پنجاب کا آزاد خیال ماضی

پنجاب کا آزاد خیال ماضی

(ملک آفتاب احمد اعوان)

آج کل جب میں اپنے دانشوروں اور اسلامی اخلاقیات کے ٹھیکیداروں کے میڈیا کے کردار اور بڑھتی ہوئی فحاشی اوربے حیائی پر لکھے ہوئے مرثیے پڑھتا ہوں اور ٹیلی وژن پر ان کے نوحے سنتا ہوں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ وارث شاہ اور پنجاب کے دوسرے شعراء آج کے دور میں پیدا نہ ہوئے ورنہ

ہیر جو شادی شدہ ہونے کے باوجود اپنی محبت پانے کے لئے جدوجہد کرتی رہی

اوریا مقبول جان، انصار عباسی اور ان کے ساتھی حضرات نے تو وارث شاہ اور حافظ برخوردار پر بے حیائی اور بد کرداری پھیلانے کا مقدمہ درج کروا دینا تھا کیونکہ ہیر شادی شدہ ہونے کے باوجود گھر سے بھاگ گئی، صاحباں نے بھی یہی کارنامہ سر انجام دیا۔ وارث شاہ اور حافظ برخوردار نے بجائے ان کو لعن طعن کرنے کے ان پر ایسی داستانیں لکھ ماریں کہ انہیں لازوال کر دیا۔

ہیر، صاحباں اور سوہنی ہمارے کسی روایتی اخلاقی معیار پر پوری نہیں اترتیں بلکہ موجودہ دور میں ہوتیں تو ان کی مائیں ان پر مٹی کا تیل چھڑک کر ان کو آگ لگا دیتیں مگر یہی لڑکیاں ہمارے تمام شعراء کے لئے جن میں صوفی شعراء بھی شامل ہیں عشق اور محبت کی معراج کا استعارہ ہیں اور پنجاب کے دلوں کی دھڑکن بھی۔ ان کی داستانیں آج سے کچھ سال پہلے تک پنجاب کی ہر محفل اور بیٹھک میں لہک لہک کر گائی جاتی تھیں اور ساری مائیں بہنیں ذوق و شوق سے انہیں سب کے ساتھ سنا کر تی تھیں۔

پنجاب کی یہ لوک داستانیں ہمیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ کہ پنجاب کا مزاج کتنا لبرل تھا کیونکہ کسی نے ان داستانوں میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی بلکہ یہ ہر بیٹھک اور مجلس کا حصہ ہوتی تھیں۔

صاحباں نے اپنی محبت پانے کے لئے گھر چھوڑ دیا

اور ہمارے بزرگوں بلکہ خواتین کو بھی ان کا بہت بڑا حصہ زبانی یاد ہوا کرتا تھا حالانکہ یہ تمام داستانیں ایسے تعلقات کے بارے میں ہیں جنہیں ہمارے معاشروں میں اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا۔ ایک شادی شدہ عورت کا ایک غیر مرد سے معاشقہ، سات غیرت مند بھائیوں کی بہن کا مرزا کے ساتھ تعلق اور فرار، سوہنی کا ایک مختلف سماجی گروہ سے تعلق رکھنے والے مہینوال سے عشق، کل بھی اور آج بھی ناقابل قبول ہیں۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ ان تمام داستانوں میں جو کردار ہماری روایتی غیرت کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں انہیں ولن کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، چاہے وہ کیدو ہو، صاحبان کے بھائی ہوں یا سوہنی کی بھابھیاں۔ ہم میں سے جس کا بھی تعلق پنجاب کے دیہات سے ہے وہ جانتا ہے کہ اگرچہ ہمارے گاؤں دیہاتوں میں کبھی بھی ایسے تعلقات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا مگر ان کے طرف ہمارے دیہاتوں میں رویہ اس قدر متشدد بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہم دیہاتیوں میں سے ہر کوئی اپنے دیہات کے ایسے چند کرداروں سے واقف ہوتا ہے کہ جن کے بارے میں اس قسم کی داستانیں مشہور ہوتی تھیں مگر کسی کے دل میں یہ خیال بھی نہیں آتا تھا کہ اس کردار کے ساتھ کوئی متشدد سلوک بھی ہو گا۔

پنجاب کے کلچر میں انسانی رویوں اور انسانی تعلقات کے تنوع اور بغاوت کے بارے میں ایک روادارانہ قبولیت کا رویہ پایا جاتا تھا۔ چاہے اس تنوع اور بغاوت کو پسند نہ بھی کیا جاتا ہو مگر اس کو غیر مناسب سختی اور تشدد سے روکنے والوں کو اس سے بھی سختی سے ناپسند کیا جاتا تھا یہی وجہ ہے کیدو ہمارے ہاں ایک ولن ہے ہیرو نہیں۔ مگر آج کل کے نئے متشدد بیانئے کے زیر اثر جسے مذہبی رہنماؤں اور اخلاقیات کے ٹھیکیداروں نے فروغ دیا ہےکل کے ولن آج ہیرو کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں غیرت کے نام پر ہونے والے تشدد اور قتل کے واقعات بڑہتے جا رہ ہیں۔

 

سوہنی چناب کی موجوں سے لڑتی ہوئی مہینوال سے ملنے جاتی تھی

ان داستانوں کا ایک اور منفرد پہلو ان کی ہیروئنوں کی کردار نگاری ہے۔ کیا کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ پنجاب کی رومانوی داستانوں اور دوسری رومانوی داستانوں میں کیا فرق ہے۔ لیلیٰ تو مجنوں کو جلا جلا کر اور چلا چلا کر مار دیتی ہے مگر سوھنی خود مہینوال سے ملنے کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کر کچے گھڑے کو لے کر دریا کے پار جانے کے لئے تیار ہوجاتی ہے۔ شیریں تو فرھاد کو ایک جان جوکھوں والے کام کے پیچھے لگادیتی ہےمگر ہیر رانجھے کے لئے سماج اور روایات کےسارے بندھن توڑ کر نکل جاتی ہے۔ مومل تو اپنے محبوب کے لئے رو رو کرمر جاتی ہے مگر صاحباں مرزے کےہیں۔

میرا خیال ہے کم از کم پنجاب میں ہمیں کس نئے بیانئے کی ضرورت نہیں بلکہ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم پنجاب کے اصل پرانے بیانئے کو زندہ کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ اصل پنجاب وہ نہیں جو ہ دیکھ رہے ہیں بلکہ اصل پنجاب وہ ہے جو وارث شاھ، بلھے شاہ اور حافظ برخوردار کی داستانوں میں ہمیں نظر آتا ہے۔

بشکریہ: سفیراللہ خان کا بلاگ