لا کوئی سیلابِ اشک، آبِ وضو!

پروفیسر فتح محمد ملک

لا کوئی سیلابِ اشک ، آبِ وضو!

از، پروفیسر فتح محمد ملک

صدیوں سے ہماری عوامی عقل کا تقاضا یہ چلا آتا ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔اس کے برعکس افغانستان پر قابض نیٹو ہائی کمان کی حکمتِ عملی یہ معلوم ہوتی ہے کہ سانپ مرے نہ مرے ، لاٹھی ضرور ٹوٹ جائے۔ یہاں سانپ سے مراد دہشت گردی ہے اور لاٹھی سے مراد پاکستان۔ جب میں افغانستان سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں تباہی سے متعلق کوئی نئی خبر پڑھتا ہوں تو مجھے سقوطِ ڈھاکہ کے آس پاس کی کوئی پرانی خبر یاد آ جاتی ہے اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ جنرل یحییٰ خاں کا ایوانِ اقتدار جس کارروائی کو تعمیر قرار دیتا تھا تاریخ نے اُسی کارروائی کو تخریب ثابت کر دکھایا تھا۔ مشرقی پاکستان میں جس فوجی کارروائی کے آغاز پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ بحمد اللہ پاکستان بچا لیا گیا ہے وقت نے ثابت کر دکھایا کہ اُسی کارروائی نے پاکستان کو توڑ ڈالا تھا۔ شاعر روتا رہا مگر شاعر کے فکر و تخیل سے اکتسابِ نور کرنے کی صلاحیت سے عاری حکمران شاعر کی اس نالہ زنی کو بھی منجملۂ اسبابِ تخریب کاری قرار دیتا رہا۔ نتیجہ ہماری تاریخ کی سب سے بڑی ذِلّت کی صورت میں برآمد ہوا۔ جس وقت ایوانِ صدارت میں مشرقی پاکستان کی عوامی اُمنگوں کا رُخ سنگینوں کے زور پر بدلنے کے مشورے ہو رہے تھے عین اُس وقت فیض احمدفیض نے مشرقی پاکستان کے رنج و الم کو اپنے دل میں جذب کر کے خبردار کیا تھاکہ خدا را فوجی کارروائی سے باز آ جاؤ:
حذر کرو مرے تن سے یہ سَم کا دریا ہے
حذر کرو کہ مرا دل لہُو کا پیاسا ہے
شاعر نے اپنی ذات کو قومی خواب و خیال اور عوامی رنج و غم کا استعارہ بنا کرنئے خیالات کو پُرانے ٹینکوں سے کچلنے کی خوفناک حکمتِ عملی کے بھیانک نتائج سے بروقت خبردار کیا تھا:
مرے نزار بدن میں لہُو ہی کتنا ہے
چراغ ہو کوئی روشن نہ کوئی جام بھرے
نہ اس سے، آگ ہی بھڑکے نہ اس سے پیاس بُجھے
مرے فگار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
مگر وہ زہر ہلاہل بھرا ہے نس نس میں
جسے بھی چھیدو، ہر اِک بوند قہر افعی ہے
ہر اک کشید ہے، صدیوں کے درد و حسرت کی
ہر اک میں مہر بہ لب غیض و غم کی گرمی ہے
حذر کرو مرے تن سے یہ سَم کا دریا ہے
مگر افسوس کہ حکمرانوں نے شاعر کے انتباہ پر کان دھرنے کی بجائے فوجی کارروائی کو قومی سلامتی کا راز جانا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کی نس نس میں بھرے ہوئے زہرِ ہلاہل کا دریا بہہ نکلا، لہو کے پیاسے دل میں کروٹیں لیتی ہوئی غیض و غم کی گرمی آگ کا سیلاب بن کر نمودار ہوئی اور فوجی کارروائی پاکستان کی سا لمیت کو قائم رکھنے کی بجائے پاکستان کو دو لخت کر دینے کا عمل ثابت ہوئی۔فیض احمد فیض نے آٹھ اپریل ۱۹۷۱ء کو وجود میں آنے والی ایک اور نظم میں مشرقی پاکستان کے ہنگامی اور وقتی بحران سے برآمد ہونے والی ابدی سچائیوں کو پیش کیا ہے۔ شاعر کا کہنا ہے کہ جب دِل کی تہ در تہ کدورت ہمارے حکمرانوں کی آنکھوں میں اُمڈ آئی تو چارہ گر نے انہیں اپنی آنکھیں لہُو سے دھو لینے کا مشورہ دیا۔چنانچہ جب انہوں نے چارہ گر کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنی آنکھوں کو لہُو سے دھو کر گرد و پیش پر نظر دوڑائی تو انہیں صبح شام اور مہتاب و آفتاب کے سے مظاہر جمال سمیت کائنات کی ہر چیز لہُو لہُو نظر آئی۔ چنانچہ نفرت کے غبار کو محبت کے آبِ شفا سے دھونے کی بجائے ہمارے حکمران اپنی آنکھوں میں لہُو کے مزید چھینٹے مارنے کو چارہ گری کا کمال سمجھنے لگے۔ تعمیر کے نام پر تخریب میں مصروف اِن نادان چارہ گروں سے گہری انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاعر انہیں راہِ راست پر گامزن ہونے کا مشورہ دیتا ہے:
چارہ گر، ایسا نہ ہونے دے
کہیں سے لا کوئی سیلابِ اشک
آبِ وضو
جس میں دُھل جائیں تو شاید دُھل سکے
میری آنکھوں ، میری گرد آلُود آنکھوں کا لہُو!
گویا شاعر کی بصیرت ہم پردل سے اُٹھ کر آنکھوں میں آ بیٹھنے والی لہُو رنگ کدورت سے نجات کی راہ روشن کردیتی ہے۔ یہ راہ دلسوزی ، دلداری اور دردمندی کی راہ ہے۔اِس راہ پر قدم دھرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ آنکھوں میں اُترے ہوئے لہُو کا علاج ڈھونڈا جائے۔شاعر کے فکر و تخیل کی رُو سے یہ علاج آنکھوں کو آنسوؤں کے سیلاب میں وضو دینے کے عمل میں پنہاں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے شاعر کی اِس نوائے عاشقانہ کو سُنا اَن سُنا کر دیا۔ مہرومروت کی بجائے جبر و تشدد کو اپنے اقتدار کا سرچشمہ جانا ۔ نتیجہ یہ کہ جبر و تشدد کی وہ یحییٰ خانی حکمتِ عملی اقتدار کو بھی لے ڈوبی اور متحدہ پاکستان کی منزلِ مقصود بھی سراب بن کر رہ گئی۔
آج جب میں پاکستان کے شمال مغربی خطے میں دہشت گردی کی کوئی خبر پڑھتا ہوں تو مجھے پاکستان کے مستقبل کی فکر لاحق ہونے لگتی ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ نائن الیون سے پہلے افغانستان سمیت اِس پورے خطے میں مکمل امن و امان تھا ۔ نائن الیون کے فوراً بعد ہنری کسنجر نے لکھا کہ اگر اِس سانحہ میں افغانستان کی طالبان حکومت ملوث نہیں ہے توبھی امریکہ کو چاہیے کہ فی الفور افغانستان پر حملہ کر دے۔ امریکہ نے ایسا ہی کیا اور امریکہ کے دباؤ میں آ کر ہماری قیادت نے بھی فی الفور امریکہ کی اِس نئی جنگ میں کرائے کے سپاہی کا کردار سرانجام دینا شروع کر دیا۔ پرامن افغانستان پر غاصبانہ قبضہ کرتے ہی نیٹو افواج نے پورے خطے میں دہشت گردی کا آغاز کر دیا۔ دہشت گردی سے دہشت گردی ہی جنم لیتی ہے۔ایک فریق کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ وہ دُنیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے جنگ آزما ہے تو دوسرے فریق کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیائے اسلام کو امریکی دہشت گردی سے نجات دلانے کے لیے مصروفِ جہاد ہے۔چنانچہ آج پورا خطہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔
پاکستان کی سیاسی قوتوں نے اپنی آنکھوں سے کدورت کی گرد دھو ڈالی ہے ۔اِن سیاسی قوتوں نے گویا اپنی آنکھوں کو آنسوؤں میں بار بار نہلا کر جب منظر پر نظر ڈالی تو اُنہیں اپنے ناراض بھائیوں سے عاشقانہ سلوک کرنے کا خیال آیا۔ اِس خیال نے نیٹو دہشت گردوں کی نیندیں حرام کر ڈالیں اور وہ غیض و غضب میں مبتلا ہو کرپاکستان کی سا لمیت اور خودمختاری پر دیوانہ وار حملے کرنے لگے۔ اِن حملوں نے ہمارے ہاں اِس سوال کو جنم دیا ہے کہ نیٹو افواج ہماری دوست ہیں یا دشمن؟ یہی سوال اِن لفظوں میں بھی اُٹھایا جا سکتا ہے : ہم اپنے دوست ہیں یا دشمن؟ اِس سوال پر غور و فکر کرتے وقت ہمیں اِس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ امریکہ کی سپاہِ دانش گذشتہ چند برس سے شمال مغربی پاکستان کی ٹوٹ پھوٹ اور اِس خطے میں ایک سے زیادہ نئے ممالک کے قیام کے آثار دیکھنے میں مصروف ہے۔ اگر ہمیں پاکستان کی بقا عزیز ہے تو ہمیں تعمیر کے نام پر تخریب کی یحییٰ خانی حکمتِ عملی سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ اپنے بھائیوں سے جنگ کرنے کی بجائے اُنہیں اپنے دل و جگر کا ٹکڑا سمجھنا ہوگا اور سو باتوں کی ایک بات یہ کہ امریکہ کی غلامی ترک کر کے امریکہ کے ساتھ معمول کے دو طرفہ تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔ معمول کے اِن تعلقات کے قیام کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہم نیٹو دہشت گردوں سے اپنا اتحاد ختم کرنے کا اعلان کر ڈالیں:
اُٹھ باندھ کمر، کیوں ڈرتا ہے؟
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے؟