مت قتل کرو آوازوں کو

aik Rozan writer
معصوم رضوی، صاحبِ مضمون
(معصوم رضوی)
 
سمندر کے کنارے ادبی محفل، ڈھیر ساری البیلی کتابیں، سوچتی آنکھیں، کھوجتے ذھن ایک جگہ جمع ہوں تو کس کا دل نہ چاہے گا کہ وہیں ڈیرہ ڈال دے۔ آرٹس کونسل کا ادبی میلہ، ایکسپو کتب میلہ، عالمی مشاعرہ اور کراچی لٹریچر فیسٹول شہر قائد کی روایت بن چکے ہیں۔ برق رفتار، مصروف اور یکسانیت زدہ زندگی سے کچھ لمحات چرا کر اپنے ساتھ بھی گزارنے کا ایک حسین موقعہ، کراچی لٹریچر فیسٹول میں نوجوانوں کے جگمگاتے چہرے دیکھ کر ڈھارس بھی بندھی کہ نئی نسل کا کتاب سے رشتہ مضبوط ہو رہا ہے۔
 
خواہش تو بہت کہ فیسٹول میں بھرپور شرکت کی جائے مگر جھمیلوں میں پھنسا رہا، بہرحال شہاب اور ناصرہ زبیری کو انکار کرنا ممکن نہ تھا۔ ناصرہ زبیری کی کتاب’’ تیسرا قدم  ‘‘ کی تقریب رونمائی میں بھاگم دوڑ شرکت کی، لطف آ گیا، بہرحال اس خوبصورت تقریب کے بہانے لٹریچر فیسٹول میں شرکت بھی کر لی۔ ناصرہ زبیری صحافت میں میری سینئر ہیں ان سے بہت کچھ سیکھا، ساتھ ہی خوبصورت شاعرہ، اس سے پہلے دو مجموعہ کلام اور اب تیسرا قدم، انکی شاعری میں صحافت کی گہری جھلک اور ادراک موجود ہے۔ ناصرہ زبیری کی شاعری میں کچھ ایسا ہے جو آپکو گرفت میں لے لیتا ہے، تخیل کی جہت، لفظوں کو برتنے کا سلیقہ، غنائیت اور سادہ زبان کی پرکاری، تیسرا قدم کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں
منزل تمام عمر میرے سامنے رہی
اک راستے نے مجھ کو گزرنے نہیں دیا
یہ ہمیشہ سے نہیں تھی یہاں بارود کی بو
گل ہوا کرتے تھے، گلدان ہوا کرتے تھے
یونان کی سیفو ہو یا امریکی ایملی ڈکسن، ہندوستان کی سروجنی نائیڈو ہوں یا امرتا پریتم، پاکستانی پروین شاکر یا سارہ شگفتہ، اپنی جہالت کا اعتراف ہے مگر یہ سمجھ نہیں آتا کہ شاعری کو مردانہ اور زنانہ خانوں میں کیسے بانٹا جا سکتا ہے۔ بالفرض محال ایسا ہے بھی تو موسیقی، پینٹنگ، مجسمہ سازی اور دیگر تحلیقی رویوں کو ان خانوں میں کیوں نہیں بانٹا جاتا۔ المتنبی، ایزرا پائونڈ، خلیل جبران اور جون ایلیا کی شاعری کو مردانہ کیوں نہیں کہا جاتا۔ معاف فرمائیے گا ناصرہ زبیری میں آپ کی شاعری کو نسائیت کی آواز جیسے القاب سے نہیں نواز سکتا۔ غزل ہو یا نظم، آمد ہو یا آورد، شاعری تو بس شاعری ہوتی ہے۔ کیا خوب کہا ہے ایملی ڈکسن نے If I feel physically as if the top of my head taken off,  I know that’s poetry،حضور شاعری کی نہیں جاتی بس ہو جاتی ہے۔
 
ادب اور کتابوں کا تذکرہ ہو رہا ہے تو عزیر دوست، صحافی اور طرحدار شاعر خالد معین کی نئی کتاب ِ’’اب سب دیکھیں گے ‘‘  کا تذکرہ کیسے نہ کیا جائے۔ شعر و سخن کے دشت کی سیاحی کے بعد اب نثر سمندر سے گہر نکال رہے ہیں۔ ماشااللہ ابتک چار شعری مجموعے تحلیق کر چکے ہیں اور ابھی کچھ پہلے’’ رفاقتیں کیا کیا  ‘‘ جیسی کتاب سامنے لائے جس کو آپ بیتی جانیں یا خاکہ نگاری، 80 اور 90 کی دہائی میں شہر قائد کی ادبی و سماجی دنیا، اس منظر نامے کو بڑی سادگی اور خوبصورتی کیساتھ قلمبند کیا گیا ہے، گویا اس پورے عہد کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔ تازہ کتاب اب سب دیکھیں گے، درحقیقت تھیٹر کا ایک تجربہ تھا جو خالد بھائی اور ساتھیوں نے ٹیلیویژن کیلئے کیا۔ قدیم یونان میں جنم لینے والا تھیٹر رومی، چینی، یورپی اور قدیم ہندوستانی تہذیب کا حصہ رہا۔ ہندوستان میں اسے منڈلی، نوٹنکی یا ناٹک کے نام سے جانا گیا۔ کالی داس کا شکنتلا، آغا امانت کا اندر سبھا، آغا حشر کا رستم و سہراب، پھرعبدالحلیم شرر، مرزا قلیچ بیگ، رابندر ناتھ ٹیگور، مولانا ظفر علی خان، سعادت منٹو، رفیع پیر، خواجہ معین الدین اور امتیاز علی تاج سے لیکر آج تک بیشمار ادیبوں نے اس روایت کو مضبوط کیا اسکے باوجود یہ حقیقت ہے کہ تھیٹر پاکستان میں ایک دم توڑتی ہوئی روایت ہے۔ معاف کیجیئے گا تھیڑسے مراد ہے سنجیدہ تھیٹر، پیرزادہ برادران، راحت کاظمی، مدیحہ گوھر اور دیگر چند شخصیات یا ناپا، آرٹس کونسل اور چند اداروں نے تھیٹر کو زندہ رکھنے کی کوشش ضرور کی مگر پاکستان میں یہ روایت جانکنی سے دوچار ہے۔ ایسے میں خالد معین کی جانب سے اسٹریٹ تھیڑ پر یہ کاوش ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ خالد معین کو بحثیت ڈرامہ نگار پڑھ کر خوشی ہوئی، سماج پر گہرا طنر اپنے اندر سموئے کتاب میں پانچ کھیل شامل کیے گئے ہیں۔ مجھے تو ہر کھیل میں فرسودہ نظام سے بغاوت کی جھلک نمایاں نظر آئی۔ خالد بھائی کھوئے کھوئے رہتے ہیں، نفیس شخصیت نہایت کم گو مگر یہ کمی قلم کی ذریعے پوری کر دیتے ہیں، سال بھر میں دو بہترین کتابیں منظر عام پر لے آنا خود ایک بڑا کارنامہ ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے خالد معین کا ایک خوبصورت شعر
محبت کی تو کوئی حد، کوئی سرحد نہیں ہوتی
ہمارے درمیاں یہ فاصلے کیسے نکل آئے
یہ شعر یوں یاد آیا کہ ویلنٹائن سے کچھ دن پہلے مسعود رضا کی شادی کی تقریب بہت سے بھولے بسرے دوستوں سے ملاقات کا باعث بن گئی۔ ماشااللہ صحافیوں کی ایک کہکشاں تھی، ٹی وی جرنلزم سے تعلق رکھنے والے ہر مکتبہ فکر کی بھر پور نمائندگی، لاہور اور اسلام آباد سے بھی صحافی دوستوں کی شرکت، بہت عرصے بعد دیرینہ دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ زندگی کا پہیہ کچھ اس طرح گھومتا ہے کہ ایک شہر میں رہتے ہوئے بھی ملاقات نہیں ہو پاتی دوستوں سے، ماشااللہ مسعود رضا ملنسار، خوش اطوار، خوش گفتار ہونے کے ناطے کثیر الاحباب ہیں سو اس بہانے اتنے سارے مشہور و معروف صحافیوں کو ایک جگہ جمع کر لیا۔ مسعود رضا میرے لیئے تو چھوٹے بھائیوں کیطرح ہیں، اچھے شاعر، صحافی، ادب سے گہرا لگائو اور بہترین ٹی وی شوز کے میزبان، زندگی کے اس نئے سفر میں بھی خدا انہیں کامیاب و کامران کرے۔
دہشتگردی، سیاسی لوٹ کھسوٹ، سنسنی خیز خبروں اور نفسا نفسی کے اس دور میں یہ ادبی اور سماجی محافل جانے انجانے معاشرے میں کتنا اہم کردار ادا کر رہی ہیں شاید ہمیں اسکا احساس نہیں۔ ادب سماج کی تصویر، غیر مرئی سچ، تلخ حقائق کا عکاس اور معاشرے میں تعمیر کی علامت ہے۔ افسوس کے ماضی کی تابناک روایات کے باوجود ہمارے پاس ادبی، لسانی، تخلیقی اور ثقافتی مربوط حکمت عملی موجود نہیں، نہ ہی بننے دی گئی۔ ایسے میں یہ ادبی تقریبات و روایات دہشتگردی، تعصب اور کمرشل ازم کے خلاف بڑا سہارا ہیں۔ ادیب، شاعر اور تخلیق کار آواز ہوتا ہےمعاشرے کی، آمریت اور ظلم کے خلاف، محروم اور پسماندہ طبقات کی، ایک کرن امید کی ظلمتوں کے اندھیرے میں، کیا خوب کہا ہے فراز صاحب نے
جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی
جب شعر سفر کر جائے گا
جب قتل ہوا سر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پر سنگ اٹھائو گے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جائو گے