ہٹ دھرمی

امر جلیل
امر جلیل

ہٹ دھرمی

از، امر جلیل

اس نے آتے ہی کہا۔ ’’میں تب بھی غلط نہیں تھا۔ اور آج بھی غلط نہیں ہوں۔ میں کبھی بھی غلط نہیں ہوسکتا‘‘۔

اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ نئے رنگ ڈنگ میں تھا۔ اس نے کہا۔ ’’میں کبھی غلط نہیں ہوسکتا بالم ‘‘۔

وہ جب بھی آتا ہے، جب بھی ملتا ہے، نئے خدوخال سے ملتا ہے۔ چال ڈھال بدل کر ملتا ہے۔ چہرے پر چہرا سجا کر ملتا ہے۔ کبھی دبلا کبھی موٹا۔ کبھی لمبا کبھی چھوٹا۔ کبھی کالا، کبھی گورا، کبھی سانولا سلونا، کبھی داڑھی مونچھیں اور کبھی صفا چٹ یعنی کلین شیو ملتا ہے۔ سر پر گھنے بال، تو کبھی گنجا ملتا ہے۔ کبھی ٹائی سوٹ اور کبھی شلوار قمیض ، تو کبھی کرتا پاجامہ پہنے ہوئے ملتا ہے۔ کبھی لڑکا، کبھی جوان اور کبھی بوڑھا لگتا ہے۔ کبھی پیدل کبھی سائیکل، کبھی موٹر سائیکل، کبھی کالے شیشوں والی گاڑی میں آتا ہے۔

کبھی بیل گاڑی، کبھی گدھا گاڑی، اور کبھی گاڑی میں آتا ہے۔ دیکھو تو کبھی ہیلی کاپٹر سے اور کبھی ہوائی جہاز سے اترتا ہے۔ اس کے آنے جانے کے اوقات مقرر نہیں ہیں۔ وہ جب چاہے آ دمکتا ہے۔ وہ دن دہاڑے آپ کے پاس آسکتا ہے۔ چاہے تو آدھی رات میں آپ کو نیند سے جگاسکتا ہے۔ فجر ہو یا شام، وہ کبھی بھی آپ کے پاس آسکتا ہے۔ آپ کچھ کھا رہے ہوں، چاہے، آپ پی رہےہوں، ہنس رہے ہوں، رو رہے ہوں، دفتر میں ہوں، سڑک پر ہوں، غسل خانے میں ہوں، لفٹ میں ہوں وہ آپ کے پاس آسکتا ہے، آپ سے مل سکتا ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں ملک الموت کا ذکر کررہا ہوں، تو پھر آپ کی سوچ درست نہیں ہے۔

مانا کہ ملک الموت کے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ ملک الموت جب چاہے آسکتا ہے جہاں چاہے آسکتا ہے۔ ملک الموت ہمیں لےجانے کے لیے آتا ہے۔ ہم سے مکالمہ نہیں کرتا۔ ہم فلم دیکھ رہےہوں، ملک الموت ہمیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ ہم چائے پی رہے ہوں، کھانا کھا رہے ہوں، گانا گا رہے ہوں، چاہے اپنی املاک کا حساب کتاب لگا رہے ہوں، ملک الموت ہمیں چپکے سے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ اس کے بعد دنیا ہمیں ڈھونڈے مگر ہم کسی کو نہیں ملتے۔ ہم گم ہوجاتے ہیں۔ مگر یہ گم ہونا زمینی گم ہونے سے قطعی مختلف ہے۔ جو لوگ ہمیں گم کردیتے ہیں ایک روز وہ خود ملک الموت کے ہاتھوں گم ہوجاتے ہیں۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں ملک الموت کا ذکر نہیں کررہا۔

میں جس کا ذکر کررہا ہوں وہ سب کا بہت بڑا اور مقبول ترین اسکیپ گوٹ scapegoat یعنی قربانی کا بکرا ہے۔ ہم اپنے تمام تر کالے کرتوت اس کے متھے ڈال دیتے ہیں۔ میں شیطان کی بات کررہا ہوں۔ ہماری گھٹی میں ڈال دیا گیا ہے کہ ہم انسان بڑے ہی نیک اور پارسا ہیں۔ ہم تمام کالے کام شیطان کے ورغلانے میں آکر کرتے ہیں۔ ورنہ ہم بہت اچھے ہیں۔

ہم تو صراط المستقیم پر چلنے والے ہیں۔ شیطان ملعون ہمیں پٹری سے اتار دیتا ہے۔ میں چوری اس لیے کرتا ہوں کہ شیطان مجھے چوری کرنے پر اکساتا ہے۔ میں ڈاکہ اس لیے ڈالتا ہوں کہ شیطان مجھے ڈاکہ ڈالنے پر اکساتا ہے۔ میں شیطان کی باتوں میں آکر قتل و غارت گری کرتا ہوں۔ ہم سب شیطان کے بہلانے پھسلانے میں آکر مختلف بینکوں سے اربوں کھربوں کا قرض لیتے ہیں۔ اور شیطان سے مشورے کے بعد ہم اپنے آپ کو دیوالیہ ثابت کرتے ہیں اور بینک سے استدعا کرتے ہیں چونکہ ہم کنگال ہوچکے ہیں ہمیں قرض واپس کرنے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ بینک خندہ پیشانی سے قرض واپس کرنے کے دستاویزات منسوخ کردیتا ہے۔

بظاہر ہماری چال بازی، دھوکہ بازی کے زمرے میں آتی ہے۔ مگر یہ دھوکہ بازی ہم خود نہیں کرتے۔ یہ دھوکہ دہی ہم شیطان کے بہلا نے پھسلانے میں آکر کرتے ہیں۔ کسی اور کی املاک ہم اپنی مرضی اور منشاسے ہڑپ نہیں کرتے۔ ہم شیطان کے اکسانے پر یہ کام کرتے ہیں۔ کسی کے لائق بیٹے کو حق سے محروم کرکے اپنے نالائق بیٹے کو ملازمت ہم نہیں دلواتے، یہ مکروہ کام ہم شیطان کے کہنےمیں آکر کرتے ہیں۔ اغوا برائے تاوان جیسے جرائم ہم خود نہیں کرتے۔

ایسے گھناؤنے جرائم ہم سے شیطان کرواتا ہے۔ انتخابات کے دوران بیلٹ بکسوں میں جعلی ووٹ ہم اپنی مرضی سے نہیں ڈالتے۔ یہ کام ہم سے شیطان کرواتا ہے۔ انسان ہوکر ہم دوسرے کسی انسان کو قتل نہیں کرتے۔ مگر یہ کام بھی ہم شیطان کی سحر انگیزی میں آکر کرتے ہیں۔ قتل و غارت گری، بم دھماکے، لوٹ مار، فحاشی، بد فعلی، اور ہوس پرستی جیسے جرائم شیطان ملعون کے اکسانے پر ہوتے ہیں۔ گناہ کرنے کے بعد ہم شرمندہ ہونے کے بجائے ضمیر کی ملازت کا ملبہ شیطان کے کھاتے میں ڈال دیتےہیں۔ اور خود ہم ہلکے پھلکے ہو کر اچھلتے کودتے پھرتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر شیطان نہ ہوتا تو پھر ہم اپنے گناہوں کا بوجھ کس کے سر ڈالتے!

شیطان چاہے کسی رنگ و روپ میں آئے، آتے ہی کہتا ہے۔ ’’میں تب بھی غلط نہیں تھا۔ میں آج بھی غلط نہیں ہوں۔ میں کبھی بھی غلط نہیں ہوسکتا۔‘‘

ایک روز میں نے شیطان سے پوچھا تھا، ’’تونے اانسان کو سجدہ کیوں نہیں کیا تھا؟‘‘

شیطان نے کہا تھا، ’’میں اپنے رب کے علاوہ کسی کو سجدہ نہیں کرسکتا۔‘‘

میں نے کہا، ’’انسان کو سجدہ کرنے کا حکم تمہیں اللہ تعالیٰ نے دیا تھا۔ پھر تم نے حکم عدولی کیوں کی؟

شیطان نے کہا، ’’میں تمہیں بتاچکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کےعلاوہ میں کسی کو سجدہ نہیں کرسکتا۔ اور وہ بھی انسان کو!

میں نے پوچھا، ’’کیا تمہیں کبھی اپنے فیصلے پر افسوس ہوا ہے؟‘‘

’’کبھی نہیں۔‘‘ شیطان نے کہا۔ ’’ میں تب بھی غلط نہیں تھا۔ میں آج بھی غلط نہیں ہوں۔ میں کبھی بھی غلط نہیں ہوسکتا‘‘۔

میں نے شیطان سے کہا۔ ’’اگر تم نے رب تعالیٰ کی حکم عدولی نہیں کی ہوتی تو آج تم ملائکوں کے سردار ہوتے۔ کیا برائی تھی انسان کو سجدہ کرنے میں؟‘‘

’’میں جانتا تھا انسان دنیا میں جاکر گند پھیلائے گا۔ دنگا فساد برپا کرے گا۔ دھرتی کو دوزخ بنادے گا‘‘۔ شیطان نے کہا۔ ’’میں ایسے انسان کو سجدہ نہیں کرسکتا‘‘۔

میں نے شیطان سے کہا۔ ’’تم اب بھی اگر انسان کوسجدہ کرلو تو ہوسکتا ہے تمہیں معافی مل جائے‘‘۔

’’ایسے انسان کو سجدہ کروں جو اپنے گھناؤنے گناہوں کا ذمہ دار مجھے ٹھہراتا ہے!‘‘ شیطان نے کہا۔ ’’میں کل بھی انسان کا منکر تھا۔ میں آج بھی انسان کا منکر ہوں۔ قیامت تک میں انسان کا منکر رہوں گا۔ زمین پر انسان سب سے بڑا فتنہ ہے۔ ایسے انسان کو کیونکر میں سجدہ کرتا!‘‘