دین میں معیار حق ، شخص یا اصول

Dr Irfan Shahzad
ڈاکٹر عرفان شہزاد، صاحبِ مضمون

دین میں معیار حق ، شخص یا اصول

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

دین اسلام میں کسی شخص کی مطلق اطاعت اور اندھی تقلید کا تصور موجود نہیں ہے۔ کسی انسانی شخصیت کو مطلقاً معیارِ حق قرار نہیں دیا گیا۔ دین میں معیارِ حق، وحی اور اس کے طے کردہ اخلاقی اور شرعی اصول اور قوانین ہیں۔ چنانچہ دینی شخصیت خواہ کوئی بھی ہو، اس کے اقوال، افعال اور اعمال کو دین و شریعت کے معیار پر پورا اترنے کے بعد ہی نمونہ عمل یا معیارِ مطلوب کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔ کسی بھی شخصیت کا کوئی بھی قول اور فعل اگر دین کے مسلّمہ اصولوں یا معیارِ مطلوب سے  کم  نکلے تو اسے رد کرنا ہی دین کا تقاضا ہے۔ اس اصول سے کسی کو بھی استثنا حاصل نہیں، حتی کے انبیا کو بھی نہیں، جن کو دین میں اعلی ترین منصب حاصل ہے۔ اس اصول کی طرف رہنمائی قرآن مجید نے نہایت وضاحت سے کی ہے۔

محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا حکم دیتے ہوئے اللہ نے فرمایا:

وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ (سورہ ممتحنہ، 60:12)

اور (بیعت کرنے والی یہ خواتین) بھلائی کے کسی معاملے میں تمھاری نافرمانی نہ کریں گی۔

یہ معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی منکر کا حکم نہیں دے سکتے تھے، تاہم بطور اصول یہ لکھ دیا گیا کہ رسول ؐکی اطاعت بھی صرف معروف یعنی بھلائی کے کاموں میں ہی کی جا سکتی ہے۔ بالفرض محال، رسولؐ کی بھی کوئی بات غیر معروف پر مبنی ہوتی تو اس کی اطاعت بھی نہ کی جاتی کہ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی فرماں برادری نہ کرنے کا اصول یہاں بھی لا گو ہے۔

قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کی دل جوئی کے لیے کوئی حلال چیز اپنے اوپر حرام ٹھیرا لی تھی۔ اللہ تعالی نے اس پر آپؐ کو تنبیہ فرمائی کہ ایسا کرنا آپؐ کے منصبِ رسالت کے مطابق نہیں تھا۔ آپؐ کا کردار، آپؐ کے اعمال و افعال لوگوں کے لیے نمونہ عمل ہیں، آپؐ خدا کی کسی حلال چیز کو خود پر حرام نہیں ٹھیرا سکتے۔ یہ ایک غیر ارادی تجاوز تھا جو  آپؐ سے اپنی بیویوں کی دل داری کے لیے ہو گیا تھا مگر اس پر تنبیہ ہو جانے پر آپ نے اپنی قسم توڑی اور کفارہ ادا فرمایا:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ  تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ  وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ  قَدْ فَرَضَ اللَّـهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ  وَاللَّـهُ مَوْلَاكُمْ  وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (سورہ تحریم، 66:1-2)

اے نبی، تم اپنی بیویوں کی دل داری میں وہ چیز کیوں حرام ٹھیراتے ہو، جو اللہ نے تمھارے لیے جائز رکھی ہے؟ (خیر جو ہوا سو ہوا)، اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ اپنی اِس طرح کی قسموں کو توڑ دینا اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے اور اللہ ہی تمھارا مولیٰ ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔

یہاں آپ کا پہلا عمل نمونہ تقلید نہ تھا، اس لیے بروقت اس کی اصلاح کر کے اسے اس لحاظ سے نمونہ تقلید بنا دیا گیا کہ اگر اس قسم کی کوئی قسم اٹھا لی جائے تو اس کا توڑنا واجب ہے۔

اسی طرح دیگر انبیا کے قصص بھی قرآن میں موجود ہیں۔ موسیؑ کے ہاتھ سے ایک قبطی کا قتل ہو گیا۔ آپؑ نے اسے شیطانی فعل قرار دیا، خدا سے معافی مانگی۔ خدا نے بھی یہ نہیں کہا کہ کوئی بات نہیں، آپؑ سے غیرت میں آ کر قتل ہو گیا ہے، نیز آپؑ کا ارادہ تو تھا بھی نہیں، اور مرنے والا ایک کافر اور ظالم قوم کا فرد تھا۔ اس کے برعکس اللہ نے اس فعل کو جرم ہی قرار دیا کہ  یہ اگرچہ غیر ارادی طور پر سرزد ہوا، تاہم تھا یہ قتلِ خطا کا جرم ہی، چنانچہ اس پر معافی مانگنے پر اللہ نے آپؑ کو معاف فرمایا اور آپؑ نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا:

وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَـٰذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَـٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ  فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ قَالَ هَـٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ  قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ  إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ  قَالَ رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرًا لِّلْمُجْرِمِينَ (سورہ القصص، 28:15-17)

(ایک دن اتفاق سے) وہ ایسے وقت شہر میں داخل ہوا، جبکہ شہر کے لوگ بے خبر ہوتے تھے تو اُس نے دیکھا کہ دو آدمی وہاں لڑ رہے ہیں۔ ایک اُس کی اپنی قوم میں سے تھا اور دوسرا اُس کے دشمنوں کی قوم میں سے۔ پھر اُس کی قوم کے آدمی نے اُس شخص کے مقابل میں اُس کی مدد چاہی جو اُس کے دشمنوں میں سے تھا تو موسیٰ نے اُس کے گھونسا مارا اور اُس کا کام تمام کر دیا۔ (یہ حرکت سرزد ہوتے ہی) موسیٰ نے کہا: یہ تو مجھ سے شیطانی کام ہو گیا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ شیطان ایک کھلا ہوا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔ اُس نے دعا کی کہ میرے پروردگار، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، سو مجھ کو بخش دے تو اُس کے پروردگار نے اُسے بخش دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔  موسیٰ نے کہا: میرے پروردگار، یہ عنایت جو تو نے مجھ پر فرمائی ہے، اِس کے بعد تو اب میں اِس طرح کے مجرموں کا کبھی مددگار نہ بنوں گا۔

پھر ایک اور موقع پر جب موسیؑ پہلی دفعہ خدا کے ساتھ ہم کلام ہوئے اور عصا کو لاٹھی میں تبدیل ہوتے دیکھ کر آپ خوف زدہ ہوئے تو اس پر خدا نے موسیؑ کے اسی جرم کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ رسولوں کو اللہ کے حضور ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ڈرے وہ جس نے کوئی ظلم کیا ہو۔ موسیؑ سے قبطی کے قتل کے معاملے میں ظلم ہو گیا تھا لیکن چونکہ آپ نے توبہ کر کے اور آئندہ ایسے کسی طرز عمل سے خود کو بچا کر خدا سے معافی حاصل کر لی تھی، اس لیے  اس لیے آپ کو بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں۔

يَا مُوسَىٰ إِنَّهُ أَنَا اللَّـهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ  وَأَلْقِ عَصَاكَ  فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ  يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ  إِلَّا مَن ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورہ النمل،27:9-11)

اے موسیٰ، یہ میں ہوں اللہ، زبردست اور حکیم(اِس لیے مضبوط ہو جاؤ) اور اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دو۔ پھر جب موسیٰ نے اُس کو دیکھا کہ وہ اِس طرح بل کھا رہی ہے ، گویا وہ سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پلٹ کر دیکھا بھی نہیں۔ (ارشاد ہوا): اے موسیٰ، ڈرو نہیں، میرے حضور پیغمبر ڈرا نہیں کرتے۔ ہاں مگر جو برائی کے مرتکب ہوں، پھر برائی کے بعد وہ اُسے بھلائی سے بدل دیں تو (اُن کے لیے ) میں بڑا بخشنے والا اور بڑا مہربان ہوں۔

اسی تناظر میں نہایت اہم  واقعہ یونسؑ کا ہے۔ وہ خدا کے حکم سے پہلے اپنی بستی کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس پر ان کو نہ صرف تنبیہ ہوئی بلکہ چالیس دن مچھلی کے پیٹ میں قید رکھ کر سزا بھی دی گئی، بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ اگر وہ اپنی اس خطا پر خدا سے معافی طلب نہ کرتے تو مچھلی کا وہی پیٹ ان کا مدفن بنا جاتا:

وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ(سورہ الانبیاء، 21:87)

ور مچھلی والے (یونس) پر بھی، جب وہ (اپنی قوم سے) برہم ہو کر چلا گیا اور اُس نے خیال کیا کہ ہم اُس پر کوئی گرفت نہ کریں گے۔ لیکن پھر اندھیروں میں پکار اٹھا کہ (پروردگار)، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں ہی قصور وار ہوں۔

وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ  إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ  فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ  فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ  فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ  لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ   فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ  وَأَنبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّن يَقْطِينٍ  وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ (سورہ الصافات، 37:139-144)

یونس بھی یقیناً پیغمبروں میں سے تھا۔ یاد کرو، جب وہ (اپنی قوم کو چھوڑ کر) کشتی کی طرف بھاگ نکلا۔ جو (مسافروں سے) بھر چکی تھی۔  پھر (کشتی طوفان میں گھر گئی اور اُن کے کہنے پر) اُس نے قرعہ ڈالا تو (اُسی کے نام پر نکلا اور) وہ (دریا میں) پھینک دیا گیا۔ پھر اُس کو مچھلی نے نگل لیا اور وہ سزاوار ملامت ہو چکا تھا۔ سو اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا۔  تو اُس دن تک مچھلی کے پیٹ ہی میں پڑا رہتا، جب لوگ اٹھائے جائیں گے۔

اسی تناظر میں ایک واقعہ نوحؑ کا قران مجید میں نقل ہوا ہے۔ ان کی قوم پر جب طوفان آیا تو ان کا بیٹا بھی اس میں ڈوب گیا۔ اللہ تعالی نے، طوفان سے پہلے نوحؑ کو بتا دیا تھا کہ وہ اپنے اہل عیال کو کشتی میں سوار کرا لیں اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ اُس طوفان سے وہی بچیں گے جو ایمان والے ہوں گے:

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ  وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ  (سورہ ھود، 11:40)

یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور طوفان ابل پڑا تو ہم نے کہا: ہر قسم کے جانوروں میں سے نر و مادہ، ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو اور اپنے گھر والوں کو بھی (اِس کشتی میں سوار کرا لو)، سو اے اُن کے جن کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے، اور اُن کو بھی جو ایمان لائے ہیں ۔۔۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔

نوحؑ کا بیٹا باوجود پاب کی درد مندانہ اپیل کے ان کے ساتھ شامل ہونے سے انکاری رہا اور موجوں کا شکار ہو کر ڈوب گیا:

وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَىٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ  قَالَ سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ  قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ إِلَّا مَن رَّحِمَ  وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ (سورہ ھود، 11:42-43)

وہ کشتی پہاڑوں کی طرح اٹھتی ہوئی موجوں کے درمیان اُن کو لے کر چلنے لگی اور نوح نے اپنے بیٹے کو آواز دی، جو (کچھ فاصلے پر اُس سے) الگ تھا۔ بیٹا، ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور اِن منکروں کے ساتھ نہ رہو۔ س نے پلٹ کر جواب دیا: میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لوں گا جو مجھے اِس پانی سے بچا لے گا۔ نوح نے کہا: آج اللہ کے حکم سے کوئی بچانے والا نہیں ہے، مگر جس پر وہ رحم فرمائے۔ (اتنے میں) ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا۔

خدا کا حکم واضح تھا کہ نجات کس کے لیے ہے،  لیکن نوحؑ اپنے بیٹے کی محبت میں جذبات سے مغلوب ہو کر خدا سے سوال کر بیٹھے:

وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ  (سورہ ھود، 11:45)

نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کہ پروردگار، میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے اور اِس میں شبہ نہیں کہ تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بڑا فیصلہ کرنے والا ہے۔

اس پر انھیں پر جلال تنبیہ کی گئی کہ آپؑ کو بتا دیا گیا تھا کہ اس عذاب سے صرف اہل ایمان بچیں گے اور آپ کا بیٹا اہل ایمان میں سے نہ تھا بلکہ سخت ناہنجار تھا۔ اس پر فوراً نوحؑ نے خدا سے معافی مانگی:

قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ  إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ   فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ  وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ (سورہ ھود، 11:46-47)

فرمایا: اے نوح، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ نہایت نابکار ہے۔ سو مجھ سے اُس چیز کے بارے میں سوال نہ کرو جس کا تجھے کچھ علم نہیں ہے۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ جذبات سے مغلوب ہو جانے والوں میں سے نہ بنو۔ نوح نے فوراً عرض کیا: پروردگار، میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ تجھ سے کوئی ایسی چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں ہے۔ اور (جانتا ہوں کہ) اگر تو مجھے معاف نہ کرے گا اور مجھ پر رحم نہ فرمائے گا تو میں نامراد ہو جاؤں گا۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ اس دنیا  میں کتاب ہستی کے پہلے صفحے پر آدمؑ کی غلطی رقم ہے، جس پر انھیں جنت سے خارج کر دیا گیا تھا۔ نمونہ عمل، البتہ ان کا یہ فعل بنا کہ انسان کو غلطی کے بعد شیطان کی طرح  اپنی غلطی پر اڑ نہیں جانا چاہیے بلکہ ندامت کے ساتھ خدا سے معافی مانگ کر خدا سے تعلق استوار کر لینا چاہیے:

وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ  ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ (سورہ طہ، 20:121-122)

اِس طرح آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اور راہ راست سے بھٹک گیا۔ پھر اُس کے پروردگار نے اُس کو برگزیدہ کیا۔ سو اُس کی توبہ قبول فرمائی اور اُسے راستہ دکھا دیا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ وحی کی روشنی میں پیغمبر، ہمارے لیے نمونہ عمل اس لیے بنتے ہیں کہ ان کے درست اعمال پر خدا کی طرف سے کھلی یا خاموش تائید اور ان سے سرزد ہو جانے والی فرو گزاشتوں پر بروقت تنبیہ آ جاتی تھی، جس سے مطلوبہ معیاری عمل واضح ہو کر سامنے آ جاتا تھا، لیکن وحی کا سلسلہ رک جانے کے بعد، ایسا کوئی امکان ہی موجود نہیں کہ کوئی شخصیت کامل نمونہ عمل بن سکے۔ زمانہ بعد از وحی میں، دینی شخصیات کی فروگزاشتوں پر خدا کی طرف سے نہیں بلکہ اسی وحی کی روشنی میں اس وحی کا فہم رکھنے والوں کی طرف سے تنبیہ اور تنقید کی جاتی رہی ہے اور کی جاتی رہے گی۔ اس وحی کی کسوٹی پر جس کا عمل پورا اترے گا، اس کا وہی عمل نمونہ عمل اور لائق تقلید مانا جائے گا۔ کوئی شخصیت اور اس کا کوئی عمل بھی اپنے آپ میں کوئی معیار نہیں ہے۔ اس اصول سے کسی بھی شخصیت کو استثنا حاصل نہیں۔