لفظ بنانے کے لیے کوئی کارخانے یا فیکٹریاں نہیں ہوتیں

Language and Human History

(صبا بتول رندھاوا)

گفتگو انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہے۔ الفاظ میں انسان کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ گفتگو انسان کے احساسات و جذبات کا زبان سے اظہار کرنے کا نام ہے۔ بہترین الفاظ کا چناو ہی انسان کو عزت و وقار کے بلند مرتبے پر بٹھا دیتا ہے اور نامناسب لفظ انسان کو بلند ایوان میں بھی کم تر اور کم حیثیت بنا دیتے ہیں۔ الفاظ کی اہمیت کے حوالے سے ڈاکٹر محمد ارشد اویسی اپنی کتاب ”غیر پارلیمانی الفاظ” میں لکھتے ہیں:
”الفاظ و محاورات بھی لباس کی طرح انسان کی شخصیت کے عکاس ہوتے ہیں… انسانی کردار کی مانند الفاظ و محاورات بھی عظمت، تمکنت اور وقار کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کا بے جا اور نا مناسب استعمال ان کے کردار کو ماند بھی کر سکتا ہے”۔
انسان کے بہترین کردار کے لیے جہاں اس کی ظاہری شخصیت کو اہمیت حاصل ہوتی ہے وہیں اُس کے الفاظ بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ایک پُر وجیہہ انسان غیر معیاری گفتگو کر رہا ہو تو اُس کی تمام شخصیت ماند پڑ جاتی ہے اور لوگ اُس سے کنارا کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو رہتی دنیا تک کے لیے تاریخ کے اوراق میں اَمر ہو جاتے ہیں۔ وہ کسی کے اچھے الفاظ بھی ہو سکتے ہیں اور بُرے بھی جیسے ٹیپو سلطان کا یہ جملہ آج بھی اُس کی وجاہت کی عکاسی کرتا ہے:
”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے”۔
ہر انسان اپنی گفتگو اور تحریر میں اپنے مافی الضمیر میں موجود خیالات کو الفاظ کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ ہر انسان کے پاس اچھے برے تمام الفاظ کا ذخیرہ ہوتاہے لیکن اُن کا مناسب استعمال اسے عقل مندی کے درجوں پر پہنچاتاہے۔ کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے ادا ہونے والا لفظ کبھی واپس نہیں ہو سکتے۔ الفاظ کے چنائو کے حوالے سے ڈاکٹر محمد ارشد اویسی ہی کی کتاب ”غیر پارلیمانی الفاظ” کے دیباچے میں لکھا ہے کہ:
”ضروری ہے کہ الفاظ کے استعمال میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو یہی الفاظ نہ صرف اپنا بلکہ آپ کا اعتبار بھی گنوا دیں گے اور آپ کی شخصیت کا ایسا تاثر قائم ہو جائے گا کہ آپ کے لیے تبدیل کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا”۔
الفاظ کے بغیر گفتگو کرناناممکن ہے ۔ لفظ کی حرمت اسی میں ہے کہ اُسے صحیح جگہ پر صحیح معنوں میں استعمال کیا جائے جس طرح ایک رنگ ساز سوچ بچار کے بعد اپنی تصویروں کو رنگ دیتا ہے اسی طرح ایک مصنف کو اپنی تحریروں اور ایک مقرر کو اپنی تقریر میں سوچ سمجھ کر لفظوں کا چنائو کرنا چاہیے۔ الفاظ کے چنائو کے حوالے سے زمانہ قدیم کے مشہور نقاد Longinusاپنی تصنیف “On the sublime”میں لکھتے ہیں۔
”آپ کے خیالات اور تصورات کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں جب تک آپ کے پاس صحیح اور موزوں الفاظ نہ ہوں توآپ تحریر کو رفعت عطا نہیں کر سکتے”۔
الفاظ کی بدولت ہم نہ صرف اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے ہم پوری تاریخ اور معاشرے کے حالات و واقعات کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں۔ الفاظ صرف بے جان لفظ نہیں ہوتے۔ ان کے اندر پوری روح اور زندگی موجود ہوتی ہے۔ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ خالد محمود ملک لکھتے ہیں:
”طرزِ بیاں خواہ تقریر کی صورت میں ہو یا تحریر کی، الفاظ کا محتاج ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ الفاظ شخصیت کا ہی نہیں بلکہ حالات اور روایات کے بھی آئینہ دار ہوتے ہیں”۔
اسی طرح الفاظ ہی کسی انسان کی زندگی بنا دیتے ہیں اور الفاظ ہی کسی انسان کی زندگی برباد کر دیتے ہیں۔ برے الفاظ بیان کرنے والے کی شخصیت تو خراب ہوتی ہی ہے لیکن اکثر اوقات دوسروں کے لیے برے الفاظ کے چنائو کسی دوسرے کی زندگی خراب کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ لفظ اور انسان کے تعلق کے حوالے سے چودھری پرویز الٰہی کہتے ہیں:
”آدمی کو اشرف المخلوقات بنانے میں لفظ کا کردار اگرچہ عالمی تاریخ میں تسلیم شدہ حقیقت ہے لیکن الفاط کی معنوی حوالے سے درجہ بندی کے بغیر ان کے استعمال کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے”۔
لفظ کسی کے اشتعال کو بڑھانے اور بعض اوقات غصہ کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لفظ ہی کسی غمگین کے دل پر مرہم رکھتے ہیں اور لفظ ہی کسی کے دل پر زخم لگاتے ہیں۔ لفظ ہی انسان کو تمام حدیں پار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ لفظ کی اہمیت کے حوالے سے میجر (ر) پیرزادہ محمد ابراہیم شاہ لکھتے ہیں:
”لفظ ہماری زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ لفظوں کے بغیر انسانی فکر کا اظہار ممکن نہیں”۔
لفظوں کا احترام کرنے کی صلاحیت بھی ہر انسان کے اندر نہیں ہوتی۔ بعض لفظ صرف تاریخ نہیں بلکہ انسانی تقدیروں کے ساتھ ساتھ پوری قوموں کو بدل کر رکھ دیتے ہیں لفظوں کا ذخیرہ ہمیں لغات میں ملتا ہے۔ ہر شعبے اور ہر موقع کی مناسبت سے الفاظ وجود میں آتے ہیں۔ لفظ اپنے اندر بہت طاقت رکھتے ہیں۔ سعید احمد خاں منہیس لکھتے ہیں:
”بعض لفظوں میں انسان کے خون جگر کے چھینٹے ہوتے ہیں وہ الفاظ ہمارے جذبات کی سرحدوں میں بے اختیار اُترتے چلے جاتے ہیں، نئی تحریک، نئے نظام، نئے الفاظ لاتے ہیں۔ نئے الفاظ سماجی تبدیلیوں، نفسیاتی کشمکش اور معاشی ردوبدل سے بھی پیدا ہوتے ہیں”۔
لفظ بنانے کے لیے کوئی کارخانے یا فیکٹریاں نہیں ہوتیں اور نہ ہی سوچ بچار کے بعد لفظ بنائے جاتے ہیں۔ یہ الفاظ معاشرے اور لوگوں کے رہن سہن اور بات چیت سے وجود میں آتے ہیں۔ ہر زبان کے اپنے الفاظ ہوتے ہیں۔ زبان کے لحاظ سے لفظ مختلف ہوتے ہیں لیکن ان کا مفہوم ایک سا ہوتا ہے۔ مذاہب، تحریکیں، حالات و واقعات، حکومتیں، عدالتیں، طب، سائنس، فن، مزاح غرض کہ ہر شعبہ اپنا الگ ذخیرہ الفاظ رکھتا ہے۔ الفاظ کی قدروقیمت انسانی شخصیت کے برابر ہے۔ انسانی شخصیت کو اُس کے ذخیرۂ الفاظ میں تو لا جاسکتا ہے الفاظ کا دارومدار لہجوں پر بھی مشتمل ہوتاہے۔ اکثر الفاظ اپنے لہجے کی بنا پر مفہوم ادا کرتے ہیں۔ عام سے لفظ کو بھی اگر سخت لہجے اور غلط موقع پر ادا کیا جائے تو وہ لفظ اپنے مفہوم و معنی بدل لیتاہے۔ لفظوں سے لگے زخموں کا کوئی مرہم نہیں ہے۔ جھوٹ اور سچ کو بھی لفظوں کے روپ میں دھار کر بیان کیا جاتا ہے۔ لفظ بذات خود بہت معصوم ہوتے ہیں لیکن بیان کرنے والے کا انداز انھیں خطرناک بنا دیتا ہے۔
الفاظ کے بغیر ہم نہ کچھ سوچ سکتے ہیں نہ کچھ لکھ سکتے ہیں۔ اور نہ اظہار کر سکتے ہیں۔ لفظوں کا احترام ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ لفظ ہی انسانی ضمیر کا لباس ہوتے ہیں۔ لفظ ہی انسانی کے اندر کے حُسن کو ظاہر کرتے ہیں۔
٭٭٭٭