نجانے کیوں ہم قبرستانوں سے ڈرتے ہیں!

(قاسم یعقوب)

میں کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ ہمیں قبرستانوں سے ڈر کیوں لگتا ہے؟ کیا ہم زندہ انسانوں سے اتنا ڈر جاتے ہیں کہ اُن کے مر جانے کے بعد بھی اُن سے ڈرتے رہتے ہیں۔ہمیں ڈر کس چیز سے لگتا ہے____مردہ انسانوں یااُن کی مردہ ہوجانے والی سوچوں سے؟ اگر ہم انسانوں سے نہیں ڈرتے بلکہ وہاں موجود انسان دشمن روحوں سے ڈرتے ہیں تومعلوم نہیں کیوں یہ روحیں صرف ان مردہ انسانوں کو ہی نقصان پہنچانے اُن کے قبرستانوں میں آ کر رہنا شروع کر دیتی ہیں ۔ کیا یہ بد روحیں زندہ انسانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں؟ کیا اُن میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ زندہ انسان کاجینا دو بھر کر دیں؟ بس یہ ایسی ہی باتیں بنی ہوئی ہیں کہ مردہ انسانوں کے ساتھ اُن کی بد روحیں بھی قبرستانوں کا رُخ کر لیتی ہیں۔ یہ بد روحیں اصل میں ہمارے اپنے اندر ہیں۔ہمارے کردار اِن روحوں کو پیدا کرتے ہیں۔ ہم خوف سے بچنے کے لیے ان بد روحوں کو مردہ انسانوں کے پاس منتقل کر دینے میں سہولت محسوس کرتے ہیں ۔ ہمیں ان روحوں کی بد خصلت عادات کا زیادہ اندازہ شاید ویرانوں اور خصوصاً انسانی کردار کی ویرانی میں جا کر زیادہ ہوتا ہے۔ ہم قبرستانوں میں اسی لیے جاتے ہوئے گھبراتیں ہیں۔ بچپن ہی سے ہم قبرستانوں کے متعلق خوف ناک کہانیاں سنتے آتے ہیں ۔ہمارے گھر کے بڑے افراد قبرستانوں کے متعلق ایک عجیب خوف ناک فضا تخلیق کر کے شاید بچوں کو اپنی بد روحیں دکھانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔بچے تو پھر بچے ہوتے ہیں وہ اسی خوف میں بڑے ہو جاتے ہیں۔ مگر جب کوئی اپنا پیارا مرتا ہے تو پھر یہ خوف ایک دم غائب ہوجاتاہے۔ اب بھلا کسی کا باپ یا ماں قبرستان میں پڑی ہو تو کیسے یقین کر لیا جائے کہ قبرستانوں میں چڑیلیں اور بھوت ہوتے ہیں اوربد روحوں کا خوف اپنا ہالہ بنائے ہر قبرستان پر براجمان ہے۔پھر ایک وقت آتا ہے کہ انسان کندھوں پر جنازے اُٹھاتے اُٹھاتے بوڑھا ہو جاتا ہے۔ بڑھاپے میں قبرستانوں سے خوف نہیں آتا۔پھر اُسے بھوت یا بد روحیں تنگ نہیں کرتیں۔کیوں کہ وہ کسی بھی وقت خود اس قبرستان کا حصہ بننے والا ہوتا ہے۔
آپ کو یہ جان کر بڑی حیرت ہوگی کہ مجھے بہت چھوٹی عمر میں ہی قبرستانوں سے خوف نہیں آتا۔ میں کسی بھی قبر کے پاس رات کے کسی بھی وقت جا کر کھڑا ہو سکتا ہوں۔ میں تو رات دن کی تخصیص کے بغیر قبرستانوں کے صدر دروازے سے اندر داخل ہو کر بغیر کسی خوف سے باہر آجاتا ہوں۔ شاید اس کی ایک وجہ میری ماں کی تربیت تھی۔ فیصل آباد میں میرا گھر ایک قبرستان کے قریب واقع تھا۔ہرسال رمضان آتاتو میری ماں مجھے سحری کے وقت سب سے پہلے اُٹھا دیا کرتی ۔ میری ڈیوٹی سحری کے لیے بازار سے خریداری ہوتی۔میں پہلے پہل تو نیند سے بیزاری سے بچنے کے لیے بہانا بناتا رہا مگر پھر میری روٹین بن گئی۔میں ہر سال اس ڈیوٹی کو انجام دینے لگا۔ ہمارے گھر کے کچھ ہی فاصلے پر ایک قبرستان تھا اور قبرستان کے دوسری طرف ایک پُر رونق بازار______ جہاں سے سحری کے وقت بہت رونق لگ جایا کرتی۔ اپنے گھر کی ویران گلی اور پھر قبرستان کو پار کرنا اور وہ بھی سحری کے وقت ایک بچے کے لیے کوئی آسان کام نہ ہوتا۔مگر مجھے جلدی گھر لوٹنے کی نیت سے اس قبرستان کو پار کرنے میں کوئی دقت محسوس نہ ہوتی۔ اگر میں چاہتا تو ساتھ والی گلیوں کی تاریکیوں سے ہوتا ہوا بھی بازار تک پہنچ سکتا تھا مگر مجھے اپنی ماں کی کہی ہوئی بات یاد آجاتی کہ’’ قبرستانوں سے ڈرا نہیں کرتے۔ ہم سب نے وہیں لوٹ کے جانا ہے‘‘ یوں میرے اندر قبرستانوں کا خوف دور ہوتا گیا۔
قبرستانوں اور قبروں پر مجھے دو بہت اچھے افسانے یاد آ رہے ہیں۔ ایک افسانہ منشا یاد کا ’’کچی پکی قبریں‘‘ اور دوسرا علی اکبر ناطق کا ’’تابوت‘‘______’’کچی پکی قبریں‘‘ ایک گورکن ’’کوڈو‘‘ کی کہانی ہے جو اپنی ماں کی تعظیم کی خاطر چودھریوں کی قبر سے اپنی ماں کی قبر تبدیل کر لیتا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنے دل میں کڑتا ہے جب وہ امیر اور غریب کی قبر میں ،قبرستانوں میں بھی اتنا فرق دیکھتا ہے۔ ’’بڑے لوگوں کی قبریں بھی بڑی اور پختہ ہیں، غریب اور نادار لوگوں کی قبرین کچی اور بے نشان ہیں۔ زمینداروں اور چودھریوں کی پختہ قبریں ان کی حویلیوں کی طرح اچھی اور بلند جگہوں پر ہیں۔ دور ہی سے پہچانی جا سکتی ہیں۔ اور ان میں بعض پر دیے جلانے کے لیے طاقچے بنے ہوئے ہیں اور سنگِ مرمر کی لوحیں نصب ہیں۔مزارعوں اور کمی کاروں کی قبریں نم آلود اور نشیبی جگہوں پر ہیں۔ان کے وارث کام کاج میں پھنسے رہتے ہیں اور کبھی سال میں ایک بار محرم کے مہینے میں آتے۔‘‘اسی قسم کی قبر، قبرستان کے کورگن ’’کوڈو‘‘کی والدہ کی بھی ہے۔ مگر وہ اپنی اس توہین کا سماجی بدلہ اپنی ماں کی قبر کو تبدیل کر کے لے لیتا ہے اور کہتا ہے:’’کون دیکھتا ہے اور دیکھ بھی لے توکیسے پہچان سکتا ہے، امیر اور فقیر سب کی کھوپڑیاں اور ہڈیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔‘‘علی اکبر ناطق کا افسانہ مجھے بہت حیران کر دینے والا تاثر دیتا ہے’’تابوت‘‘ اصل میں ایک تہذیب ہے جسے مرنے والا مرنے کے بعداپنی تعظیم کی خاطر اسے ساتھلے جاناچاہتا ہے۔ سہیل کو اپنی دھرتی سے بہت محبت ہے وہ امریکہ میں رہتے ہوئے بھی اپنی دھرتی سے بہت محبت کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے اُس کلچر سے جان چھڑا کر ہمیشہ کے لیے اپنے لوگوں کے پاس چلا آئے۔ آخری بار وہ یہ عہد کر کے جاتا ہے کہ وہ جلد لوٹ آ ئے گا ۔ جب وہ اپنے گاؤں میں ایک موت دیکھتا ہے تو اُسے احساس ہوتا ہے یہاں کی موت بہت بھیانک ہے۔ وہ خواہش کرتا ہے کہ مرنے کے بعد اُسے امریکی کلچر یایعنی ’’تابوت‘‘ میں دفنایا جائے مگر جب وہ مر کے واپس اپنی دھرتی میں آتا ہے تو اس کی یہ خواہش بھی نامکمل ہی رہتی ہے۔ مولوی یہ فتویٰ دے دیتا ہے کہ تابوت میں دفنانا جائز نہیں۔اور یوں وہ اپنی دھرتی کے اُسی کلچر کے ساتھ دفن ہوجاتا ہے جسے وہ عمر بھر ناپسند کرتا رہاتھا۔
آپ بھی سوچ رہیں ہوں گے کہ ان قبروں سے کیسے کیسے افسانے وابستہ ہیں۔ وہی قبر جس میں انسان مر کے مرا ہوا ہی ہوتا ہے مگر ہم زندہ لوگ ان مردہ لوگوں کے ساتھ بھی اپنی خواہشات اور اپنے تعصبات کو نتھی کر کے دیکھتے ہیں۔ مجھے قبروں سے اب بالکل بھی ڈر نہیں لگتا ایسا نہیں کہ میری ماں نے کہا ہوا ہے کہ قبروں سے مت ڈرا کرو کہ ہم نے بھی ان کا حصہ ہو جاتا ہے بلکہ جب سے میرا باپ ان قبرستانوں کا حصہ ہو گیا ہے۔خوشاب شہر کے وسط میں واقع ایک نیم بنجر قبرستان جہاں ہر بارش کے بعد کچھ جھاڑیاں اُگ آتی ہیں میرے باپ کے فانی جسم کی اب آخری نشانی ہے۔میں جب قبرستانوں کے قبرستان روئے زمین سے مٹنے کے واقعات سنتا ہوں تو مجھے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جسم ہی فانی نہیں بلکہ ان کے نشان بھی فانی ہیں۔ یہ نشانات تک مٹ جاتے ہیں۔ نجانے انسان کہاں چلے جاتے ہیں۔ کتنے بھرپور انسان، کتنے حسین اور شاندار انسان_____!!!
پچھلے سال جب میں اپنے باپ کی قبر کے پاس کھڑا تھا تو میرے دائیں ہاتھ میرے بہنوئی شاکر نویدکھڑے اپنی والدہ کے لیے رو رہے تھے۔ اُن کی ماں میرے باپ کی سگی بہن ہیں اور حسنِ قسمت کہیں کہ دونوں قبریں اوپر نیچے بنی ہوئی ہیں۔ میں قبرستان سے باہر نکلتے ہوئے سو چ رہا تھا کہ اس قبرستان میں ہزاروں قبریں موجود ہیں۔ ان ہزاروں قبروں میں ہزاروں لوگ کیسی کیسی زندگی گزار کے چلے گئے ہیں مگر ان پر رونے والے بھی کیسے کیسے اور کتنے مختلف لوگ ہوں گے۔ ہر قبر کے پیچھے اُس کی ایک کہانی بھی ساتھ دفن ہو جاتی ہے۔ میرے بہنوئی شاکر نوید اپنی ماں کی یاد تازہ کرتے ہوئے نجانے اُس سحر زدہ کیفیت میں ہوں گے جس وقت میں قبر کے سرہانے کھڑااپنے باپ کی انگلی پکڑ کے لطیف جذبوں سے گزر رہا تھا۔ہمارے قبرستان سے جانے کے بعد نجانے کتنے لوگ اپنا کون سا یاد گار لمحہ ان قبروں کو لوٹانے آتے ہوں گے۔!!
یہ احساس تب تک ہوتا ہے جب تک ہم خود ان قبروں کا حصہ نہیں بن جاتے۔
مجھے قبروں سے ڈر نہیں لگتا۔ میں اب بھی سحری کا سامان لینے اپنی ماں کے کہنے پر روزانہ اُٹھتا ہوں اور ان قبروں کے بیچوں بیچ گزرتا ہوں ایک پُر رونق بازار میں آنکلتا ہوں۔ میں یہ سفرکئی دہائیوں سے کر رہا ہوں مگر اب کچھ سالوں سے مجھے ایسی قبر سے بھی گزرنا پڑتا ہے جو مجھے ڈراتی نہیں بلکہ پیار کرتی ہے مجھے کچھ دیر تک اپنے پاس بیٹھنے کے لیے کہتی ہے اور میں صرف اُس قبر کے پاس بیٹھتا ہی نہیں بلکہ اُس کے اندر اُتر جاتا ہوں۔ اُس کے مردہ جسم میں زندہ سانس محسوس کرتا ہوں۔ اپنا دکھ کہتا ہوں اور زمانے بھر کی باتیں کر کے اُٹھتا ہوں۔ وہ قبر مجھے روکتی ہے کہ اور رک جاؤ مگر میں اُس قبر کو یہ کہ کر واپس آ جاتا ہوں کہ سحری کا وقت ہے میری ماں میرا انتظار کر رہی ہے۔
ہمیں قبروں سے ڈرنا نہیں چاہیے کیوں کہ ہم نے بھی بہت جلد ان کا حصہ ہو جاناہے۔

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔

1 Comment

Comments are closed.