہو اور وہاں، اس کی عمر کا مذاق اڑاتی کھلکھلاہٹ مُکھو کے ایک ایک مسام سے یوں پھوٹتی کہ بڈھا زمیندارشرمندگی کے مارے زمین میں گڑ جاتا۔ وہ گھٹتا جا رہا تھا بلکہ اسے یوں لگتا جیسے دھیرے دھیرے خرچ ہو رہا ہو۔

ایسی مُنھ زور اڑیل گھوڑی۔ کوئی قابو پالے تو ہوا میں لے اڑے اور ذرا جو قابو سے نکل جائے تو مٹی میں رول دے۔ بوڑھا زمیندار چند مہینوں میں ہی اپنے حواس کھو بیٹھا۔ اس کی غیرت کا کوئی اور سوار بنے، یہ اسے کسی طور گوارہ نہ تھا۔ اب یہ اس کی پگ کا ہی مسئلہ نہ تھا۔ کوئی اور ہوتی تو گولی خرچتے دیر نہ لگاتا، مگر وہ مُکھو تھی اس کے بڑھاپے کا عشق۔ نتیجہ وہی کہ ڈیرے میں پڑے رنگین پلنگ کی پٹی سے جا لگا۔

مُکھو کی آنکھ کا بدلتا رنگ دیکھتے ہی بیٹے کو تو شہر بھیج چکا تھا، اب کس سے دل کی بات کہتا۔ باپ کی بیماری کا سن کر بیٹا واپس پہنچا تو بوڑھے زمیندار کے ضُعف بھرے جسم کو دیکھ کر بھونچکا رہ گیا۔ نقاہت کی ماری نحیف و نزار آواز میں بس ایک ہی بات تھی ۔۔۔ ”وہ اب میری پگ ہے۔ کسی اور سوار کے ہاتھ جا لگی تو ہماری غیرت کا جنازہ نکل جائے گا۔”

“تُو نے جو کھے (خاک) کھانی تھی اس عمر میں کھا لی۔ اب فکر نہ کر۔ ہمارے پُرکھوں کی رِیت ہے کہ ہم ایسی اڑیل گھوڑیاں سُدھاتے رہتے ہیں۔ اپنی عزتیں ہم گھر میں ہی سنبھال لیتے ہیں۔ بے فکر ہوجا۔ میں مر نہیں گیا۔“ وہ باپ کی پیٹھ ٹھونک رہا تھا۔

یہ سنتے ہی بوڑھا زمیندار اٹھ کے بیٹھ گیا۔ جانے کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ کچھ ہی دیر میں اُونچا شملہ نکال کر ڈیرے میں آئی ’بانہہ‘ کا فیصلہ کرنے چل پڑا۔ اس کے شملے میں مُکھو کے آنے سے پہلے والی ازلی اکڑ تھی اور زمین کو یوں روندتا ہوا جا رہا تھا گویا مُکھو کے مُنھ زور شباب پر پاؤں رکھتا ہو۔

حویلی کے ایک کمرے سے کھلکھلاہٹ نکلی اور پورے ڈیرے میں پھیل گئی۔ آج تک باپ بیٹے نے عورت کو برتا ضرور تھا، مگر عورت کو جانتے نہیں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ:
٭ایفروڈائٹ یونانی اساطیری دیوی کا وہ کردار ہے جو نسوانی حسن کا جوہر لیے ہوئے ہے، اس کا پُر کشش وجود غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود وہ حاسد ہے، فریب دیتی رہتی ہے، اس میں انتقام لینے کا جذبہ ہے۔ وہ انسان کے دل میں جنسی بے چینی پیدا کر دیتی ہے۔ جنسی جذبے کو دیوانگی کی حد تک پہنچا دیتی ہے۔ وہ افراد جو اس کے شکار بنتے ہیں ان میں اکثر اتنے بدنصیب بن جاتے ہیں کہ اپنے مقصد کی کامیابی کے لیے، اپنے گھر بار کو چھوڑ کر دُور نکل جاتے ہیں۔ ان پر دیوانگی سی طاری ہو جاتی ہے، اس حد تک کہ ان میں خونخوار جانور کی خاصیت پیدا ہو جاتی ہے۔