پرویز رشید: جمہوریت کے عشاق کے چلے قافلے میں سے وہ کٹ گرا ہے

(فاروق احمد)

تحریکِ بحالیٔ آمریت کو تو خون نہ مل سکا لیکن جمہوریت کو پرویز رشید کی قربانی نے نیا خون دے دیا۔ جمہوریت بچانے کیلئے پرویز رشید نے خود کو پیش کر دیا اس دیومالائی اژدھے کے سامنے جو جمہوریت کو ہڑپ کر جانے کیلئے پھن اٹھا کر کھڑا ہو گیا تھا۔ پرویز رشید جیسا سچا سیاسی کارکن ہی ایسا کر سکتا تھا جس نے جمہوریت کیلئے فوجی تشدد خانوں میں بہیمانہ تشدد برداشت کیا ہو۔ پرویز رشید کا نام پاکستانی جمہوری جد و جہد کی تاریخ میں آج امر ہو گیا انمٹ ہو گیا۔

وہ وقت بھی ضرور آئے گا جب پاکستان میں جمہوریت کا پہیہ رواں ہو جائے گا اور جب وقت کے ساتھ ساتھ سازشیں دم توڑتی جائیں گی۔ اور جب جمہوریت سے نفرت اور بغض رکھنے والے مارشل لا پسند جمہوریت کیلئے اپنی خدمات گنوایا کریں گے، اور جب جمہوری فلٹر پلانٹ کی بلا تعطل کارکردگی کے سبب اسمبلیاں کرپٹ سیاستدانوں سے پاک ہوتی جائیں گی، اور جب احمقوں اور لال بھجکڑوں کی جگہ اسمبلی کی نشستوں پر مدبر اور مفکر بیٹھے نظر آئیں گے۔

تو پھر وہ وقت بھی آئے گا جب مستقبل کا مورخ پاکستان میں جمہوری جدوجہد کی تاریخ رقم کرنے کے دوران شہدائے جمہوریت اور غازیانِ جمہوریت کی فہرست مرتب کرنے بیٹھے گا تو قطعی پرواہ نہیں کرے گا کہ اس فہرست میں جمہوریت کی بقا کیلئے جن افراد کے نام وہ سر فہرست رکھ رہا ہے، وہ اپنے وقتوں میں سوشل و الیکٹرونک میڈیا پر مطعون ترین لوگ سمجھے جاتے تھے۔ اور سب سے زیادہ مغلظات اور پھٹکار ان کے حصے میں آیا کرتیں تھی۔ مورخ کیلئے ایسی لعن طعن قطعی بے معنی اور غیر اہم ہو گی۔

مستقبل کےمورخ کیلئے اہمیت صرف اور صرف اس بات کی ہو گی کہ ان مطعون اور پھٹکاریوں کے اقدامات سے پاکستان، پاکستان کا آئین اور جمہوری نظام مضبوط ہوا یا کمزور، ٹریک پر رہا یا ٹریک سے اتر گیا۔ جاری و ساری رہا یا اس کا تسلسل ٹوٹ گیا، آگے بڑھا یا پیچھے ہٹا۔ حاصل شدہ جمہوری سرمائے کو بچایا گیا یا جن سے جیتا تھا انہیں واپس کر دیا گیا۔ مورخ کے نزدیک حتمی فتح یا شکست، پیش قدمی یا پسپائی کی اہمیت ہو گی۔ اس کی نہیں کہ اس فتح کیلئے اسے کن مورچوں سے پیچھے ہٹنا پڑا اور اس کے کتنے کمانڈر اس فتح کے دوران کام آ گئے یا اسے وقتی حکمت عملی کے طور پر کن کن محازوں سے لوٹنا پڑا، کہاں کہاں ضمنی ہزیمتوں سے دو چار ہونا پڑا، اس کا ذکر صرف اور صرف حتمی اور فیصلہ کن فتح یابی کی ذیلی حکمت عملی کے طور پر تعریفی پیرائے میں ملتا ہے کہ کس طرح داد شجاعت دیتے ہوئے کچھ لوگ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر آئے۔

پاکستان کی جمہوری جدوجہد میں ہماری تمام تر طنزیہ و تمسخرانہ مسکراہٹوں اور استہزائیہ قہقہوں کے باوجود دو نام ہمیشہ کیلئے ایک بلند مقام حاصل کر چکے ہیں کہ جنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نو برس جمہوریت کو ڈی ریل نہ ہونے دیا۔

تمام تر ذمے داری کے ساتھ کہوں گا کہ یہ دو نام ہیں آصف علی زرداری اور محمد نواز شریف کے۔ یقیناً ان دونوں کے جیالوں اور متوالوں میں ایسے بھی ہوں گے جو اپنے اپنے لیڈر کے ساتھ دوسرے کا نام لکھے جانا پسند نہیں کریں گے بلکہ اس پر دل آزاری کا برملا مظاہرہ بھی کریں گے۔

ان دونوں شخصیات نے اپنے تدبر اور معاملہ فہمی سے گذشتہ نو برس میں وہ کر دکھایا جو جمہوریت کی بنیادیں گہری اور جڑیں مضبوط کرنے کیلئے کلیدی اور اسٹریٹجک اہمیت کا حامل تھا۔ اور وہ یہ کہ بس جمہوریت کے پودے کو اکھڑنے نہ دو یعنی فوجی دباوٗ کا سامنا اور مقابلہ کر کے منتخب حکومت۔ چاہے اس کیلئے کسی بھی حد تک جانا پڑے جمہوری نظام کو بیچ راستے میں اور پانچ سال پورے کیے بغیر غیر آئینی طور پر مرنے مت دو۔ اور یہی وقت کی اہم ترین اور مقدم ترین ضرورت ہے کہ حکومتیں پانچ سال کی آئینی مدت پوری کریں۔

اس حکمت عملی کی اسٹریٹجک اہمیت کا پکا احساس فوجی قیادت اور ہم نوا جمہوریت دشمنوں کو بھی پورے طور پر ہے۔ جب ہی تو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ کسی طرح سویلین سیٹ اپ کو دوسری ٹرم پوری ہونے اور تیسری شروع ہونے سے پہلے ہی لپیٹ دیا جائے۔

آنے والا یہ تیسرا پر امن ٹرانسفر آف پاور، اسٹاک مارکیٹ کی اس نفسیاتی حد کی مانند ہے جس کو عبور کر کے مارکیٹ میں ایک نیا اعتماد عود کر آتا ہے اور یہی ہے وہ اعتماد جو اسٹیبلشمنٹ کیلئے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ اور اس کا کریڈٹ جاتا ہے دو ہستیوں کو۔ زرداری اور نواز ۔۔۔ زرداری کو پہلے پانچ سال گزارنا کہیں زیادہ مشکل رہا تھا جبکہ نواز شریف کو دوسرے پانچ سال گزارنا اس قدر مشکل نہیں رہے۔

آنے والے پانچ سال مزید آسان جبکہ سازشیوں کیلئے بے حد مشکل ثابت ہوں گے۔ مشکل اس لئے کہ اس وقت ان کو اپنی سازشوں کیلئے پراکسیز میسر نہیں آئیں گے اوراگر آئیں گے بھی تو ان کا معیار قدرے گھٹیا ہو گا۔ مبشر لقمان اور عمران خان سے بھی کہیں زیادہ۔ خود ہی سوچیئے کہ وہ وقت کیسا ہو گا جب اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی جگہ شکیل نائی سے کام چلانا پڑے گا اور شیخ رشید کی جگہ اس طوطا فال والے بابے سے۔

اچھا صاحبان! آج کا تماشا ہوا تمام ۔
طوطا بھی اب سوئے گا اور طوطے والا یہ بابا بھی۔۔۔لاؤ سو سو روپیہ طوطا فال نکالنے کا ۔۔۔ دیری ہو رہا ہے اور ابھی راستے سے دارو لینے تھانے بھی جانے کا ۔۔۔ سالے دوزخ کا ایندھن بنیں گے جنہوں نے شراب خانے بند کرائے ہیں ۔۔۔ اب طوطے کو کیا پلائے گا بابا!