منٹو کے افسانے اور جلیانوالہ باغ کا واقعہ (۱)

منٹو کے افسانے اور جلیانوالہ باغ کا واقعہ (۱)

از، پرویز انجم

امرتسر آزادی پرستوں کا شہر تھا۔ اس شہر نے وہ خون آشام واقعہ بھی دیکھا تھا جسے تاریخ میں جلیانوالہ باغ کے سانحہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ۱۹۱۹ء میں جب یہ واقعہ رونما ہوا تو سعادت حسن منٹو کی عمر نو سال تھی۔ جلیانوالہ کے ہیرو ڈاکٹر سیف الدین کچلو، منٹو کے قریبی عزیز تھے ان کی وجہ سے منٹو خاندان کو بھی مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بنا پر جلیانوالہ کا حادثہ منٹو کے تحت الشعور میں محفوظ ہو چکا تھا۔ منٹو نے اس حوالے سے چندکہانیاں بھی رقم کی ہیں۔ تماشا ،۱۹۱۹ء کی ایک بات، دیوانہ شاعر اور سوراج کے لیے وغیرہ ۔اُس وقت کے نو عمر سعادت حسن منٹوکے محسوسات اور امرتسرمیں جلیانوالہ باغ کی اُس دل خراش روداد کو یہاں براہِ راست بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

منٹوؤں کے آبائی مکان امرتسر کے (چوک فرید) کوچہ وکیلاں میں تھے۔ ان کے بیشتر افراد چونکہ قانون کے پیشے سے منسلک تھے اور اس محلے میں تقریباً سب گھر منٹو خاندان کے تھے چنانچہ اس نسبت سے یہ کوچہ وکیلاں مشہور ہو گیا تھا۔ یہاں کی آبادی شہر کے مقتدر مسلمان گھرانوں میں شمار ہوئی تھی۔ کئی ممتاز مسلمان لیڈر بھی وہاں کی پیداوار تھے۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو تو منٹوؤں کے رشتہ دار تھے۔ ان کے علاوہ عطا اللہ بخاری، قاضی فضل اللہ وغیرہ بھی اہم سیاسی لیڈر تھے۔ منٹو خاندان میں بھی بیشتر لوگ اپنے دور کے معروف وکیل اور بیرسٹر ہوئے۔ منٹو کے تایا میاں اسد اللہ منٹو اور سعادت حسن منٹو کے دو بڑے بھائی بھی بیرسٹر تھے۔ جنہوں نے برطانیہ سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔

سعادت حسن منٹو کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔ سعادت جب آٹھ نو سال کا بچہ تھا تو اُسے مسلم سکول کے پرائمری حصہ کی چوتھی جماعت میں داخل کروا دیا گیا۔ سکول کا یہ حصہ چوک فرید کے پاس واقع تھا۔ جو اُن کے گھر سے منٹوں کی دوری پر تھا۔ اُسے جماعت چہارم پاس کرنے کے بعد پانچویں کلاس میں گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر نزد بت ملکہ وکٹوریہ میں داخل کرا دیا گیا۔ انہی دنوں ملکہ وکٹوریہ کے مجسمے والے سکول کی اس راہ گزر پر ایک ایسے حادثے نے جنم لیا جس کے اثرات سے ہی اُس کم سن بچے کے ذہن و تخیل میں ایک افسانہ نگار نے بھی پرورش پانا شروع کی۔ اُس سانحے سے جلیانوالہ باغ کے جس خونی واقعہ نے جنم لیا اُس کا پس منظر کچھ یوں ہے۔
۱۹۱۹ء میں برصغیر میں برطانوی حکومت کے رولٹ ایکٹ کے خلاف سارے پنجاب میں ایجی ٹیشن جاری تھی۔ لیجسلیٹو کونسل کے ہندوستانی ارکان رولٹ ایکٹ کی پُرزور مخالفت کی تھی تاکہ یہ بل پاس نہ ہو سکے۔ محمد علی جناح نے اس کے خلاف کونسل سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اخبارات نے بھی اس کی شدید مخالفت کی لیکن تمام تر عوامی جذبات کے برعکس ۲۱ مارچ ۱۹۱۹ء کو یہ قانون پاس ہو کر ایکٹ کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ ہندوستان میں اسے توہین آمیز اور ظالمانہ قرار دیا گیا۔ اس کے تحت نہ اپیل، نہ دلیل، نہ وکیل کی گنجائش رکھی گئی تھی۔

اس دور میں مولانا ظفر علی خاں کے ہم عصر سیف الدین کچلو اور مولانا علی اظہر بھی اچھے مقرر تھے۔اس دور میں مولانا ظفر علی خاں کے ہم عصر سیف الدین کچلو اور مولانا علی اظہر بھی اچھے مقرر تھے۔ ترکی میں خلافت کی بحالی کی تحریک میں پہلے ہی ہندوستان کے مسلمان، علی برادران مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی راہنمائی میں پیش پیش تھے۔ مہاتما گاندھی نے بھی حکومتی پالیسیوں کے خلاف ۲۵ فروری ۱۹۱۹ء کو ملک بھرمیں ستیہ گرہ کی کال دے رکھی تھی۔ انڈین نیشنل کانگریس کی پنجاب شاخ کے راہنماؤں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال نے امرتسر میں اس تحریک کی کامیابی کے لیے کمیٹیاں بنا دیں اور انہیں خطاب کیا۔ ۳۰ مارچ کو ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال نے جو جلسہ کیا تھا اُس میں لگ بھگ تیس ہزار افراد شریک ہوئے تھے۔ اس عوامی لہر نے صوبائی حکومت وقت کو پریشان کر دیا۔

امرتسر کے ڈپٹی کمشنر ارونگ نے ڈاکٹر کچلو کو خبردار کیا کہ وہ اس تحریک میں حصہ نہ لیکن لیڈران نے اس بات پر کوئی توجہ نہ دی۔ صوبے کے مختلف شہروں اور قصبوں میں اس مسئلے پر ہڑتالیں ہوئیں اب سیاسی ابتری اور رولٹ ایکٹ نے ایسی فضا قائم کر دی جو کہ دھماکہ خیز تھی۔ ان حالات میں پنجاب کے گورنر مائیکل اڈوائر نے ان جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کو برطانوی حکومت کے خلاف سازش اور تاجِ برطانیہ کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دے دیا۔ مہاتما گاندھی تحریک کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ۸ ؍اپریل کو بمبئی سے دہلی آئے وہاں اُنہیں سرکاری حکم نامہ ملا جس کے تحت ان کے پنجاب میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

لیکن وہ امرتسر کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں پلوال کے نزدیک انہیں گرفتار کر کے واپس بمبئی بھجوا دیا گیا۔ گاندھی کے خلاف اس اقدام کے نتیجے میں پنجاب سمیت ملک کے دوسرے علاقوں میں شدید ردِعمل ہوا۔ حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر حکومت نے پنجاب کی چھاؤنیوں میں مزید فوجی کمک پہنچا دی اور ۹؍ اپریل کو ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کوامرتسر سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اتفاق سے اُس روز ہندوؤں نے اپنی مذہبی تہوار رام نومی کے موقع پر ایک جلوس نکالا ہوا تھا۔ جس میں بڑی تعداد میں مسلمان بھی شریک ہو رہے تھے۔ ڈپٹی کمشنر دہلی کا خیال تھا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کا اس طرح اکٹھے ہو جانا ایک نئی سیاسی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ حکمران یقیناًاضطرابی کیفیت سے دوچار تھے۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی جلاوطنی کے احکام ڈپٹی کمشنر امرتسر ارونگ کومل چکے تھے، لیکن وہ اُن کی تعمیل کے لیے تیار نہ تھا۔ اس لیے کہ اُس کے خیال کے مطابق اس شہر میں ابھی کسی ہیجان خیز بات کا خطرہ نہیں تھا۔ لوگ پُرامن طریقے سے احتجاجی جلسے وغیرہ کرتے تھے جن سے تشدد کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا تھا، مگر گورنر اڈوائر ایک اندھی طاقت کا نام تھا۔ اُس نے ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ رد کر دی۔ اُس پر خوف سوار تھا کہ یہ لیڈر گاندھی کے اشارے پر (سامراج کا) تختہ اُلٹنے کے در پہ ہیں اور جوہڑتالیں اور جلسے منعقد ہو رہے ہیں اُن کے پس پردہ یہی سازش کام کر رہی ہے۔

لہٰذا ڈپٹی کمشنر ارونگ کو ایسا اقدام کرنا پڑا جس سے اُس کے خیال میں مصیبت ٹل سکتی ہے۔ ارونگ صاحب نے ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو ۱۰؍ اپریل کو صبح دس بجے اپنے بنگلے پر بلوایا اور اُنہیں ضلع بدری کا حکم سنایا۔ اُس نے دونوں لیڈران کو عقبی دروازے سے باہر نکل کر ایک گاڑی میں بٹھایا اور دور کسی نامعلوم مقام پر لے گئے۔ انگریز افسروں کا خیال تھا کہ ان حضرات کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد صورتِ حال بہتر ہو جائے گی۔ لیکن جب کانگریس کے کارکن جو اپنے راہنماؤں کے ہمراہ ڈپٹی کمشنر کے بنگلے پر آئے تھے انہوں نے احتجاج کیا تو اُنہیں نظر بند کر دیا گیا مگر یہ خبر چھی نہ رہ سکی بلکہ جنگل کی آگ کی طرح پورے امرتسر میں پھیل گئی۔ بازار، کاروبار بند ہو گئے۔ شہر سائیں سائیں کرنے لگا۔ دل ہر شخص کا انگریز کے عمل سے مکدر تھا۔ لوگ جوق در جوق ہال دروازے کے پاس جمع ہونا شروع ہو گئے۔ ان میں ہر قسم کے لوگ تھے، بوڑھے ، جوان، چھوٹے بڑے سب کے رنگ زرد تھے اور ہونٹ بھینچے ہوئے تھے۔ ان میں وہ طفلِ مکتب سعادت بھی تھا جو دیگر کچھ بچوں کی طرح اکٹھے ہوتے افراد کو اِدھر اُدھر سے آتے، امڈتے دیکھ رہے تھے۔ سعادت گو کم عمر تھا مگر اُسے جستجو تھی کہ ماجرہ کیا ہے؟قطاروں ٹولیوں میں لوگ ہر طرف سے آرہے تھے، سعادت کے اردگرد ایک انتشار کا عالم تھا۔ ہال بازار کی مخالف سمت سے بھی ایک دوسرا ہجوم آ کر ساتھ مل گیا۔ ان کے ملتے ہی پہلے سے موجود لوگوں کی زبانوں میں جان پڑ گئی اور گونگا مجمع یکبارگی پوری طاقت سے چلا اُٹھا کہ ’’سب مل کر ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کے پاس جائیں اور اپنے ہر دل عزیز راہنماؤں کی جلاوطنی کے احکام منسوخ کرانے کی درخواست دیں۔ لیکن درخواست کا وقت ہی نہیں آیا۔ حکمرانوں نے عوام کے اس اجتماع ہی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ ڈپٹی کمشنر کا بنگلہ سول لائنز میں تھا ہر بڑا افسر شہر کے اس الگ تھلگ ایریا میں رہتا تھا۔ یہاں شہر اور سول لائنز کو ملانے والا ایک پل تھا جس پر سے گزر کر آدمی ٹھنڈی سڑک پر پہنچتا تھا جہاں گور ے حاکموں نے یہ جنتِ ارضی بنائی ہوئی تھی۔

یہ ۹؍ اپریل کی بات ہے لوگوں کا یہ اجتماع ہال دروازے سے چلا تو سعادت بھی اُس بھیڑ میں پیچھے پیچھے تھا۔ ظاہر ہے اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں تھی اور وہ بھی انہی کی طرح اکٹر کر تیز قدم اُٹھتا چلا جا رہا تھا۔ یہ نہتے اور پُرامن لوگ تھے ہجوم، سول لائنز کو ملانے والے پل کی طرف بڑھتا رہا اور پل کے قریب پہنچ گیا۔ جلوس کو پھاٹک کے پاس روک لیا گیا۔ جلوس نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو دوسری طرف گوروں نے فائر کھول دیا۔ یہ کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا۔ لہٰذا بھگدڑ مچ گئی۔ پل کے ناکے پر تعینات گورے گنتی میں صرف بیس پچیس تھے اور ہجوم سینکڑوں پر مشتمل تھا۔ افراتفری پھیل گئی کچھ گولیوں سے گھائل ہوئے اور کئی بھگدڑ میں زخمی ہوئے۔ دائیں جانب ایک گندا نالہ تھا کچھ نالے میں گرے۔ کم سن سعادت بھی اُس میں جاگرا۔ نالہ گہرا نہیں تھا جب تک گولیاں چلتی رہیں وہ ڈرا سہما وہیں دبکا رہا۔ گولیاں چلنا بند ہوئیں تو اس نے اُٹھ کر دیکھا۔ تمام ہجوم تتر بتر ہو چکا تھا۔ زخمی سڑک پر پڑے تھے اور پل پر کھڑے گوروں کے چہروں پر فاتحانہ مسکراہٹیں تھیں۔

ظاہر ہے ایسی صورتِ حال میں منٹو کو خود پتہ نہیں ہوگا کہ اُس کی دماغی حالت کیا ہوگی۔ اُس کے حواس سلامت نہیں تھے۔ گندے نالے سے نکلنے کے بعد وقوع پذیر جائے حادثہ کے خدوخال تو دماغ میں آہستہ آہستہ ہی اُبھرے ہوں گے نا، دور فاصلے پر شور کی آوازیں آرہی تھیں۔ لوگوں میں غصہ تھا۔ دوسری جانب سے نالہ عبور کر کے وہ ظاہرا پیر کے تکیے سے ہوتا ہوا واپس ہال دروازے کے پاس پہنچ گیا۔ جہاں تیس چالیس نوجوانوں کا ٹولہ غصے اور جوش میں پتھر روڑے اُٹھا اُٹھا کر ہال دروازے کے گھڑیال پر مار رہے تھے۔ اُس کا شیشہ ٹوٹ کر سڑک پر آگرا۔ ایک جوان نے نعرہ لگایا کہ ’’چلو۔۔۔ اب ملکہ کا بت توڑتے ہیں۔‘‘ اُس کے ساتھی نے کہا ’’نہیں یار۔۔۔ کوتوالی کو آگ لگاتے ہیں۔‘‘ کسی دوسرے نے لقمہ دیا ’’اور سارے بینکوں کو بھی۔۔۔‘‘ ایک بپھرے ہوئے نوجوان نے روکتے ہوئے کہا ’’ٹھہرو۔۔۔ اس سے کیا فائدہ۔۔۔ چلو پل پر جو مسلح کھڑے ہیں اُن کو ماریں۔‘‘
سعادت نے پیچھے فاصلے پر ہونے کے باوجود اُس کو پہچان لیا۔

وہ تھیلا کنجر تھا۔ ۔۔ طفیل نام تھا مگر تھیلا کنجر کے نام سے مشہور تھا۔ وہ ایک طوائف کی اولاد تھا۔ بڑا آوارہ تھا۔ شرابی اور جواری مشہور تھا۔ اُس چھوٹی عمر میں سعادت اُس کے متعلق بس یہی جانتا تھا۔ تھیلے کی دو بہنیں شمشاد اور الماس اپنے وقت کی حسین ترین طوائفیں تھیں۔ اُن کا مجرا سننے کے لیے بڑے بڑے رئیس دور دور سے آتے تھے۔ دونوں بہنیں ، اپنے بھائی کی کرتوتوں سے بہت نالاں رہتیں۔ شہر میں یہ بھی مشہور تھا کہ انہوں نے اس کو عاق کررکھا ہے۔ تاہم تھیلا اپنی ضرورتیں کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اُن سے وصول کر لیتا تھا۔ ہمیشہ خوش پوش رہتا۔ اچھا کھاتا پیتا اور گفتگو بھی نفیس کرتا۔ میراثیوں اور بھانڈوں کے سوقیانہ پن سے دور رہتا تھا۔ لمبا قد، مضبوط کسرتی بدن، اچھے نقش و نگار کا خوبصورت جوان تھا۔ سعادت دیکھ رہا تھا وہ جوش میں تھا۔ لڑکوں کی ایک ٹکری اُس کے ساتھ ہو گئی تھی۔ کچھ پُرجوش ملکہ کے بت کی طرف بڑھنے لگے۔ تھیلا زور سے چیخا ’’میں نے کہا مت ضائع کرو اپنا جوش اِدھر میرے ساتھ آؤ۔ ۔۔ چلو اُن کو ماریں جنہوں نے ہمارے بے قصور آدمیوں کی جان لی ہے اور زخمی کیا ہے۔ خدا کی قسم ہم سب مل جائیں تو ان کی گردنیں مروڑ سکتے ہیں۔۔۔ آؤ چلو!‘‘

کچھ رک گئے، باقی اُدھر نکل پڑے۔ تھیلا جب آگے بڑھا تو وہ سب بھی اُس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ ’’تھیلا اُن کی صرف یہ بتانے چلا ہے کہ وہ گولیوں سے ڈرنے والا نہیں۔‘‘ وہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا۔ ’’جو ڈرتے ہیں واپس جا سکتے ہیں۔‘‘
ایسے موقعوں پر بڑھے ہوئے قدم پلٹ کیسے سکتے ہیں اور وہ بھی اُس وقت جب لیڈر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے آگے جا رہا ہو۔ تھیلے نے قدم تیز کیے، دوسروں کی رفتار بھی تیز ہو گئی۔ سعادت فوارے کے پاس دبکا کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ ہال دروازے سے پل کا فاصلہ کوئی ساٹھ ستر گز ہو گا۔

جہاں سے پل کا دو رویہ متوازی جنگلہ شروع ہوتا ہے۔ وہاں سے پندرہ بیس قدم کے فاصلے پر وہ گھڑ سوار گورے سپاہی کھڑے تھے۔ یہ لوگ نعرے بلند کرتے اُن کی جانب لپکے۔ تھیلا نمایاں آگے آگے تھا۔ پیچھے پیچھے ایک جھمگٹا تھا۔ اپنے ساڑھے تین فٹ قد اور فاصلے کے سبب سعادت پر اگلا منظر واضح نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے سراسیمگی کے عالم میں بار بارپنجوں پر کھڑے ہو کر، اُچھل کر دیکھنے کی کوشش کی۔ تھیلا جب نعرہ مار کر جنگلے کے آغاز کے پاس پہنچا تو فائر کی آواز آئی۔ سب بھاگے مگر تھیلا بڑھتا رہا۔ مڑکر اُس نے پیچھے دیکھا۔۔۔ وہ چلایا ’’بھاگو نہیں۔۔۔ آگے بڑھو!‘‘ اُس کا منہ پیچھے کی طرف تھا چونکہ گولی چلتے ہی درمیان سے لوگ ہٹ چکے تھے۔ اب سعادت کے لیے منظر نسبتاً واضح تھا۔ ایک اور فائر ہوا۔ پلٹ کر تھیلے نے گوروں کی طرف دیکھا اور اپنی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔ سعادت کو اُس کی سفید بوسکی کی قمیص پر لال لال دھبے نظر آئے۔۔۔ مگر وہ گرا نہیں، تیزی سے آگے بڑھا، زخمی شیر کی مانند ۔۔۔ ایک اور فائر ہوا۔ وہ لڑکھڑایا، لیکن ایک دو قدم مضبوط کر کے وہ نزدیکی گھڑ سوار گورے پر لپکا اور چشمِ زدن میں گھوڑے کی پیٹھ خالی تھی، گورا زمین بوس تھا اور تھیلا اُس کے اوپر ۔۔۔ گورے کی گردن اُس کے ہاتھوں کے شکنجے میں تھی۔ دوسرا گھڑ سوار پہلے بوکھلایا پھر دھڑا دھڑ فائر شروع کر دیے۔۔۔ معصوم سعادت اس سے زیادہ نہ دیکھ سکا اور فوارے کے پاس بے ہوش ہو گیا۔

جب ہوش آیا تو وہ اپنے گھر میں تھا۔ چند فرید چوک کے آدمی اُسے پہچان کر گھر لے آئے تھے۔ ہوش تو آ گیا مگر اُس ننھے ذہن میں تھیلے کے درد ناک انجام کی کلباہٹ تھی۔ غالباً یہی وہ اسرار تھا جس نے اُس بچے کے اندر کہانی کی جستجو کو جنم دیا اور وہ لمحہ تھا جب باطن میں کہیں ایک افسانہ نگار بھی پناہ گزیں ہو گیا۔ بعد ازاں جس نے منفرد اور شاہکار افسانے لکھ کر اُردو ادب کو مالا مال کر دیا۔
کہتے ہیں جب مردہ تھیلے کو گورے سے جدا کیا گیا تو اُس کے دونوں آہنی ہاتھ اُس کی گردن میں پوست تھے۔۔۔ گورا جہنم واصل ہو چکا تھا۔ سعادت حسن منٹو نے اس آنکھوں دیکھے ۱۹۱۹ء کے واقعہ کو افسانوی روپ دیا ہے جو کہ جلیانوالہ باغ کے سانحے کا پیش خیمہ تھا۔ انگریزوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے شہید تھیلا کی طوائف بہنوں شمشاد اور الماس کے حسن و جمال کا چرچا جب انگریز فوجی افسروں تک پہنچا تو ان کو گانے کے لیے بلوایا گیا۔ طرب و نشاط کی محفل کے اختتام پر وہ اپنی پوشاکیں اتار کر ننگی ہو کر فوجی افسروں سے کہتی ہیں کہ لو دیکھو ہم تھیلے کی بہنیں ہیں۔ اُس شہید کی جس کی خوبصورت جوانی کو تم نے گولیوں سے چھلنی کیا تھا کہ اُس میں وطن پرستی کی روح تھی۔ آؤ جو کرنا ہے کر لو۔

مگر۔۔۔ ایسا کرنے سے پہلے ہمیں ایک بار اپنے منہ پر تھوک لینے دو۔ ان کی اِس جرأت پر اُن دونوں کو گولیوں سے اُڑا دیا گیا۔ منٹو اس افسانے سے یہ بتانا چاہتے تھے کہ آزادی اور حب الوطنی کا جذبہ طوائف میں بھی ہوتا ہے وہ بھی باقی لوگوں کی طرح انسان ہوتی ہیں۔ کیا الماس اور شمشاد اپنی جان دے کر لافانی ہو گئیں؟ کیا انہوں نے شہادت کا درجہ پایا؟؟؟ برصغیر کے معاشرتی ماحول کی تنگ نظری ان کو یہ مقام دینے سے ہچکچائے گی بلکہ ان پر لعنت بھیجے گی کہ انہوں نے بھائی کی شہادت بھی داغدار کر دی۔
’’۱۹۱۹ء کی ایک بات‘‘ اس کہانی میں منٹو نے عمل کی دو صورتیں پیش کر دی ہیں ایک انگریزی راج کے خلاف جدوجہد کو جذباتی حوالے سے پیش کیا ہے، دوسری وہ جسے منٹو نے حقیقی زندگی میں رونما ہوتے ہوئے دکھایا ہے۔ اس کہانی کا انجام دونوں صورتوں سے ممکن تھا، لیکن دوسرا انجام فنی طور پر زیادہ پُراثر ہے۔ زندگی سے یہ مفاہمت زندگی کی رو کو نیچے لے جانے اور اوپر اُٹھانے میں دونوں طرح صرف ہو سکتی ہے۔

موپساں بھی ایک کہانی Mademosicle Fifi میں ایک طوائف کی جانبازی بیان کرتے ہیں۔ فرانس فتح کرنے کے بعد نارمنڈی کے علاقے میں پوریشن (Prossian) فاتحین رنگ رلیاں منانے کے لیے لڑکیاں منگواتے ہیں، اس محفل میں ایک پوریشن افسر Fifi ایک طوائف سے اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’ہم فرانس کے مالک ہیں، فرانس کے کھیت کھلیان، زمین، مکان، جنگل سب ہمارے ہیں۔ سارے فرانس کی عورتیں ہماری ہیں۔‘‘ لڑکی Rachile اُس پر شراب کا گلاس پھینکتی ہے اور کہتی ہے ’’تم فرانس کی عورتوں کو کبھی نہیں پا سکتے۔‘‘ وہ افسر جواباً کہتا ہے ’’پھر تم کیوں یہاں آئی ہو۔‘‘ جس پر وہ جواب دیتی ہے کہ ’’میں عورت نہیں ہوں طوائف ہوں اور ایک پوریشن صرف رنڈی کا ہی مستحق ہے۔‘‘

موپساں نے اُس لڑکی کے منہ سے جو کہلوایا ہے کہ میں عورت نہیں رنڈی ہوں۔ یہ انسانیت کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ کیا فرانسRachile کو اعزاز کے قابل سمجھتا ہے؟ موپساں تواس کو ہیرو کا درجہ دیتے ہیں اور ایک فرانسیسی انقلاب تو اُس لڑکی کو اپنانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔

تاہم منٹو کی کہانی ’’۱۹۱۹ء کی ایک بات‘‘ بھی نقادوں کے سامنے اُسی طرح تجزیہ کی طالب ہے جس کے فوراً بعد جلیانوالہ باغ کی چنگاریاں بھڑک اُٹھتی ہیں۔ وہ جو اپنے محبوب راہنماؤں کی امرتسر بدری کے سلسلے میں انگریز حکام سے معاملہ چاہتے تھے لیکن جواب میں پُرامن لوگوں کے ساتھ جارحانہ رویہ اپنایا گیا اور اُن پر گولی چلا دی گئی تھی جس کے باعث شہر بھر میں ہنگاموں نے شدت اختیار کر لی۔ کشیدگی میں جب قریبی ہسپتالوں سے زخمیوں کو لانے کے لیے سٹریچر جائے حادثہ کی طرف بھیجے گئے تو حکام نے بے حد سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زخمیوں کو وہاں سے ہٹانے کا کام روک دیا۔ اس کے بعد تو لوگوں کا اشتعال اس حد تک بڑھا کہ اُس نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب ہجوم پُرامن نہیں رہا تھا۔ اُس نے سرکاری عمارتوں، بینکوں جس میں الائنس اور نیشنل بینک، ٹاؤن ہال، مرکزی ڈاک خانہ، مشن ہال اور بھاگٹاں والا ریلوے اسٹیشن کو آگ لگا دی۔ نیشنل بینک کے گوداموں کو جلا دیا۔ دکانوں بازاروں میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو گیا۔ قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہا۔ اس دوران تار اور ٹیلی فون کا نظام بھی منقطع ہو گیا اور یورپی خاندانوں کو مجبوراً قلعہ اور دیگر محفوظ مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ آگ امرتسر کے دیہات میں بھی پھیل گئی ۔ ان ہنگاموں میں بیس ہندوستانی گولیوں سے ہلاک کر دیے گئے اور بے شمار زخمی ہوئے۔ جب پہلے فائر کھولا گیا تو ابتدا میں ہجوم نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ گولی چلنا بند ہو جائے گی مگر ایسا نہ ہوا بلکہ بھاگتے ہوئے لوگوں پر گولی چلانے کا سلسلہ جاری رہا۔ بہت سے افراد کو پیٹھ پر گولیاں لگیں اکثر مرنے والوں کے جسم پر کمر کے پیچھے گولیوں کے نشان ملے۔
اس کشت و خون میں چھ گورے بھی ہلاک ہوئے۔

دربار صاحب کے بڑے دروازے کے سامنے دو سفید فام کیمرے سے تصویر کشی کررہے تھے کہ گلی کے موڑ سے دو آدمی ان پر حملہ آور ہوئے۔ دونوںآدمیوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ ایک کی پیٹ میں اُتر گئی اور دوسرے کی تلوار اُس کے ساتھی کی پسلیوں میں اٹک گئی۔ دونوں گرتے ہی ختم ہو گئے۔ ایک بازار میں دو فرنگیوں کی لاشیں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پڑی تھیں۔ ان کے سنہری بال خون اور گرد کی وجہ سے بدرنگ ہو رہے تھے۔ پوشیدہ اور خاموش آگ جو سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں دوڑتے ہوئے شہریوں کے درمیان لپک رہی تھی جو جسموں کے بجائے دلوں اور آنکھوں میں لگی تھی۔ ایک خوفناک غصہ ہر سو لہرایا تھا۔ جو اس شہر کے ہر نفس ہر جان دار اور ہر شے میں سانس لے رہا تھا۔ شریف پورہ چوک میں ایک انگریز جو جاں کنی کی حالت میں تھا ایک نوک دار اور پتلی سی چھری اُس کی گردن کے آرپار ہو چکی تھی اور وہ موت کے انتظار میں سسک رہا تھا۔ بالآخرمر گیا۔

ہال بازار کو سبزی منڈی سے ملانے والی گلی میں سے ایک گوری عورت خوف زدگی میں دوڑ رہی تھی کہ اُس کے پیچھے ایک شکاری گروہ تعاقب کر رہا تھا۔ گلی کے وسط میں انہوں نے عورت کو آلیا اور پلید نظروں سے گھور رہے تھے اور اُس بے چاری کی خوف زدہ ہرنی کی سی کیفیت تھی۔ خوف سے چاروں طرف ایڑیوں پر گھومتی رہی ۔ چہرہ سفید مچھلی کی طرح بے جان تھا۔ اُس نے چیخوں ماریں، گروہ اُس پر پل پڑا۔ وہ آدمیوں کے نیچے غائب ہو گی۔ اس کی چیخیں مسلسل آرہی تھیں مگر وہ سخت جان جیسے ربڑ کی عورت تھی۔ ایک جانب سے اُچھل کر اُن کے بیچ سے نکلی اور ایک سمت بھاگ کھڑی ہوئی نیم برہنہ تھی۔

اس کے کپڑے تار تار تھے۔ سر کے بال بکھرے کھڑے تھے اور وہ ٹانگیں پھیلا کر پوری رفتار سے بھاگی تھی۔ دندناتا شکاری گروہ بھی پیچھے بھاگا، بالآخر اُسے جالیا اور پھر ہلاک کر دیا۔ یہ ایک مشنری سکول کی مس شیروڈ نامی عورت تھی جسے قتل کر کے گلی میں پھینک دیا گیا۔ سڑکوں پر اور بازاروں میں فوجی گاڑیاں اور گورے سپاہی گشت کرنے لگے۔ لاہورگورنر اڈوائر کو حکام کی طرف سے شہر کی صورتِ حال کے متعلق ٹیلی فون ہو چکے تھے۔ امرتسر کے ڈپٹی کمشنر ارونگ شہر کو فوج کی تحویل میں دے چکا تھا۔ گورنر نے لاہور کے ڈپٹی کمشنر اے جے ڈبلیو کچن کو بھی فوراً امرتسر روانہ کر دیا تھا۔ جنرل ڈائر فوج کی سربراہی کر رہا تھا۔ حکومت کی مشینری حرکت میں تھی۔ شہر کے باشندے جو چپے چپے پر بکھرے ہوئے تھے۔ اب گلیوں، کونوں اورمحلوں کے اندر گروہوں میں اکٹھے ہو رہے تھے۔ ایک ہجوم گلی سے ہال بازار میں داخل ہونے کو بڑھا۔ وہاں بہت سے مسلح گورے سپاہی کھڑے تھے۔ انہوں نے شستیں باندھ لیں اور اِدھر اُدھر پھیل کر میدانِ جنگ کا مورچہ لگا لیا۔ ہجوم ڈر کر رک گیا۔ اسی اثناء میں مخالف سمت سے بازار میں اچانک ہندوستانی لاٹھی بردار پولیس کا ایک دستہ برآمد ہوا جس نے مجمع پر لاٹھیاں برسانی شروع کر دیں جو کسی کو لگیں اور کسی کو نہ لگیں۔ لیکن اس سے یہ ہوا کہ لوگ بازار میں داخل نہ ہو سکے اسی طرح دوسرے مقامات پر بھی گولیوں اور لاٹھیوں کی مدد سے انتظامیہ نے بے ہنگم اور بے مہار لوگوں کو روکا۔ اس پر ڈپٹی کمشنر لاہور اے جے کچن نے گورنر اوڈوائر کو کنٹرول کی مکمل رپورٹ پیش کی۔

مجاہد آزادی ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو سازش کیس بنا کر ملوث کر دیا گیا تھا۔ چونکہ ڈاکٹر سیف الدین کچلو منٹوؤں کے قریبی عزیز بھی تھے۔لہٰذا سعادت حسن منٹو کے دونوں بڑے بھائی خواجہ محمد حسن اور خواجہ سعید حسن جنہوں نے برطانیہ سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ اُن ہنگامی حالات میں امرتسر سے لاہور آئے اور دونوں بھائیوں نے اس مقدمے کی پیروی شروع کر دی۔

(جاری ہے)