کیا قرارداد مقاصد میں پاکستان کےسیاسی مسائل کا حل موجود ہے؟

independence day wallpapers

(جواد الرحمن)

قیام پاکستان کے بعد برطانوی پارلیمنٹ کا بنایا ہوا ‘حکومت ہند کا قانون مجریہ 1935’ پاکستان کا عارضی آئین بنا ۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے ذمے پاکستان کے لیے آئین بنانے کا کام تھا۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی ان اراکین پر مشتمل تھی جو غیر منقسم ہندوستان میں 1946 کے انتخابات میں اُن علاقوں سے منتخب ہوئے تھے جو بعد میں پاکستان کی جغرافیائی حدود میں شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ کچھ مسلم اراکین ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ اگرچہ ان اراکین کی کُل تعداد 69 بنتی تھی لیکن گورنر جنرل محمدعلی جناح نے قبائل اور ریاستوں کو نمائندگی دینے کے لیے اس کی تعداد میں 10 اراکین کا اضافہ کیا۔ کئی وجوہات کی بنا پر نشستوں پر موجود اراکین کی حقیقی تعداد اصل سے کم ہی رہی ۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں مسلم لیگ برسر اقتدار پارٹی تھی جبکہ پاکستان نیشنل کانگریس کے 11 اراکین کے ساتھ ساتھ خان عبدالغفار خان اور مولوی فضل الحق حزب مخالف میں شامل تھے۔ اسمبلی کے ذمے مملکت پاکستان کے لیے آئین تشکیل دینا اور ملک کے لیے قانون سازی کرنا دونوں امور تھے۔ پہلی دستور ساز اسمبلی کی پانچ سالہ مدت 1951 میں ختم ہورہی تھی ۔ مگر یہ اسمبلی اپنی سات سالہ زنگی میں آئین بنانے میں ناکام رہی حتیٰ کہ 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے اسے تھوڑ دیا۔

لیاقت علی خان دستور ساز اسمبلی سے خظاب کرتے ہوئے
مارچ 1949 میں اس اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کرکے آئین سازی کے لیے بنیادی خاکہ ترتیب دے دیا۔ دستور ساز اسمبلی کے رکن مولانا شبیر احمد عثمانی نے اس قرارداد کا مسودہ تیار کیا اور وزیراعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خان نے 7 مارچ 1949 کو اسے دستور ساز اسمبلی کے سامنے پیش کیا۔ یہ قرارداد کافی بحث و مباحثے کے بعد 12 مارچ 1949 کو منظور ہوئی۔ قائد اعظم کے دستِ راست لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد پیش کرتے ہوئے اس کے حق میں بہت سے دلائے دئے۔ بقولِ آپ ک یہ قرارداد ان خالص اصولوں پر مشتمل ہے ، جن پر پاکستان کا دستور اساسی مبنی ہوگا ۔ اس قرارداد کے نکات کا خلاصہ ذیل میں دیا گیاہے۔

قرارداد مقاصد

اللہ تبارک تعالیٰ ہی پوری کائنات واحد مالک ہے اور پاکستان کے عوام کے پاس اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے؛
مجلس دستور ساز فیصلہ کرتی ہے کہ مملکت پاکستان کے لئے ایک دستور مرتب کیا جائے۔
جس کی رُو سے مملکت اپنے تمام اختیارات و حقوق حکمرانی کو عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی؛
اسلام کے پیش کردہ جمہوریت ، آزادی ، مساوات ، رواداری اور معاشرتی انصاف کے اصولوں پر پوری طرح عمل کیا جائے گا ؛
(پاکستان کے) مسلمانوں کو اس قابل بنائے جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن اور سنت میں درج اسلامی تعلیمات کے مطابق ترتیب دے سکیں ۔
جس میں تمام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور اُن کو اپنے مذہب کی پیروری کرنے اور اپنی ثقافت کو فورغ دینے کے لیے پوری آزادی ہوگی۔
پاکستان ایک وفاقی ریاست ہوگی ۔ مقرر کردہ اختیارات کے تحت تمام صوبوں کو خود مختاری حاصل ہوگی۔
عوام کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی ۔ اقلیتوں اور پسماندہ طبقوں کے جائز مفادات کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا ؛
جس کی رو سے عدلیہ کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی ؛
وفاقیہ کے علاقوں کی سلامتی و آزادی اور اس کے خشکی ، تری اور فضا کے جملہ حقوق کا تحفظ کیا جائے گا؛
جس کی رُو سے اہل پاکستان فلاح و بہبود حاصل کرسکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاص کرسکیں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی ترقی و خوشحالی کے لیے پوری کوششیں کرسکیں۔

پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائد اعظم کے رفیق خاص لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد کا مسودہ دستورساز اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس لئے حاصل کیا گیا کہ ہندوستان کے مسلمان اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے خواہش مند تھے۔ آپ نے قرارداد مقاصد کے مندرجات جیسے اسلامی جمہوریت، اقلیتوں کے حقوق ، اسلامی ریاست کے مندرجات وفاقی طرزِ حکومت ، بنیادی انسانی حقوق وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور قرارداد کے حق میں پُر زور دلائل دیے ۔ قرارداد کی منظوری پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں آزادی کے حصول کے بعد دوسرا اہم واقعہ ہے ۔ قرارداد مقاصد منظور ہونے کے بعد حکومت پاکستان نے آئین کے بنیادی اصولوں کے لیے کمیٹی (Basic Principle Committee ) بھی قائم کی ۔
اپوزیشن لیڈر جناب چھٹو پھڈائے نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے قرارداد مقاصد کے مختلف نکات پر بھر پور تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی کا یہ اجلاس سالانہ بجٹ پر بحث کے لیے مختص تھا اور اجلاس بلاتے ہوئے ممبران کو کسی قرارداد کے پیش ہونے کا نہیں بتایا گیا تھا ۔ انھوں نے مزید کہا کہ حاضر ممبران کی تعداد انتہائی کم ہے اور اتنے اہم فیصلے کے لیے زیادہ سے زیادہ ممبران کا موجود ہونا ضروری ہے۔
مشرقی پاکستان سے پاکستان نیشنل کانگریس کے رکن نے تجویز پیش کی کہ ریاست اور اس سے شہریوں کا تعلق سیاست کا حصہ ہے جبکہ انسان اور خدا کا رشتہ مذہب کے زمرے میں آتا ہے، سیاست کو انسانی عقل اور تجربات کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے جبکہ مذہب پر عمل کرنا ایمان کا حصہ ہوتا ہے لہٰذا قرارداد مقاصد کے پہلے پیراگراف کو نظر انداز کیا جائے۔ انہوں نے مذید کہا کہ اگر سیاست اور مذہب کو یکجا کیا گیا تو پھر سیاست پر تنقید نہیں ہوسکے گی۔

پہلے پیراگراف میں الفاظ ‘مقرر کردہ حدود’ پر تبصرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کے ایک ممبر نے کہا کہ ان حدود کی وضاحت قرارداد میں نہیں ہے لہٰذا یہ حدود کیا ہیں ؟ ان کی تشریح کون کرے گا اور اختلاف کی صورت میں اس کی وضاحت کون کرے گا ؟ چونکہ پاکستان میں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں اس لیے ریاست کو تمام مذاہب کا احترام کرنا چاہئے۔ پاکستان نیشنل کانگریس کے ایک دوسرے رکن نے مطالبہ کیا کہ الفاظ ‘پسماندہ طبقوں’ کے بعد ‘مزدور طبقہ جات’ بھی شامل کیا جائے ۔ اسی طرح دوسرے اپوزیشن اراکین اور مسلم لیگ کے پنجاب سے رکن میاں افتخارالدین نے قرارداد مقاصد کے متن میں کئی ترامیم پیش کیں ۔
اپوزیشن کے تمام اعتراضات کو رائے شماری کے لئے پیش کیا گیا لیکن ایوان نے تمام ترامیم کو دس کے مقابلے میں اکیس ووٹوں سے مسترد کردیا ۔ اس کے بعد ایوان نے قرارداد مقاصد کی منظوری دے دی۔ تمام مسلمان اراکین اسمبلی (ماسوائے میاں افتخار الدین کے) سب نے فرقہ پرستی سے آزاد ہو کر اس قرارداد کا ساتھ دیا (حتیٰ کہ احمدی ممبران نے بھی اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ) ۔ دوسری طرف حزب مخالف کے اقلیتی اراکین (جو سارے ہندو تھے) نے اس مولان شبیر احمد عثمانی رکن دستور ساز اسمبلیقرارداد کی مخالفت کی۔
قرارداد مقاصد کے منظور ہونے سے ملک میں موجود سیاسی تناؤ میں کچھ وقت کے لیے کمی آئی ۔ ایک طرف علماء کی سفارشات کو قرارداد میں شامل کیا گیا تو دوسری طرف جمہوریت، وفاقی حکومت ، بنیادی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق جیسے نکات سے بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے دانشوروں کو مطمئن کیا گیا۔ عام آدمی کو اسلامی فلاحی ریاست کے قیام سے تسلی ہوئی اور یوں بیرونی خطرات کا مقابلہ اور اندرونی خلفشار کو رفو کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ کے رہنماؤں پر آئین سازی کے لیے شدید عوامی دباؤ تھا لیکن آئین سازی کا کام چونکہ ان کی اہلیت اور استطاعت سے بڑھ کر مشکل ثابت ہوا لہٰذا انہیں عوام کو مطمئن کرنے کے لیے اس قرارداد کی ضرورت پیش آئی ۔ قرارداد مقاصد کو مسلم لیگ کے رہنماؤں نے اپنی گھرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے استعمال کیا۔

اثرات
اگرچہ قیامِ پاکستان کے بعد مختلف گروہ اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان کا بننے والا آئین اسلامی اصولوں پر مبنی ہو مگر ان کے درمیان اسلامی آئین کے قطعی تصور اور نوعیت کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی تھی۔ علماء اور سیاسی دانشوروں کے درمیان اسلامی آئین کی وضاحت پر تنازعہ کھڑا ہوگیا۔
اسلام پسند / دائیں بازو کے علمبردار طبقے پاکستان کے سارے مسائل کی وجہ قرارداد مقاصد اور آئین پاکستان میں دئے ہوئے اسلامی قوانین پر عمل درآمد میں ناکامی کو گردانتے ہیں جبکہ دوسری طرف سیکولر اور لبرل خیالات کے حامل دانشور قرارداد مقاصد میں موجود اسلامی دفعات کو تمام معاشرتی مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں ۔ اسلام پسند پاکستان کو حقیقت میں ایک اسلامی اور جمہوری ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جہاں امور مملکت اسلام کے زریں اصولوں کے تحت وضع ہوں اور مسلمانوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کئے گئے ہوں۔ لبرل طبقے پاکستان کو ایک جدید ، فلاحی و جمہوری ریاست بنانا چاہتے ہیں جہاں پاکستان کے سارے عوام کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں اور یہ لوگ ریاست کے امور میں سے مذہب کے عمل دخل کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

بائیں بازو کے دانشور کہتے ہیں کہ آئین سازی کے لیے قرارداد لاہور (منظور شدہ لاہور 1940) کو بنیادی دستاویز قرار دینا چاہئے۔ قرارداد لاہور ہی اصل میں تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قرارداد لاہور ( جسے بعد میں قرارداد پاکستان کہا گیا ) میں کہیں بھی ‘اسلامی ریاست’ ، ‘شرعی نظام’ یا ‘اسلامی نظام’ کی اسطلاحیں موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ قائد اعظم کی تقریر( جو انہوں نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کے دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے موقع پر کی تھی ) میں بھی پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے رہنمائی مل سکتی ہے۔ اس تقریر میں قائد اعظم نے بڑے واضح الفاظ میں پاکستان کو تمام مذاہب کو لوگوں کو ایک جیسے مواقع کی فراہمی کا وعدہ کیا۔
ڈاکٹر مبارک علی کے بقول ایک ہندو لیڈر نے قرارداد مقاصد پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ “ہمارے ابا و اجداد تو صدیوں سے اس ملک میں آباد ہیں ، لیکن اس قرارداد نے تو ایک لمحے میں ہمیں اجنبی بنا کر ہمارے سارے حقوق سلب کرلیے ، جیسا ہمارا اس ملک سے کوئی تعلق ہیں نہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ مذہب کو سیاست میں دخل اندازی کی گونج مجھے مستقبل میں سنائی دے رہی ہے کہ آگے چل کر اس ملک کا کیا حشر ہوگا۔ اس موقع پر وزیر خارجہ چودھری ظفراللہ خان (احمدی) نے انہیں تسلی دی کہ اسلام میں اقلیتوں کو پورے حقوق حاصل ہیں۔

اس قرارداد کی چونکہ تمام مسلمان اراکین نے حمایت کی اور اپوزیشن پارٹی پاکستان نیشنل کانگریس نے مخالفت کی۔ پاکستان نیشنل کانگریس کے تمام اراکین ہندو تھے لہٰذا اس قرارداد نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو مسلم اور غیر مسلم کی بنیاد پر تقسیم کر دیا۔
قرار داد مقاصد اسلام کے اصول جمہوریت ، حریت ، مساوا ت ، رواداری اور سماجی انصاف کی علمبردار ہے ۔ لیکن قرارداد مقاصد کے حمایتیوں اور مخالفین دونوں نے اس میں صرف اسلام کا لفظ اُچک لیا ہے اور ان کے دلائل صرف اس کے حق اور مخالفت میں گردش کرنے لگے۔ جمہوریت ، وفاقی طرز حکومت ،اقلیتوں کے حقوق، حریت، مساوات ، رواداری و سماجی انصاف جیسے اوصاف جن پر دونوں کا اتفاق ہے ان کو انہوں نے نظر انداز کردیا۔ وہ مذہبی طبقے جو پاکستان کے قیام کے مخالف تھے ان پر قرارداد مقاصد کی منظوری سے اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی جدوجہد کے دروازے کھل گئے۔
1956 اور 1962 میں جب ملک کے لیے آئین بنائے گئے تو قرارداد مقاصد کو اس کے افتتاحیہ میں رکھا گیا لیکن ان دستوروں میں وفاقی طرز حکومت کے خلاف مرکزی حکومت کو اختیارات دئے گئے۔ دونوں آئینوں میں ایک ایوانی مقننہ قائم کیا گیا اور سینٹ کے قیام کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ۔ سینیٹ کی تخلیق کا بنیادی مقصد تمام وفاقی اکائیوں کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دینا ہوتا ہے۔ 1955 میں جب مغربی پاکستان کو ون یونٹ سکیم کے تحت ایک صوبہ بنایا گیا تو یہ صوبائی خودمختاری پر حملہ تھا ۔ اسی طرح جب 1958 میں مارشل لا نافذ ہوا تو جمہوریت کا قتل تو اصل میں قرارداد مقاصد کی موت کے برابر تھا۔ عدلیہ کی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق میں ہمارا ملک ابھی بھی بہت پیچھے ہے ۔ ملک میں آزادی کے بعد 24 سال تک انتخابات نہ کرانا قرارداد مقاصد سے رُوگردانی تھی۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ، 1973 کے آئین میں مظبوط مرکزی حکومت کا قیام اور ضیاء الحق و پرویز مشرف کی فوجی حکومتوں کے قیام جیسے اقدامات بھی قرارداد مقاصد کی روح کے خلاف تھے ۔

حرف آخر

پاکستان کو ایک فلاحی ریسات بنانے کی کہانی کو اگر ٹھیک کرنا ہے تو کہانی جہاں سے خراب ہوئی تھی ، اصلاح بھی وہی سے کرنی ہوگی ۔ ہمیں قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کی روشنی میں اس ملک کے عوام کی بلا تفریق مذہب ، نسل و جنس حق شہریت تسلیم کرنا ہوگا ۔ قرارداد مقاصد کے ایک ایک حرف پر عمل کے ذریعے ہی پاکستان کی تعمیر ہونی ہے اور ایسا ہونا دیوار پر لکھی تحریر ہے ۔ جب تک آمریت ، جبر ، طبقاتی تقسیم ، فرقہ واریت ، تنگ نظری اور ظلم کے دروازے بند نہ ہونگے تب تک پاکستانی معاشرہ اسلامی ، پُرامن ،بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ترقی یافتہ ، خوشحال اور آسودگی کے راستے پر گامزن نہیں ہوسکتا ہے۔
قائداعظم کی دستور ساز اسمبلی سے پہلی تقریر ہمارے لیے مشعل راہ ہونی چاہئے۔ آپ نے 11 اگست 1947 کو مجلس دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ، ” آپ آزاد ہیں ، آپ مندروں میں جائیں ، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب ، ذات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار ریاست کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہم سب ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو ہندو رہے گا ، نہ مسلمان مسلمان ۔ مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ یہ ذاتی معاملہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے اور ایک مملکت کے شہری کی حیثیت سے”۔

قرارداد مقاصد چونکہ آئین کا باقاعدہ حصہ ہے اور اس کا متن ضمیہ میں موجود ہے۔ لہٰذا اگر کسی حالات میں آئین کو منسوخ بھی کیا جائے تو قرارداد مقاصد خود بخود منسوخ یا تحلیل نہیں ہوگی۔ دستور چونکہ زمان و مکان کا پابند ہوتا ہے اور اُبھرتے ہوئے ضروریات کے مطابق تبدیل بھی ہوتا رہتا ہے، اسی لیے پاکستان کے آئین میں ترمیم کا طریقہ کار آرٹیکل 239 میں دیا گیا ہے جس کے تحت آرٹیکل 2 آلف (قرارداد مقاصد) بھی قابلِ ترمیم ہے۔ اگر ہم پاکستان کے سیاسی و معاشرتی مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہتے ہوں تو ہمیں قرارداد مقاصد کو بھی زیر بحث لانا چاہئے