باقی سب افسانے ہیں

ایک روزن لکھاری
وسعت اللہ خان ، صاحبِ مضمون

باقی سب افسانے ہیں

(وسعت اللہ خان)

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی بھی جیت لی۔ کہیں کسی نے ٹی وی اسکرین چوم لی کہیں توڑ دی، کہیں خوشی میں ہوائی فائرنگ ہوئی اور لوگ زخمی ہوئے، کہیں دکھ میں ہوائی فائرنگ ہوئی اور لوگ زخمی ہوئے۔ اب کیا کریں؟

نشہ، جیت اور ہار۔ تینوں میں انسان کا اصل کھل جاتا ہے۔ شہنشاہِ سلفی ( سیلفی نہیں) مولا داد ملنگ کا قول ہے کہ کھوتے کی دولتی، محبوب کے مزاج، عمران خان کے بیان، عامر سہیل کے کلام، بادل کی اڑان اور کرکٹ کی اٹھان پر بھروسہ نہ کیجیو۔ جانے کس وقت کس سمت چلا جائے اور تم پیچھے پیچھے ٹاپتے پھرو۔

اس تاریخی فتح کے بعد یہ تحقیق ( جو کبھی نہیں ہو گی) فوری طور پر کرنی چاہیے کہ پاکستانی ٹیم پروفیشنل ہے یا مزاجی ؟

پروفیشنل ٹیم کی تعریف یہ ہے کہ سامنے حریف کوئی بھی ہو اور میچ جیت کی طرف جا رہا ہو کہ ہار کی سمت، ٹیم کا ہر کھلاڑی تسلسل کے ساتھ بغیر پھولے یا گھبرائے اپنی بہترین پرفارمنس دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

مزاجی ٹیم وہ ہوتی ہے جو دماغ سے زیادہ دل کی کوچنگ پر بھروسہ کرتی ہے۔ اسی لیے ٹیم کا مزاج بھی شاعرانہ ہوتا ہے۔ آمد ہوئی تو وکٹ لے لی یا سنچری بنالی، موڈ نہیں بنا تو ایک اوور میں چھتیس رنز بخش دیے یا انڈے پر وکٹ اڑوا کے پویلین میں پہنچ کر پھر کائنات کی بے ثباتی پرمستغرق ہو گئے۔

لوگ کہتے ہیں کہ کرکٹ کھیلنے والی اقوام میں پاکستان واحد ٹیم ہے جو آورد کے بجائے آمد پر یقین رکھتی ہے۔ کسی میچ میں ایک مصرعہ بھی موزوں نہ ہو پایا اور اگلے میچ میں سہہ غزلہ ٹانک دیا۔

اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجیے: ماضی، حال اور نوجوان

وجہ سب کے سامنے ہے مگر کہتا کوئی نہیں۔ جب تک اربوں روپے کا مالک کرکٹ بورڈ اچھی اکیڈمیوں، اچھے گراؤنڈز کی تعمیر، اچھے ٹیلنٹ ہنٹ اور اس ٹیلنٹ کو صیقل کرنے کے لیے اچھی گرومنگ، کوچنگ اور مراعات کا ماحول پیدا کرنے اور ایک سائنٹفک ڈھانچہ کھڑا کرنے کے لیے کاؤنٹی میچز ٹائپ کوئی باقاعدہ کیلنڈرانہ نظام نہیں بنائے گا تب تک گلی محلوں کا قلندرانہ نظام ہی ٹیلنٹ کی پرورش کرے گا۔

آفرین ہے کہ بڑے بڑے گراؤنڈز اور فلاحی پلاٹ کہ جنھیں صرف کھیلوں کی سہولتوں کے لیے وقف کرنا مقصود تھا، انھی سیاستدانوں، بیوروکریٹس، لینڈ ڈویلپرز، کنٹریکٹرز اور بلڈرز کے شکم کا شکار ہو گئے کہ جو چیمپینز ٹرافی جیتنے پر نہ صرف مبارک باد دینے میں آگے آگے ہیں بلکہ اس ملک میں کھیلوں کی سہولتیں بڑھانے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

آپ پاکستانی کرکٹرز کی سوانح دیکھ لیں۔ نوے فیصد ٹیلنٹ گلیوں، محلوں اور بیچ سڑک میں تین ڈنڈے کھڑے کر کے ہر آنے جانے والی گاڑی سے بچتا ہوا بالنگ اور بیٹنگ کرتا نکھرتا ہے، کھڑکیوں اور گاڑیوں کے شیشے توڑنے کے جرم میں پڑوسیوں اور گھر والوں کی لعنت ملامت برداشت کرتا ہے اور پھر ایک دن میاں داد، انضمام، آفریدی، یونس خان، سرفراز اور حسن علی وغیرہ وغیرہ میں ڈھل جاتا ہے۔

اور جب یہ جگہ بنا لیتا ہے تو پھر آپ ان سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ ہم سہولتیں تو نہیں دے سکتے مگر کھیل پروفیشنل، سائنسی اور موڈ و مزاج کی قید سے آزاد ہونا چاہیے۔ ٹیلنٹ کو توآپ کسی صورت نہیں روک سکتے۔ لیکن جب آپ صلاحیت کو گروم کرنے کا نظام نہیں دیں گے تو یہ خود رو ٹیلنٹ بھی اپنی سمجھ اور مزاج کے حساب سے ڈلیور کرے گا۔

آپ ان کی ناکامیوں کو اگر گلے سے نہیں لگا سکتے تو ان کی کامیابیوں کو بھی گلے سے لگانے کا آپ کو کوئی حق نہیں۔ تنقید کا حق صرف اسے ہے جس نے ان بچوں کے لیے کچھ بہتر کرنے کی کوشش کی۔ مفت کی تنقید اور مفت کی تعریف کی ان کھلاڑیوں کو نہ کبھی ضرورت تھی اور نہ ہو گی اور نہ اس کا کوئی دیرپا اثر ہوگا۔

لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تیری
ہم تیری دوستی سے ڈرتے ہیں

سرائیکی کی مثال ہے کہ ’’جتھ سائیں دا پیر، ڈاتری پھیر نہ پھیر‘‘ یعنی جہاں سائیں کا پیر پڑتا ہے وہاں درانتی کی ضرورت نہیں کیونکہ گھاس ہی اگنا بند کردیتی ہے۔

یاد ہے نا کہ جس زمانے میں کرکٹ اشرافیہ تک محدود تھی اور ہاکی عام آدمی کی آنکھوں کا تارہ تھی۔ بچے بچے کو اسی طرح ہاکی ٹیم کے گیارہ کھلاڑیوں کے نام ازبر تھے جیسے آج کرکٹرز کے ہیں۔

اسکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی تک اور سرکاری محکموں کے مابین ٹورنامنٹس کا ایک جال بچھا ہوا تھا جس میں سے ہاکی ٹیلنٹ نتھر نتھر کے نیشنل پول میں جمع ہوتا رہتا تھا۔ اس دور میں دنیا کی ایسی کون سی ٹرافی یا ٹائیٹل تھا جو پاکستان نے اپنے سر پر نہ سجایا ہو۔

ایک سیزن تو ایسا بھی گذرا کہ تمام عالمی ٹائیٹلز پاکستانی ٹیم کے پاس تھے۔ جب شکار اتنا موٹا تازہ اور خوبصورت ہو تو گدھ کیوں نہ منڈلائیں۔ ہاکی کا ڈھانچہ کھکل ہونے لگا اور کارپوریٹ پیسہ اور توجہ کرکٹ کی جانب سرکنے لگی۔

یوں ہاکی یتیم ہوتی چلی گئی۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ دو روز پہلے ہی بھارت نے پاکستان کو ایک سات سے ہرایا اور ہمارے لیے یہ کوئی خبر ہی نہیں تھی کیونکہ ہم کرکٹ کی مارفین میں جو دھت تھے۔

پاکستان کی بیس کروڑ آبادی میں آج ایسا ایک بھی بچہ جسے موجودہ ہاکی ٹیم کے گیارہ چھوڑ چار نام بھی ازبر ہوں تو مجھے بھی ملوائیے گا۔

آج جو کرکٹ کے مامے بنے پھرتے ہیں اور ہر کامیابی کا سہرا اپنے سر پر باندھنے اور ناکامیوں کا ہار ٹیم کے گلے میں ڈالنے کے ماہر ہیں۔کل اسی قبیل کے لوگ ہاکی کے بھی مامے چاچے تھے۔ یہ سب وہی تو ہیں جو کھیل کے نہیں مایا کے ساتھ چلتے ہیں۔ آج اگر کارپوریٹ دستِ شفقتِ زر فٹ بال کی کمر پہ پھرنا شروع ہو جائے تو کرکٹ کو بھی ہاکی کی طرح یتیم ہونے میں کتنی دیر لگے گی ؟

مگر کچھ نہ ہوگا۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک عرصے بعد عطا ہونے والی اتنی عظیم فتح کو مسلسل معیار میں بدلنے کے لیے کرکٹ کو ایک پروفیشنل نظام کے تحت لایا جائے اور گلی میں کھیلنے والے بچے کو نیشنل اسٹیڈیم سے جوڑنے کے لیے کرکٹ بورڈ کے کھیسے میں موجود ہر ممکن وسائل استعمال کیے جائیں۔

منجھے ہوئے سابق و حاضر کھلاڑیوں کو شیمپو اور رمضان شوز کے برانڈ ایمبیسڈرز کے بجائے بین الاقوامی کرکٹ کو دوبارہ لاہور، فیصل آباد، بہاول پور، کراچی، حیدرآباد اور کوئٹہ کے ٹیسٹ میدانوں تک آنے پر آمادہ کرنے کی کوشش میں استعمال کیا جائے۔

مگر دوبئی اور شارجہ میں ہی اگر اچھی سیلفی بن رہی ہے تو آگے کا سوچنے اور کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا۔

نیشنل ایکشن پروگرام کی تکمیل اور کامیابی کی جانے آرمی اور چوہدری نثار علی خان کے نزدیک کیا کسوٹی ہے۔ مجھ جیسوں کے پاس تو بس ایک ہی کسوٹی ہے۔ جس دن ہر قابلِ ذکر بین الاقوامی کرکٹ ٹیم پاکستان کے میدانوں میں بلا جھجھک اترنے کو تیار ہو گئی اس دن سمجھو کہ نیشنل ایکشن پلان نے اپنا ہدف حاصل کرلیا۔ باقی سب افسانے ہیں۔


بشکریہ: ایکسپریس ڈاٹ پی کے