ہم زندگی کو خوش آمدید کیوں نہیں کہہ پاتے

زندگی سے کتنا تصویر کا رخ

(ارشد محمود)

ہم نے اپنے ماحول اور انفرادی واجتماعی زندگی کو اس حد تک جامد،خشک،بور،بے کیف، حسن اور لطف سے عاری کر رکھا ہے کہ بحیثیت حیوان جن جبلّی خوشیوں پر ہمارا حق ہو سکتا تھا، یہ کہہ کر کہ ہم حیوان نہیں انسان ہیں، اُن سے خود کو محروم کر لیا، اور انسان ہونے کے ناتے جن خوشیوں پر حق ہو سکتا تھا انھیں یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہم انسان نہیں

Author: Arshad Mehmood

مسلمان ہیں۔ یہ ہے ہمارا ثقافتی المیہ۔ ہمارا شمار حیوانوں میں ہے نہ انسانوں میں۔ ثقافت نے حیوانیت اور انسانیت کے دائرے میں ہی رہ کر پرورش پانا تھا۔ نتیجہ یہ کہ ہم اجتماعی طور پر حسن کے احساس اور خوشیوں کی لذت سے آشنا ہی نہیں ہیں، بلکہ ان کے بیری بن چکے ہیں۔ اب سنجیدگی کا مارا، تاریکی پسند اور جمالیاتی حسوں سے محروم انبوہِ کثیر، عالمی تہذیبِ نو سے اپنی ثقافتی، سیاسی اور معاشی دشمنی میں اضافہ کیے چلا جارہا ہے۔ بربادی اور موت کی علامتوں سے اپنی شاہراہوں کو سجانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ خودساختہ اخلاقیات اور پارسائی کے خبط نے ماحول میں مُردنی، گھٹن اور بے کیفی اس حد تک پیدا کر رکھی ہے کہ اس کے اندر زندگی اور دنیا کو خوبصورت بنانے یا اسے ترقی دینے کی لگن اوردلچسپی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ایک طرف ہماری طاقت ور ایلیٹ (elite) حکمران کلاس ہے، جو حیوانی اور انسانی سطح کی سب جبلّی لذتوں سے بہرہ مند ہے۔ اس نے اخلاقیات اور پاک دامنی کے سب اسباق عام آدمی کے لیے رکھ چھوڑے ہیں، تاکہ عوام کے حصے کی خوشیوں پر قبضہ جاری رکھا جاسکے۔ دوسری طرف کروڑوں عوام کا وہ جمِ غفیر ہے جہالت اور غربت جن کا مقدر ہے، اور یہ مقدراِسی طاقتور طبقے کا لکھا ہوا ہے۔ وہ خوبصورتی اور لذتوں کے بارے سوچ بھی نہیں سکتے۔ کسی بھی سوسائٹی کی ساری تڑپ، جدوجہد اور امید کی کرن صرف متوسط طبقہ ہو تا ہے۔ وہ کون سا انسان ہے جسے اپنے لیے اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے خوبصورتی اور خوشیاں درکار نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں اپنے اوپر سے مسخ شدہ انسان کا چوغہ اتار پھینکنا چاہیے اور خوبصورت بننے، ماحول کو خوبصورت کرنے اور ہر ایک کے اپنے انداز سے خوش ہونے کے حق کا مطالبہ کرناچاہیے۔ اگر اس طبقے کی مزاحمت نہیں کریں گے جو ثواب اور پارسائی کے نام پر پورے معاشرے کو بلیک میل کرتا ہے، اُسے پیچھے رہنے، گھٹن زدہ اور بدنما زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے، تو ہمارے اس وطن میں تہذیب کے رہے سہے آثار بھی ختم ہو جائیں گے۔
کچھ اسباب مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں جو ہمارے اندر زندگی کو خوش آمدید کہنے کے جذبات کو ختم کر دیتے ہیں:

علاقے کا تجرد:

اس میں وہ عوامل شامل ہیں جو علاقائی نوعیت کے ہیں۔ یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا ثقافتی پس ماندگی ہمیں مشرقی، ایشیائی اور پھر جنوبی ایشیائی خصوصیات کی وجہ سے ورثے میں ملی ہیں؟ کیا وجہ ہے، عمومی طور پر جنوبی ایشیا کے سارے عوام اور خصوصاً اس علاقے کے مسلمانوں کے تصورِ کائنات (worldview) میں کشادہ فکری کیوں پیدا نہیں ہو سکی؟ مثلاً عرب مسلمان اتنے ثقافت دشمن نہیں ہیں۔ خاص طور پر صحرائے عرب سے باہر کے ممالک کے عوام رقص و موسیقی کے دلدادہ ہیں۔ سماجی رسم ورواج میں بھی وہ کھلے اور لبرل ماحول کے حامل ہیں۔ مثلاً عرب مسلمان عورتیں کسی اجنبی مرد سے ہاتھ بڑھا کر مصافحہ کرنے سے نہیں جھجکتیں، جب کہ ہم بر صغیر کی مسلمان عورتوں میں اس کا تصور نہیں کرسکتے۔ عرب ممالک میں عام لوگوں کی خوشیوں کے حصول کی راہ پر سماجی پابندیاں نہیں ہیں، جس طرح ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں۔ یوں لگتا ہے بر صغیر کا اسلام دنیا بھر سے نرالا ہے، اور یہ عربوں پر نہیں،ہم پر اترا تھا! بنیاد پر ست لوگ اور تحریکیں عرب مسلمان ملکوں میں بھی ہیں۔ وہاں بھی آمرانہ سیاسی نظام رائج ہیں، لیکن وہ ثقافتی گھٹن نہیں جو ہمارے ہاں ہے۔ بیشتر مسلمان ملکوں میں اقلیتوں کی حالت ہم سے اچھی ہے۔ قحبہ خانے، نائٹ کلب، گانے بجانے، ناچنے اور مخلوط محفلوں کا انعقاد عام ہے۔ لوگوں کی معصومانہ خوشیوں پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاتی، جب تک کہ کوئی بات سچ مچ فحاشی کے زمرے میں نہ آئے یا فساد کا سبب نہ بنے۔ ہم برصغیر کے مسلمانوں نے ایک خشک اور بے کیف زندگی بنا رکھی ہے اور اسلامی معاشرت کا ایک ایسا تصور اپنا یا ہے جو انسان رہنے دیتا ہے نہ حیوان۔ کسی عرب مسلمان قوم نے ریاست کو اسلام کا قلعہ بنانے کا اعلان نہیں کیا۔

بیشتر مسلمان عرب ملکوں کے ٹی وی کی نشریات ثقافتی طور پر اس قدر لبرل ہیں کہ ہم پاک و ہند کے مسلمان اس کا تصور نہیں کرسکتے۔ دوسری طرف ہمارا PTV پاکیزگی اور خاندانی اقدار کے نام پر دنیا کے ٹاپ کے رجعت پسند اور قدامت پرست نشریاتی اداروں میں سے ہے، جس نے سیٹیلائٹ نشریات اور گلوبلائزیشن کے زمانے میں حماقت پر مبنی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ آپ کے ٹی وی کی ساری پاکیزگی اور شرافت ریموٹ کنٹرول کا بٹن کوئی دوسرا عالمی چینل لگا کر ہوا کر دیتا ہے، لیکن اتنی آسان سی بات ہماری اخلاقیات کے خود ساختہ گاڈفادروں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ پوری تاریخ گواہ ہے، برصغیر کے مسلمان خود کبھی نہیں بدلے، کبھی آگے نہیں بڑھے۔ ہم اس وقت تھوڑا سا بدلتے ہیں جب تاریخی قوتیں ہمیں بدلنے پر مجبور کر دیتی ہیں، اور زمانہ بہت آگے کو جا چکا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا اس خطے کی مٹی میں کچھ ایسی بات ہے کہ ساری دنیا بدل سکتی ہے، آگے کو دیکھ سکتی ہے اور آگے بڑھ سکتی ہے، لیکن ہم بر صغیر کے مسلمان اپنے خود ساختہ بُنے جال سے باہر نہیں نکل سکتے؟ ہماری تمام قومی، سماجی اور مذہبی فکر بوسیدہ ہو چکی ہے، لیکن ہم بے خبر ہیں، انسان کیا ہے، کیا بن چکا ہے، اسے کیا سے کیا معلوم ہو چکا ہے اور وہ کہاں جا چکا ہے۔ جن اقدار اور نظریات کو ہم سینے سے لگائے ہوئے ہیں، یہ تہذیب کے عجائب گھروں حصہ بن چکے ہیں۔ ہم جیسی اپنی خوشیوں اور ترقی کی دشمن قوم شاید ہی دنیا میں کوئی اور باقی رہ گئی ہو۔

مذہب:

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ہم مسلمانوں کی ثقافتی پسماندگی میں مذہب سے لگاؤ کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہمارے فلسفۂ حیات کی اُٹھان کچھ ایسی ہے کہ جمالیاتی اور ثقافتی اقدار اس کی ہٹ لسٹ پر سب سے اونچی جگہ پر ہیں۔ تہذیبی اور تاریخی لحاظ سے یہ ایک بد نصیب پہلو ہے جس پر مسلم

دانشوروں نے کبھی کھل کر بات نہیں کی۔ پوری مسلم تاریخ میں معتزلہ کے بعد کھل کر بات کرنے کی روایت پھر نہیں اُبھر سکی۔ اگر چہ لبرل اور جدید مسلم دانشور فنونِ لطیفہ کی کسی نہ کسی شکل کو اسلام میں ’’جائز‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن سچ یہی ہے کہ اسلام میں فنون لطیفہ کی جگہ نہایت محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے مسلمان حکمران اپنے فالتو پیسے کو زیادہ سے زیادہ باغات، محلات اور مزاروں کی تعمیر پر لگانے میں مصروف رہے اور جن فنون نے سب سے زیادہ ترقی پائی وہ geometrical designs تھے یا پھر خطاطی، جو زیادہ تر قرآن پاک کی آیات تک محدود رہی۔

موسیقی میں فوک (folk) زندہ رہا، اس لیے کہ اس کی جڑیں قوم پرستی اور زمین سے وابستہ ہوتی ہیں، لیکن مذہبی پیشوا بہرحال اس کے خلاف بولتے رہے۔ مذہب کی ثقافتی خشکی کے رد عمل میں اُن صوفیائے کرام نے موسیقی کو مذہب میں زبردستی ضم کر دیا جو مذہب کے بنیادی (شرعی) دھارے سے منحرف ہو چکے تھے۔ ملاؤں کارقص و موسیقی کے بارے تصور (concept) لڑکیوں کی دف بجاتی ٹولی تک محدود ہے، ورنہ فنون لطیفہ کی شکل اسلام میں یا تو لہو و لعب ہے یا پھر شرک اور بت پرستی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فنون لطیفہ کی حالتِ زار اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بے چارے فن کاروں پر ترس آتا ہے کہ انسان کی جمالیاتی جبلّت کو اتنے نامساعد حالات میں کس طرح زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ محض دنیا میں مہذب کہلوانے کی خاطر منافق اسٹیبلش منٹ نے اپنی ذہنی عیاشی کے لیے مختصر سے کچھ دریچے کھلے چھوڑ رکھے ہیں۔ اس ملک میں شاہراہوں اور باغوں میں آرٹ کے نمونے نہیں، مزائل، توپیں، بمبار طیارے، ٹینک اور بحری جنگی جہاز ملیں گے، جو آپ کے ذوقِ جمال کو خوں ریز کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اس ملک کی بیورو کریسی نے پوری کوشش کی ہے کہ عوام کی جمالیاتی حِسوں کو تباہ کر کے انھیں وحشی ہجوم میں بدل دیا جائے۔ ظاہر ہے اس ملک میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا روحانی سرچشمہ بہرحال مذہب ہی ہے۔ چنانچہ ہمیں اس پر تحقیق کرنی ہو گی کہ ہمارے ثقافتی بانجھ پن اور بدذوقی میں عقیدے کا کیا رول رہا ہے۔

معاشی پسماندگی:

اس میں کوئی شک نہیں، اگر ہم اقتصادی طور پر ترقی یافتہ ہو جائیں تو ثقافتی پسماندگی کا مسئلہ خودبخود حل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ تمام دیگر حقیقتوں کے باوجود معاشی پس ماندگی ہماری ثقافتی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ معاشی ترقی ہو گی تو ہمارا دنیا اور زندگی کے بارے میں وژن وسیع ہو گا۔ ہمارا زندگی سے پیار بڑھے گا، اور زندگی سے پیار بڑھے گا تب ہمیں خوشیاں اچھی لگنے لگیں گی۔ پھر ہم خوبصورتیوں کی تلاش بھی کریں گے۔ روٹی اور بقا کے چکر میں مصروف لوگ حسن وعشق کے موضوع نہیں سمجھ سکتے۔ غربت کے لیے بہاریں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ غربت جہالت کی ماں ہے، اور جہالت اندھیرے کو کہتے ہیں۔ جمالیات کا تعلق روشنیوں سے ہے، رنگوں سے ہے۔ ہمیں اپنے ملک کی معاشی ترقی کے لیے ہر دم کوشش کرنی ہو گی۔ اسی میں ہماری نجات ہے۔ ہمیں اس ملک کے بے رحم مقتدرا یلیٹ کلاس کے ہاتھ کو روکنا ہو گا جس نے ملک کے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے اور جسے وہ عوام کی بہبود پر خرچ کرنے کی بجائے علاقائی تناؤ کو قائم رکھنے پر ضائع کرتی ہے۔ اس کے لیے فیوڈل اور قبائلی نظام کا فوری خاتمہ ضروری ہے تاکہ ہم مکمل خواندگی اور صنعتی ترقی کی طرف گامزن ہو سکیں۔

پدرسری نظام:

پدرسری نظام عرفِ عام میں اس سماج کو کہتے ہیں جہاں مردوں کا غلبہ ہو۔ ہماری ثقافتی پس ماندگی کی ایک بڑی وجہ یہ پدرسری نظام بھی ہے۔ یہ نظام مردانہ آمریت کو فروغ دیتا ہے اور عورت کی حیثیت کو انسان سے کم تر کر کے اسے ملکیتی چیز میں بدل دیتا ہے اور جنسی آزادی پر ناروا پابندیاں لگاتا ہے، جس سے معاشرے میں گھٹن کی فضا پیدا ہوتی ہے اور معاشرے کی روحانی اور ذہنی ترقی رک جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پدرسری نظام کی ہمارے ملک میں جڑیں ابھی تک بہت مضبوط ہیں۔ پدرسری نظام جدیدیت اور جمہوری طرزِ عمل کا دشمن ہوتا ہے۔

ماضی سے وابستگی:

جس کی ترقی رکی ہوتی ہے وہ قوم ماضی پر ست ہوتی ہے۔ مسلمان مجموعی طور پر اور ہم پاکستانی خصوصاً بے حد ماضی پر ست لوگ ہیں۔ ہم آج میں نہیں دور ماضی کے سہانے سپنوں میں زندہ رہتے ہیں۔ ہمیں ماضی کی ہر چیز اچھی لگتی ہے۔ ہم نے تصوروں میں بٹھا رکھا ہے کہ ہم لوگ بہت اعلیٰ کیریکٹر کے ہوا کرتے تھے، ساری دنیا ہمارے سامنے سر جھکائے ہوئے تھی، وغیرہ۔ لیکن ہم سائنس، ترقی اور خوشحالی میں دنیا سے کتنے پیچھے رہ گئے ہیں، اس کے تدارک کے لیے کوئی عزم نہیں۔ ہم لوگ ماضی کی اشیا، ماضی کے حکمران، ماضی کے رسم ورواج اور ماضی کی اقدار کو اچھا سمجھتے ہیں۔ ہر سوال کا جواب اور ہر مسئلے کا حل ماضی میں ڈھونڈتے ہیں۔ نہ ہم اپنے آج کو بدلتے ہیں، نہ مستقبل کی بہتری کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم آگے کو نہیں، پیچھے کو دیکھنے والی قوم ہیں۔ اسی لیے دھکے ہمارا مقدر ہیں۔ کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ لیکن ماضی سے باہر آنے کا نام نہیں لیتے۔ ماضی پرستی اور ماضی زدگی ایک مرض کی صورت میں ہم پہ مسلط ہو چکی ہیں۔

تہذیبِ نو کے مفروضہ نقائص:

پسماندہ قوموں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ نئی تہذیب کی اچھائیوں کو کم اور اس کی برائیوں کو زیادہ دیکھتی ہیں۔ لوگ ان برائیوں کو بنیاد بنا کر اپنی کہنہ اقدار کی خیالی خوبیوں پر اتراتے رہتے ہیں اور انھی کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں، یہ نہیں سمجھتے کہ جدید زمانے کے تقاضوں پر صرف نئی اقدار ہی پورا اتر سکتی ہیں۔ اور جہاں تک نئی تہذیب کے نقصانات، تضادات اور مسائل کا تعلق ہے، ان کے حل کے لیے مغرب کی اقوام بھی ہر وقت کوشاں ہیں۔ اور پھر ضرو ری نہیں ہے کہ ہم اندھی تقلید کریں۔ ہمیں عقلی اور سائنسی بنیادوں پر ان مسائل کا تجزیہ کرنا چاہیے، اور یوں ہم خود کو ان منفی اثرات سے محفوظ کرسکتے ہیں۔لیکن پہلی شرط یہ ہونی چاہیے کہ آج کے سائنسی، صنعتی، جمہوری اور سیکولر دور کے لیے صرف نئے اصول، نئے ضابطے اور نیا اندازِ فکر ہی کام آسکتا ہے۔ ازمنۂ وسطیٰ کے قاعدے اب ہمارا کچھ نہیں سنوار سکتے۔ ہمیں نئی تہذیب کو اپنا کر اس کے تضادات کے حل کی کوشش کرنی ہو گی۔ اس سے دامن چھڑا کر ہم زندہ نہیں رہ سکتے۔

سیاسی نظام کے تقاضے:

پاکستان کے تناظر میں یہ سب سے اہم نکتہ ہے۔ ہمارے ملک کی سماجی اور ثقافتی پسماندگی میں مروجہ سیاسی نظام کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ہم ایک ایسی تاریخی بد قسمت صورت حال میں پھنس چکے ہیں جس سے ہمیں نکلنے کا کوئی رستہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس ملک پر قابض ایلیٹ کلاس محض اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی خاطر اس ملک کو ترقی کی طرف لے جانے والے فکر ی نظام سے دور رکھے ہوئے ہے، اور اس کے مفادات کا براہ راست تقاضا بن چکا ہے کہ قوم کو جاہل رکھا جائے۔ وہ صرف اس لیے عیش کررہے ہیں کہ قوم جاہل ہے۔ چنانچہ ایلیٹ کلاس، جو سول اور ملٹری بیورو کریسی پر مشتمل ہے اور اس کے ڈانڈے اس ملک کے فیوڈل کلاس سے جڑے ہیں، وہ خود اپنی جگہ پر جدید طرزِ زندگی کے سارے لوازمات سے لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن میڈیا، تعلیمی نصاب اور قومی پالیسیوں کے ذریعے ان کی بھر پور کوشش ہے کہ عوام قدیم، رجعت پسند اور متروک نظریات کے شکنجے سے ہر گز آزادنہ ہونے پائیں، انھیں خبر نہ ہو کہ آج کا انسان کہاں سے کہاں جا چکا ہے۔ ہماری ایلیٹ کلاس نے مذہب کے نام کو استعمال کرکے ہمیں ایک نہایت تنگ اور متعصب قوم پرستی کے جذبات میں پھانس رکھا ہے۔ عوام بے چارے جاہل، غریب اور کمزور ہیں۔ وہ اس طاقت اور ایلیٹ کلاس کی چالوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں، مقابلہ کرنا تو بڑی دور کی بات ہے۔ نیم خواندہ نچلا درمیانہ طبقہ گھٹن اور دباؤ کی وجہ سے راہِ نجات کے لیے مزید مذہبی طور پر شدت پسند ہوتا جارہا ہے، جس سے نہ صرف ترقی کے امکانات اور کم ہوتے جارہے ہیں بلکہ خطرہ بڑھتا جارہا ہے کہ رہا سہا سول اور تہذیبی ڈھانچہ مذہبی جنونیوں کے ہاتھ لگ کر ہم پتھر کے زمانے میں نہ چلے جائیں۔

About ارشد محمود 14 Articles
asif