مہذب جنگیں ، بنتے ہوئے نئے اتحاد اور عالمی منظر : کیا ہم دنیا کھو رہے ہیں؟

ایک روزن لکھاری
نعیم بیگ، صاحبِ مضمون

 مہذب جنگیں ، بنتے ہوئے نئے اتحاد اور عالمی منظر : کیا ہم دنیا کھو رہے ہیں؟

(نعیم بیگ)

کارل مارکس نے کہا تھا۔ ’’ ہر اس رائے کا جو سائنسی تنقید پر مبنی ہوگی میں خیر مقدم کروں گا۔‘‘
عظیم مفکر فلورنس کا قول تھا ؛ ’’ سیدھے راستے پر چلنے سے کسی کا شور و غوغا مجھے نہیں روک سکتا‘‘۔

آیئے ان اقوال کو نئے عالمی تناظر میں پرکھتے ہیں۔
جب ہم ان اقوال کے روشنی میں جنم لینے والی نئی دنیا کا منظر نامہ دیکھتے ہیں تو ہر لمحہ نئی کروٹ لینے والا لمحہ انسانی خواہشات کا انبوہ اپنی تعبیروں کی تلاش میں مشرق سے مغرب تک کبھی مذہب ، کبھی فلسفہ ، گاہے عقل و منطق کی راہوں پر گامزن نظر آتا ہے تاہم پہلی راہ دوسری سے متصادم ، تیسری سے دور گنجلک راستوں میں بھی اپنی منزلوں کے سنگ میل کو عبور کرتی نظر آتی ہے لیکن تاریخِ عالم گوا ہ ہے کہ ثقافتی ارتقاٗ کی رفتار اپنے تہذیبی تناظر میں مجموعی سائینسی ارتقاٗ کے عمل سے کہیں پیچھے رہی ہے۔
کیا ہم نے سوچا ، ایسا ہے تو کیوں؟
ہم صدیوں کے تہذیبی ادوار اور تمدن کی بھٹی میں رہنے کے باوجود اتنے خام اور غیر پختہ کیوں ہیں؟
اس تناظر میں معروف تاریخ کے وہ اوراق جو روز روشن کی طرح اپنی کہانی خود سناتے ہیں، کیوں کر سماجی و معاشرتی علوم میں فکری ہم آہنگی ہونے کے باوجود اپنی ارتقائی شکل میں خونی رنگوں کی آمیزش کرتے رہے ہیں؟
کیا ہم مسلسل بد امنی اور بد اعتمادی کا شکار رہے ہیں یا اس دنیا کے باسیوں نے امن و شانتی کا پتوار سنبھالا ہی نہیں؟
کیا یہ آمیزش نئے نظریات کی وجہ سے تھی یا مورخ نے تاریخ کا ایک مخصوص حصہ ہی ہمیں بتایا؟ یا پھر وہ تیسرا پہلو جو وسائل تک رسائی کا شاخسانہ ہے، جسے آج کی دنیا میں سرفہرست رکھا جاتا ہے وہی ہمارا آخری مطمع نظر ہے؟
تیرہویں صدی کے آغاز سے پہلے کی تاریخ، علاقائی جنگوں کا حال بتاتی ہیں ،تاہم بین القوامی جنگوں کا آغاز تاتاریوں کا مہذب دنیا ( اس وقت کے علمی تناظر میں ) پر مسلسل حملوں سے ہوا، وہ چنگیز خان کے اٹھتے ہوئے طوفان ہوں یا ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کا محاصرہ ہو یا نائن الیون میں اچھوتی امریکوی اور عالمی تباہی، طاقت کے سرچشموں نے ہمیشہ تاریخ کو دہرایا لیکن ناسمجھوں کے لئے کوئی سبق نہیں۔
بغداد کی اس جنگ میں منگولوں نے خون کی ندیاں بہا دیں، یورپی محققین کے مطابق اندازہً آٹھ لاکھ انسان مارے گئے تھے جن میں بیشتر مسلمان تھے اور اسلامی محققین کے اعداد و شمارکے مطابق کم و بیش بیس لاکھ مسلمانوں کے قتل کا سہرا ہلاکو خان کے سر سجتا ہے ۔
صدی بہ صدی جنگوں کے اس بہیمانہ قتل عام سے گزرتے جب انسان بیسویں صدی میں پہنچتا ہے تو ایک بار پھر پے در پے دو عظیم جنگوں نے کروڑوں انسان تہ تیغ کر دئیے۔ ۔ صرف دوسری جنگِ عظیم کے نقصانات رونگٹے کھڑے کر دینے والی تفصیلات اپنے جلو میں رکھتی ہیں ۔ اندازہً ساڑھے چار کروڑ انسان لقمہِ اجل بنے۔
یہ وہ حقائق ہیں جن سے مجموعی طور پر عالمی اور علاقائی نتائجیت کی ایک ایسی فضا قائم ہوتی ہے جس سے انسانی جبلت کا اندازہ کرنا دشوار نہیں ۔ انسان کبھی بھی جنگ کرنے سے باز نہیں رہے گا۔ یہ اسکی جبلت کا حصہ ہے تو پھر ہمیں مان لینا چاہیے کہ اگر جنگ ہی کرنا مقصود ہے تو پھر کیوں نا عالمی سطح پر انسانی وحشی جبلتوں سے جنگ کریں۔ کیوں نہ جبلت کے اُن عناصر پر قابو پایا جائے ، جو عملی جنگ کی طرگ لے جاتے ہیں۔کیوں نہ ہم ایک ایسی جنگ شروع کریں جو اختلاف رائے سے تو بھرپور ہو لیکن صرف معاشی اور سماجی مقاطعہ جوئی تک محدود ہو۔ عالمی تناظر میں ایسا ہو بھی رہا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کی دنیا میں مہذب اقوام رفتہ رفتہ اس جانب قدم بڑھا رہی ہیں لیکن ابھی بہت سے فاصلے طے کرنا باقی ہیں ۔ اس سے بیشتر کئی بار بڑی طاقتیں عالمی طور پر معاشی پابندیاں لگا کر اس ڈاکٹرئن پر عمل کر چکی ہیں۔ تاہم راقم کاخیال ہے کہ بحیثیت تیری دنیا ہمیں ان مہذب جنگوں کا اہتمام خود بڑے اعتماد سے کرنا ہوگا۔
مہذب جنگوں سے میری مراد اختلاف رائے، علاقائی جغرافیائی تنازعات، وسائل کی تقسیم پر پیدا ہونے والے حریفانہ تعلقات کو پیدا ہونے والی اُس کم تر نفرت کے اظہار سے جوڑ دیا جائے، جس کا واحد حل سماجی و معاشی مقاطعہ ہو ، آپ اس قوم کا معاشی اور سماجی ناطقہ بند کریں۔ بس اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ عملی جنگیں ہمیں اس دنیا میں امن و شانتی کی ضمانت نہیں دے سکتیں ۔ ہاں تباہی و بربادی کے وہ تمام در کھول دیتے ہیں جہاں ’’ مدر آف آل بامبز ‘‘ کے اب گرائے جانے کی شروعات ہو چکی ہیں۔
مہذب اقوام کسی حد تک یہ کام بذریعہ اقوام متحدہ کر رہی ہیں لیکن راقم کا خیال ہے کہ اس پر مزید گفتگو ہونی چاہیئے۔ ایک نئے مکالمہ کی بنیاد بنا کر اس پر عالمی سطح کے فکرو دانش کے دروازے کھولے جائیں ۔ پہلی اور تیسری دنیا کا نقطہِ نظر شامل کیا جائے۔
ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ ایسے کون سے اقدامات عالمی سطح پر کرنے ہونگے جسمیں بیک وقت روایتی اور ایٹمی اسلحہ سازی میں کمی ہو۔ سائنسی ترقی میں مجموعی عالمی شمولیت ہو، کسی بھی قوم کو سزا دینے کے لئے اسکا معاشی و سماجی مقاطعہ کرنے کی ا کثریتی رائے عامہ کو ہموار کرنا لازم قرار دیا جانا ہو۔ جب ہم کثیر المقاصد گلوبلائزیشن کی بات کرتے ہیں تو اس میں صرف سائنسی ایجادات ہی اپنا حصہ کیوں ڈالیں۔ کیوں نہیں ہم گلوبل اقدار کو جنم دیں جہاں سے عدم برداشت اور انتہا پسندی کو سماجی و معاشی مقاطعہ بندی سے کنٹرول کیا جائے۔
اس وقت یہ یوٹوپیئن سوچ ہی لگے گی لیکن اگر اس ڈاکٹرئن کے خدو خال خود تیسری دنیا کی دانش بیٹھ کر وجود میں لائے تو نتائج کہیں بہتر ہو سکتے ہیں ۔
اس تمام گفتگو کے پس منظر میں میرے ذہن میں چند ماہ پہلے بننے والے پہلے چونتیس ، پھر انتالیس مسلم ممالک کا وہ مجوزہ اتحاد ہے، جس کی بازگشت اور بنیادیں سعودی عرب اپنے دارحکومت ریاض میں ر کھ رہا ہے ۔ اب تک اس اتحاد کے خدو خال واضح نہیں ہوئے ہیں ۔ پاکستان اس اتحاد میں جہاں بھرپور افرادی و عسکری تعاون کر رہا ہے وہیں اس نے اپنے ایک سابقہ جرنیل چیف آف آرمی سٹاف راحیل شریف کو این او سی جاری کر دیا ہے ۔وہ اس اتحاد کی سر براہی سنبھالنے کو ایک خصوصی طیارہ سے اپنی فیملی کے ساتھ ریاض پہنچ چکے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی عالمی میڈیا میں ایک بریگیڈ پاکستانی فوج ( اندازہً پانچ ہزار افراد ) پر مشتمل اس اتحاد کا حصہ بننے سعودی عرب جا رہا ہے ۔
اسکے قیام ، مقاصد اور ذمہ داریاں ابھی میڈیا میں نہیں آئی ہیں کہ ان پر تجزیہ پیش کیا جائے ۔ تاہم جو اہم بات سامنے آئی ہے وہ ہمارے ہمسایہ ملک ایران کے تحفظات ہیں جوبڑی شدت سے سامنے آئے ہیں ۔ پاکستان مسلسل اپنے سفارتی، حکومتی اور عسکری ذرائع سے انہیں تشفی آمیز جوابات دے رہا ہے ۔ ابھی حال ہی میں سی اواے ایس قمر باجوہ سے ایرانی سفیر کی ملاقات اسی ضمن میں تھی۔
تاہم یہ تاثر عمومی طور پر ابھر رہا ہے کہ یہ اتحاد اہل تشیع کے خلاف بن رہا ہے ۔ اس ضمن میں ایک برس سے زائد جاری یمن میں حوثی باغیوں سے لڑائی، شام کے حالات ، اہل عراق میں سنی، شیعہ فرقہ وارانہ فسادات اور تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی صورتِ حال ایک جاری منظر نامہ پیش کر رہا ہے ۔
پاکستان اس وقت خطہ میں واحد مسلم علاقائی ایٹمی طاقت کا رول ادا کر سکتا ہے لہذا اس سلسلے میں اس کی مسلم ممالک اور دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں یکسانگی اور متوازن پالیسیوں کا اہتمام کیا جانا نظر آنا چاہیئے جس کا فی الحال فقدان ہے۔ علاقائی صورت حال بہت نازک ہے جسے دانشورانہ سیاسی اور جمہوری ذہن سے نبٹا ضروری ہے۔ صرف عسکری مفادات کو مدِ نظر رکھا جانا کافی نہیں۔
راقم نے اوپر جو مہذب جنگوں کی اصطلاح روشناس کرائی ہے اس میں اسی اتحاد کے وساطت سے بہت کام ہو سکتا ہے ۔عسکری ڈیٹرینس کی موجودگی میں فی الحال ان انتالیس ممالک کے اتحاد کے خدو خال کچھ ایسے بنائے جائیں جس میں مقاطعہ ڈاکٹرئن شامل ہو۔
یہی اکتالیس مسلم ممالک اگر اپنے عسکری ، سیاسی اور جغرافیائی مفادات کو مد نظر رکھیں گے تو انکا رول او،آئی، سی کے کردار کو ختم کر دے گا اور انہی مسلم ممالک کو نئے ویژن سے روشناس کر سکتا ہے جس میں مہذب جنگ کا پہلا ہتھیار اسکا سماجی و معاشی مقاطعہ ہے۔
راقم کوشش کرے گا کہ اپنے اگلے مضمون میں وہ مقاطعہ ڈاکٹرئن کے ان خدو خال کو اجاگر کرے جس سے ایسا ہوناممکن ہو پائے۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔