میں اب بھی رہائی کا منتظر ہوں

میں اب بھی رہائی کا منتظر ہوں

میں اب بھی رہائی کا منتظر ہوں

از، محمد شعیب

19 برس کے دوران دنیا بہت زیادہ بدل گئی ہو گی، سچ پوچھیے تو میں نہیں جانتا کہ اگر کبھی مجھے گجرات جیل سے باہر نکلنے کا موقع ملا تو کیا ہو گا۔ وہاں باہر منڈی بہاؤالدین میں میرا بھائی جسے میں بَنٹوں سے کھیلتا، درختوں پر چڑھتا اور ٹیوب ویل میں نہاتا چھوڑ آیا تھا اب جوان بچوں کا باپ ہے، اس کا بڑا لڑکا  سترہ سال کا ہے۔ میری عمر بھی سترہ سال تھی جب مجھے سزائے موت سنائی گئی۔ ابا جی کی وفات کے بعد اب گھر کے سب معاملات اسی کے ہاتھ میں ہیں، جو تھوڑی بہت زمین میری خاطر وکیلوں کے دفتروں اور عدالتوں کے چکر لگانے کے بعد بچ گئی ہے، وہ اسی پر کھیتی باڑی کر رہا ہے۔

ہو سکتا ہے ایسی ہی ایک زندگی میرا بھی مقدر ہوتی۔ میرا بھی گھر بار ہوتا، بیوی ہوتی، بچے ہوتے۔ انیس سال جیل میں گزارنے کے با وجود رہائی کا موہُوم امکان بھی امید کے ایسے ہی پودوں کو ہرا رکھے ہوئے ہے۔

میں پڑھنے میں نِکما تھا۔ اساتذہ کی ہدایات پر بخوبی عمل درآمد میرے بس سے باہر تھا۔ ان اساتذہ کے پاس نہ تو اتنا وقت تھا اور نہ ہی  اتنے وسائل کے وہ مجھ پر اور میری پڑھائی پر بھرپور توجہ دیتے۔ نتیجتاً گھٹن کا احساس بڑھتا گیا، اسی بے بسی نے بے کاری کو راہ دی اور بے کاری کا انجام آوارگی کی صورت میں نکلا۔

پڑھائی میں کم زوری پر سبھی مجھے مذاق کا نشانہ بناتے تھے، اسی تضحیک کے ہاتھوں میں ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے پر مجبور ہوا جو مجھے قبول کرنے کو تیار تھے۔

میں اور میرے دوست  سکول سے بھاگ کر ادھر ادھر آوارہ گردی کیا کرتے تھے، پم چھوٹے موٹے ایسے کام کیا کرتے تھے جن سے ہمیں طاقت اور آزادی کا احساس ہوتا تھا۔ ہم نے اپنی بے وقعتی  کا حل لغویات میں تلاش کیا۔

دس جولائی 1998 کی رات، پانچ لڑکوں کے ایک گِروہ نے دُگل پنڈ کے نزدیک ایک وین کو لوٹنے کی کوشش کی۔ وین ڈرائیور نے صورتِ حال بھانپتے ہوئے وین واپس موڑنے کی کوشش کی۔ پانچ لڑکوں میں سے ایک کے ہاتھوں بندوق چلی۔ اس واقعے میں زخموں کی تاب نہ لا کر ایک مسافر ہلاک ہو گیا۔

وقوعے کے ایک ماہ بعد مجھے گرفتار کر لیا گیا اور نا معلوم مقام پر لے جایا گیا۔


مزید دیکھیے: زندگیوں پہ پلتی وہ نہر

پھولن دیوی مجھے شدت سے یاد آتی ہے


وہاں میرے ہاتھ پشت پر باندھ دیے گئے  اور مجھے ایک رسی کے ذریعے چھت سے لٹکا دیا گیا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میرے  بازو میرے کندھوں سے علیحدہ ہو جائیں گے ۔

جب انہوں نے رسیاں کھولیں تو مجھے لگا کہ شاید دوبارہ ایسا نہیں ہو گا۔ لیکن جلد ہی انہوں نے  کمر کے بَل مجھے فرش پر لٹا دیا۔ ایک پولیس والا ایک لمبا اور موٹا بانس میری ٹانگوں پر رکھ  اس پر اکڑوں بیٹھ گیا، دو دوسرے سپاہی اس بانس کو میرے جسم پر گھسیٹنے لگے۔

میں درد سے چلانے لگا مگر میری آہ و بکا کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ مجھے زمین میں دُھنسا دینا چاہتے ہوں، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جب تک میرا جسم مٹی میں نہیں مل جائے گا وہ نہیں رکیں گے۔

میرے بھائی عباس نے مجھے بتایا کہ وہ دو ہفتے تک مجھے تلاش کرتے رہے تھے۔ دو ہفتے تک مجھے بغیر کوئی الزام لگائے قید رکھا گیا ۔ قید کے دوران مجھے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد سے بچنے کے لیے میں کچھ بھی قبول کرنے کو تیار تھا۔

اگر وہ مجھ سے میں کسی کے قتل کا اعتراف کرانا چاہتے تو میں یہ بھی ماننے کو تیار تھا۔

آخرِ کار وہ مجھے حوالات لے گئے۔ تھانے میں میری شناخت پریڈ کرائی گئی۔ لیکن یہ سب کچھ محض ایک دکھاوا تھا، واقعے کے گواہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ مجھے دیکھ چکے تھے۔ میں جانتا تھا کہ وہ مجھے شناخت کر لیں گے۔

تفتیشی افسر نے میرے ابا سے  رشوت طلب کی تھی۔ رشوت نہ دینے کی صورت میں اس نے میرا مقدمہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں چلانے کی دھمکی دی۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے سزا یقینی تھی۔

ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے کو ہے۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مجھے موت کی سزا سنا دی۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ میری عمر سترہ برس ہے۔ سرکاری وکیل کی درخواست پر میری عمر جانچنے کا ٹیسٹ بھی کرایا گیا۔ نا بالغ ہونے کے با وجود مجھے موت کی سزا سنا دی گئی، کیوں کہ تب تک نا بالغوں کو سزائے موت سے تحفظ دینے کا قانون منظور نہیں کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں اور اپنی گواہی کے دوران  پولیس والوں کا کہنا تھا کہ اس رات گولی میں نے چلائی تھی۔ اس صریح جھوٹ  کی بناء پر ہی انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ مجھے سزائے موت دی جانی چاہیے۔ اس مقدمے میں صرف مجھے ہی سزائے موت دی گئی تھی۔ میرے ساتھ پکڑے جانے والوں کو قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ سب کے سب اپنی قید کاٹ کر اپنی اپنی زندگیوں کو لوٹ چکے ہیں۔

انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک ہر جگہ میری عمر سترہ سال تسلیم کی گئی، لیکن کوئی بھی مجھے  جرم کے وقت نا بالغ ہونے کی وجہ سے ملنے والی رعایت دینے کو تیار نہ تھا۔

مارچ 2016 میں میرے ڈیتھ وارنٹ  جاری ہو گئے۔ کوئی آسرا نہ پا کر میرے بھائی نے مقتول کے ورثا سے رابطہ کیا۔ عباس بار بار مقتول کے بیٹوں کے پاس گیا۔ ایک روز اس نے میرے بھائی کو کہا کہ ” وہ اپنے حصے کی سزا کاٹ چکا  ہے، خدا ہمیں معاف کرنے کا درس دیتا ہے۔” اور اس نے یہی کیا۔ اس نے مجھے معاف کر دیا۔

معافی کی خبر لیے میرا بھائی عدالت سے میری پھانسی کے خلاف حکم اِمتناع حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا، لیکن مجھے پھر بھی رہا نہیں کیا گیا۔ کیوں؟ کیوں کہ میرا مقدمہ انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت چلایا گیا تھا۔ میری قسمت کا فیصلہ  تبھی ہو گیا تھا جب ہم رشوت کی رقم ادا نہیں کر پائے تھے۔

پچھلے سال جولائی میں  جیل حکام نے ایک بار پھر میرے ڈیتھ وارنٹ جاری کرنے  کی درخواست ہوم ڈیپارٹمنٹ کو بھجوا دی۔ لیکن معجزانہ طور پر جسٹس پراجیکٹ پاکستان اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی کاوشوں سے یہ درخواست واپس لے لی گئی۔

موت کو بار بار قریب آتے دیکھنا آسان نہیں۔

عدالتوں کا یہ گھن چکر میرے خاندان کے لیے آسان نہیں تھا۔ ہمارا سب کچھ اسی گُھن لگے نظام کی نذر ہو گیا۔ میرا باپ کورٹ کچہریوں کے چکر کاٹتا اس دنیا سے چلا گیا۔ میں اس کا آخری دیدار بھی نہیں کر پایا۔ ایک زمانہ میرے جیل میں رہتے ہوئے بیت گیا۔

سن 2000 میں جووینائل جسٹس سسٹم آرڈیننس  جاری کیا گیا۔ ایک برس بعد صدر نے ایسے تمام قیدیوں کی سزائے موت معاف کر دی جو جرم کے وقت نا بالغ تھے۔ اس حکم نامے کے تحت مجھے بھی معافی ملنا تھی۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر میرا معاملہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کو بھجوا دیا گیا، لیکن وہ بھی اس نظام کی ایک سنگین غلطی سدھارنے سے گریزاں ہیں۔ ان کے لیے میں ایک جیتا جاگتا انسان نہیں بَل کِہ محض ایک فائل ہوں۔

پاکستان میں عمر قید کی مدت 25 برس ہے اور زیادہ تر لوگ 15 سال میں ہی باہر آجاتے ہیں، لیکن میں ابھی بھی اس رعایت کا مستحق ہوں جو مجھے 2001 میں ہی مل جانی چاہیے تھی۔

(محمد اقبال نے یہ کہانی ڈسٹرکٹ جیل گجرات میں محمد شعیب کو سنائی، جسے ایک مضمون کی شکل میں ڈھالا گیا۔ مارچ 2018 میں لاہور ہائی کورٹ نے محکمہ داخلہ پنجاب کو محمد اقبال کے معاملے میں  دو ہفتے میں جانچ کا حکم دیا۔ محمد اقبال تا حال اس رعایت کا منتظر ہے جو اسے 17 سال قبل مل جانی چاہیے تھی۔)