کھیل تو آباد رہنے دو:پاکستان ہاکی کی صورتِ حال (ایک جائزہ)

(ریحا ن اصغر رانا)

 

برصغیر میں ھاکی کا کھیل برٹش دور میں متعارف ھوا۔انگریز فوجیوں نے ﺍس قطعہ زمین کے سرسبز ﺍور ہموﺍر میدﺍنوں کو ہاکی کے لئے موزوں پا کر یہاں ہاکی کھیلنا شروع کیا ﺍس طرح یہ کھیل برِصغیر میں متعارف ہوا۔رفتہ رفتہ یہ کھیل مقامی آبادی میں بھی مقبول ہونے لگا اور وہ بھی اس کھیل میں حصہ لینے لگے۔ﺍنگریزوں کی نسبت مقامی لوگ زیادہ چست اور برق رفتارہوتے جبکہ ان کی کلائيوں میں موجود قدرتی لچک ﺍنہیں ﺍنگریزوں سے ممتاز بناتی تھی۔یہ کہنا ہرگز بےجا نہ ہو گا کہ ہاکی کے کھیل کو بامِ عروج تک پہنچانے کا سہرا برِصغیر کی مقامی آبادی کے سر ہی جاتا ہے۔١۹۲۸ کے اولمپکس کھیلوں میں پہلا گولڈ میڈل جیتنے والی انڈین ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی جن میں دھیان چند،فیروز خان،علی شوکت،جے پال سنگھ ، سنتوش ملنگی جیسے نام شامل تھے مقامی آبادی ہی سے تعلق رکھتے تھے۔اگر تاریخ پر نظر دوڑٴايئں ٴتو ١۹۲۸ کے بعد تقریباً سات دہاٴيئوں تک دنیاےٴ ہاکی پر برِصغیر یعنی انڈیا اور پاکستان کی ہی حکمرانی رہی ہے۔لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ دونوں ممالک ہی اپنی حکمرانی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔پہلے انڈیا اور پھر پاکستان میں یہ کھیل درجہ بدرجہ تنزلی کے زینے اترتا ہی چلا گیا۔
۲۰۰۰ کے بعد سے پاکستان میں ہاکی کا کھیل مسلسل زوال کا شکار ہے اور دن بدن بجاےٴ بہتری کے اس کی ابتری میں اضافہ ہی ھوا چلا جا رہا ھے۔آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہاکی کا کھیل اس حد تک زوال پذیر ھو گیا کہ ہم دنیاےٴ ہاکی میں اپنے ہی متعارف کردہ ٹورنامنٹ ، چیمپینز ٹرافی میں شرکت سے معذرت کرنے پر مجبور ھو گےٴ ہیں؟؟؟
اس ضمن میں اگر سابق کھلاڑیوں اور اولیمپین حضرات جو اس وقت پی ایچ ایف کے تقریباً تمام عہدوں پر براجمان ہیں کی راےٴ دریافت کی جاےٴ تو یہ تمام افراد حکومت کی عدم دلچسپی، فنڈز کی عدم دستیابی، ناکافی سہولیات اور کھلاڑیوں کے لےٴ روزگار کے مواقع نہ ھونے کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔بلاشبہ یہ عوامل بھی کسی حد تک ہاکی کے زوال کے ذمہ دار ہیں لیکن یہ سب عوامل ثانوی حیثیت کے حامل ہیں۔درحقیقت ہاکی کی تباہی کی اصل اور بنیادی اسباب وہ ہیں جن کا براہِ راست تعلق گراوٴنڈ سے ہے اور جن پر آج تک ہاکی کے یہ خود ساختہ ٹھیکیدار پردہ ڈالتے رہے ہیں تاکہ وہ اپنی نااہلی چھپاسکیں۔
نوے کی دہائي میں جب فیڈیرشن آف انٹرنیشنل ہاکی نے نو آف سائیڈ رُول کو اس کھیل میں متعارف کرایا تو بد قسمتی سے ہمارے کوچز اس رُولکی افادیت اور کھیل میں کی گئي تبدیلی کو سمجھ ہی نہ پاےٴ اور اِس سے ویسا فائدہ نہیں اُٹھا سکے جیسے یورپین کوچز نے اُٹھایا۔
ڈاجنگ اوراسٹک ورک میں مہارت جو ایشیائ ٹیموں بالخصوص پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کا موٴثر ترین ہتھیار سمجھا جاتا تھا اُسے یہ سمجھ کر یکسر نظر اندازکر دیا گیا کہ اب اس کھیل میں کامیا بی کی ضمانت صرف اور صرف لانگ پاسز پہ ہی منحصر ھے۔میں نے خود ہاکی کے قومی اور ڈیپارٹمنٹیل سطح کے ایسے ٹریننگ سیشنز دیکھے ہیں جن میں ہمارے کوچز کھلاڑیوں کو نوے فیصد ٹریننگ صرف انہی خطوط پہ دیتے کہ کھلاڑیوں کی پاسنگ کا معیار بہتر بنایا جاےٴ جبکہ ڈاجنگ کو گناہ کا درجہ دیدیا گیا۔ حتٰی کہ اگر کوئي کھلاڑی اس کی جسارت کر دیتا تو وہ کوچ کے غضب کا نشانہ ٹہرتا۔ نتیجتاً ہم نے اپنی وہ مھارت منوں مٹی تلے دفنا دی جس کے بل بوتے پہ ھم نے دنیاےٴ ہاکی پہ راج کیا۔
دوسری جانب اگر آج یورپين ٹیموں کا تجزیہ کیا جاےٴ تو انہوں نے اپنی بنیادی مہارت یعنی لانگ پاسز کے ساتھ ساتھ ڈاجنگ اور اسٹک ورک پر بھی محنت کی اور رفتہ رفتہمھارت حاصل کر لی ہے جس کی وجہ سے آج وہ ہماری نسبت نہ صرف لانگ پاسز بلکہ اعلٰی ترین اسٹک ورک اور ڈاجنگ کا مظاہرہ کرتے نطر آتے ہیں۔المیہ تو یہ ہے کہ یورپین ٹیموں کے دفاعی کھلاڑی بھی ہمارے فارورڈذ کی نسبت بہتر اسٹک ورک رکھتے ہیں۔کتنے افسوس کا مقام ہے کہ دنیاےٴ ہاکی کو ریورس شاٹ سے متعارف کروانے والے تو ہم تھے مگر موجودہ ٹیم میں ایک بھی کھلاڑی ایسا نہیں جو ڈھنگ سے ریورس شاٹ کھیل پاتا ھو۔
اگر ہم ہاکی کے میدان میں اپنا کھویا ھوا مقام واپس چاہتے ہیں تو ھمارے کوچز کو ماڈرن ہاکی کی ضروریات اور اس میں لانگ پاسز کیساتھ ڈاجنگ اور اسٹک ورک کی افادیت کو بھی سمجھنا ھوگا۔
ہاکی میں زوال کی دوسری اہم وجہ ہمارے کھلاڑیوں کا کم فٹنس لیول اور اس ضمن میں ہاکی کے داناوٴں کی عدم آگاہی ہے۔۸۰ کی دہائي میں یورپ میں اسپورٹس فٹنس کے میدان میں انقلاب برپا ھوا، نئي ریسرچز سامنے آئیں جن کی بنیاد پہ گوروں نے دوسری کھیلوں کے ساتھ ہاکی میں بھی کھلاڑیوں کی فٹنس کو بھتر بنا لیا۔جبکہ ھمارے ہاکی پنڈت آج بھی کسی ماہر ٹرینر کی خدمات حاصل کرنے کی بجاےٴ وہی پرانے اور گھسے پِٹے طریقوں سے ہی کام چلا رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ٹیم کو فوجی ٹرینرز کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ھے۔ اب ان پڑھے لکھے جاھلوں کو کون سمجھاےٴ کہ اسپورٹس فٹنس کا فوجی ٹریننگ سے دوردور کا واسطہ نھیں ھے۔
اگر ھم چاھتے ھیں کہ ھماری ٹیم کا فٹنس لیول بہتر ھو تو پی ایچ ایف کو چاھےٴ کہ وہ ماہرینِ اسپورٹس فٹنس کی خدمات حاصل کریں۔
نہ صرف یہ بلکہ غذائي ماہرین سے بھی استفادہ حاصل کیا جاےٴ تاکہ ھماری ٹیم کی فٹنس بھی عالمی معیار کے مطابق ھو سکے اور پاکستان ہاکی کے میدان میں پھر سے آگے بڑھنے لگے۔