کُونڈوں سے جڑی بچپن کی یادیں

Khizer Hayat
خضرحیات

کُونڈوں سے جڑی بچپن کی یادیں

از، خضر حیات

اسلامی کیلنڈر کے مطابق 22 رجب المرجب کا دن دو حوالوں سے یاد کیا جاتا ہے یا منایا جاتا ہے۔ پہلا حوالہ یہ کہ اس دن خلافتِ راشدہ کے بعد قائم ہونے والی اُموی خلافت کے پہلے خلیفہ اور یزید کے والد امیر معاویہ فوت ہوئے تھے۔ جبکہ دوسرا حوالہ یہ ہے کہ اس دن اہلِ تشیع حضرات چھٹے امام، امام جعفر صادقؒ کی نسبت سے دسترخوان سجاتے ہیں جسے ہم کُونڈوں کے نام سے جانتے ہیں۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کُونڈوں کا تہوار برصغیر پاک و ہند کے لکھنؤ میں شیعہ مسلمانوں نے منانا شروع کیا تھا اور اس تہوار کا باقی مسلم دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جبکہ یہ بھی ہے کہ بعض دیگر اسلامی ملکوں میں بھی اس دن نیاز پکانے اور تقسیم کرنے کے حوالے بھی بہرحال ملتے ہیں۔ بہرکیف اس کے آغاز سے متعلق کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تہوار روایات پر مبنی ہے اور ہر سال 22 رجب کو منایا جاتا ہے۔

میرا تعلق پیدائشی طور پر ایک خالصتاً سُنّی گھرانے سے ہے۔ دادا جان اور امی کو مزاروں سے خاص عقیدت تھی اور ہم بھی ان کی معیت میں کئی بزرگوں کے آستانوں پر بچپن سے ہی حاضریاں لگواتے رہے ہیں۔ مگر اس سب کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ بچپن سے ہی ہمارے گھر میں 22 رجب کے دن کھیر پکا کر انہیں مٹی کی چھوٹی چھوٹی کُجیوں میں بھر کے بچوں کو کھلانے کا رواج بھی عام رہا ہے۔ اور صرف ہمارے ہی گھر کیوں، اس دن اکثر غیر شیعہ گھروں میں نیاز پکتی اور تقسیم ہوتی ہم بچپن سے ہی دیکھتے آئے ہیں۔

ہم نے کبھی کسی بڑے سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ یہ کیوں ہوتا ہے اور کھیر کیوں پکائی جاتی ہے۔ ہمارے  لیے یہ دن بھی بس عیدین کی طرح (جو اس وقت دو ہی ہوتی تھیں) کا ہی ایک دن ہوتا تھا جسے اکثر لوگ تہوار کے طور پر مناتے تھے اور ہم بھی ان اکثر لوگوں میں شامل تھے۔

ہم بچوں  کے لیے اگرچہ اس تہوار میں دل چسپی کا زیادہ سامان مٹی سے بنی ہوئی ان چھوٹی چھوٹی کُجیوں ٹھوٹھیوں میں ہی ہوتا تھا جنہیں شہر سے آنے والا چاچا ریڑھی پہ لاد کے لاتا تھا اور ایک دن پہلے سب گھروں کو بیچ جاتا تھا۔ ہمارے  لیے یہ کُجیاں خاص دل چسپی کا سامان تھیں کہ ہم یہ تہوار گزرنے کے کئی کئی دن بعد تک انہیں سنبھال کے رکھتے تھے اور ان کے ساتھ کھیلتے تھے۔ اب اس دن سویرے سویرے اٹھ کے سب گھروں میں کھیر اور میٹھا پانی تقسیم کرنا ہوتا تھا اور ساتھ ہی ہر گھر سے اپنے  لیے کُجی ٹھوٹھی بھی اکٹھی کرنی ہوتی تھی۔ ہم بچوں کے لیے اس میں اتنی ہی دل چسپی تھی مگر ظاہر ہے کہ گھر کے بڑے تو عقیدت کے زیرِاثر ہی یہ سارا اہتمام کیا کرتے تھے۔

عقیدت اور مخلوط کلچر کی دوسری مثال میرے ایک چچا بھی تھے جو 10 محرم کے جلوس میں محض اس  لیے شامل ہوتے تھے کہ ان کے اکثر دوست جو قریبی بستی سے تعلق رکھتے تھے وہ اہلِ تشیع تھے۔ ہم جب ذرا بڑے ہو رہے تھے تو ہم یہ بات اکثر ان کے سامنے ازراہِ مذاق کہتے تھے کہ چلیں اہلِ تشیع حضرات تو اس سب پر ایمان رکھتے ہیں مگر آپ کو کِن نفلوں کا ثواب ملے گا؟ تو اس پر وہ مسکراتے ہوئے یہی جواب دیتے کہ جب باقی سارے کام ہم دوست یار مل جُل کے کرتے ہیں تو ماتم کرنے میں کیا حرج ہے۔ اب خبر نہیں تب ان کے ایمان کمزور تھے یا دینِ اسلام کا پیغام ان تک غیر واضح طور پہ پہنچا تھا۔ جو بھی تھا بہرحال بچپن کی خوب صورت ترین یادوں میں یہ بھی شامل تھی کہ تہوار کافی حد تک سانجھے ہوا کرتے تھے۔

مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ یہ تہوار ہمارے گھروں میں سے چپکے سے اور غیر محسوس طریقے سے رخصت ہو گیا۔ دادا جی تو اللہ کو پیارے ہوگئے مگر امی حیات ہیں اور ان کا آج بھی وہی عقیدہ ہے جو ہمارے بچپن میں تھا۔ یعنی نماز پڑھنی ہے، روزہ رکھنا ہے، روز قرآن مجید کی تلاوت کرنی ہے اور جب بھی فرصت ملی جمعہ والے دن کسی بزرگ کے آستانے پہ سلام کرنے جانا ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کا عقیدہ وہی ہے تو پھر یہ دن ہمارے گھر اب اتنے سالوں سے کیوں نہیں آتا؟

ماننا پڑے گا کہ کچھ تو ہے جو ان پچھلے بیس پچیس سالوں میں بدلا ہے۔ اب یہ کیوں بدلا ہے اس کی وجوہات بالکل بھی مبہم نہیں ہیں، یہ بہت واضح ہیں۔ ہمیں اسلام میں پائی جانے والی بدعتوں کا احساس شروع سے کیوں نہیں تھا اور کچھ سالوں سے ہی کیوں ہونا شروع ہو گیا ہے؟ ان بدعتوں سے بچنے بچانے کے چکر میں ہم نے ایک دوسرے سے دوری نہیں اختیار کر لی؟ یہ تبدیلی کچھ عجیب سی لگ رہی ہے۔ خیر یہ میرا وہم بھی ہو سکتا ہے!

آج حالات یہ ہیں کہ جب کوئی اہلِ تشیع دوست اس دن کی مناسبت سے اپنے ہاں نیاز کھانے کی دعوت دیتا ہے تو وہ بچپن کے دن ضرور یاد آ جاتے ہیں جب تہواروں پہ کُفر کے فتوے نہیں لگے تھے۔ اللہ جانے ہم اب ایمان کی صحیح حالت میں ہیں یا ہمارے بچپن میں ہمارے بزرگ صحیح حالت میں تھے۔

خدا ہمارے ان بزرگوں کی بخشش فرمائے جنہوں نے اپنی پوری زندگی ایک مخلوط کلچر کو سنبھالے رکھنے اور نبھانے میں گزار دی۔ ان کو تو شاید خبر بھی نہ ہو کہ جن روایات کا وہ پورے صدقِ دل سے تمام عمر پرچار کرتے رہے وہ ان کے جانے کے بعد دائرہ اسلام سے خارج ہوتی گئیں۔ مگر پھر یہ سوچ کے تسلی ہو جاتی ہے کہ خدا کے ہاں اعمال سے زیادہ نیّتوں کو دیکھا جاتا ہے اس  لیے ہم پرامید ہیں کہ ہمارے بزرگوں کو کم از کم کُونڈوں جیسی ‘بدعتوں’ کی وجہ سے زیادہ مشکل سوال و جواب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ واللہ اعلم!