قائد اعظم کی رحلت کے بعد غیرمسلموں کا پاکستان

غیر مسلموں کا پاکستان

 

(ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی ، ممبر قومی اسمبلی (پاکستان مسلم لیگ ن)، سرپرستِ اعلیٰ پاکستان ہندو کونسل)

قیامِ پاکستان کے صرف ایک سال بعد بانیِ پاکستان قائداعظم اس دارِ فانی کو الوداع کہہ گئے اور پاکستان اپنی شناخت کے حوالے سے دو مخالف سمتوں میں بٹ گیا، دونوں اطراف نے پاکستان کو اپنی ڈھب پر لانے کیلئے قائداعظم کی تقاریر کا حوالہ دینا شروع کردیا، ایک طبقہ یہ کہتا تھا کہ قائداعظم ملک کو اسلامی مملکت بنانا چاہتے تھے جبکہ دوسری طرف کا کہنا تھا کہ بانیِ پاکستان نے مذہب کو انفرادی معاملہ قرار دیتے ہوئے ملک کو سیکولر انداز میں چلانے کی بات کی تھی۔ بلاشبہ حصولِ پاکستان کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں پربرداشت، رواداری اورجمہوری اصولوں پر مبنی ایک آزاد مملکت قائم کرنا تھااوربطور جمہوری ملک نظامِ حکومت کا فیصلہ کرنے کاحق بھی اکثریت کو حاصل ہے لیکن پاکستان میں سیکولر نظامِ حکومت یا پھر اسلامی نظام رائج کرنے کے بحث سے قطع نظرقائداعظم نوزائیدہ مملکت میں بسنے والے غیرمسلم شہریوں کے حوالے سے نہایت مثبت رائے رکھتے تھے۔ قائداعظم اور تحریکِ پاکستان کے ساتھی چاہتے تھے کہ پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت برقرار رکھتے ہوئے تمام شہریوں کو یکساں حقوق اور ترقی کے مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ تمام شہری پاکستان کو دنیا کے نقشے میں ایک عظیم مملکت بنانے کیلئے جت جائیں۔

جب1947 ؁ء میں برصغیر کو انتقالِ اقتدار کے موقع پرحکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں تو اس پر قائد اعظم نے جواب دیا تھا کہ وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں، یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے جب پیغمبر اسلام ﷺ غیرمسلموں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ انصاف اور فیاضی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔قائداعظم نے اپنے الفاظ کا پاس کرتے ہوئے کاروبار مملکت چلانے کیلئے صرف قابلیت کی بناء پر اپنی کابینہ میں سر ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ اورجوگندرناتھ منڈل کو وزارت قانون کی اہم ترین انتظامی ذمہ داریاں سونپ کر واضح کر دیا کہ حکومت پاکستان کی نظر میں تمام شہری بلا تفریق رنگ و نسل ، مذہب و عقیدہ مسلم اور غیر مسلم سب برابر ہیں،نہ کوئی اکثریت ہے اورنہ کوئی اقلّیت۔

میری اپنی ذاتی رائے میں بھی پاکستان میں بسنے والوں کو غیرمسلم شہریوں کو اقلیت کہنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اقلیت لفظ بذاتِ خود ایک تنگ نظری پر مبنی مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتا ہے۔قائداعظم نے گورنر جنرل منتخب ہونے کے بعد11اگست 1947 ؁ء کو اسٹیٹ پالیسی بیان کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا تھاکہ آپ کا تعلّق کسی بھی مذہب سے ہوسکتا ہے، کسی بھی نسل اور کسی بھی عقیدے کے ساتھ ہو سکتا ہے، یہ صرف اور صرف آپ کا ذاتی معاملہ ہے اور ریاستِ پاکستان کا ان معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے، پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے ہم سب برابر ہیں۔ تقریر کے اختتام سے قبل قائداعظم نے پاکستان میں قیام پذیر غیرمسلموں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ترک وطن نہ کریں اور پاکستان کو ہی اپنا وطن بنائیں کیونکہ اب تمام پاکستانی آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جانے کے لئے، اپنے کلیسا میں جانے کے لئے، اپنی مساجد میں جا نے کے لئے یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لئے۔ دوسری طرف پاکستان کو اسلامی ریاست دیکھنے کے خواہشمند عناصرکا موقف ہے کہ قائداعظم نے اپریل 1948 ؁ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔

میں انہیں یاد دلاتا چلوں کہ دنیا کی پہلی اسلامی ریاست پیغمبراسلام ﷺنے مدینہ منورہ میں قائم کرتے ہوئے غیرمسلموں کے ساتھ امن و شانتی کے معاہدے کیئے، دنیا بھر کے مفکرین اور ماہرین سیاسیات میثاق مدینہ کو دنیا کا سب سے پہلا تحریری آئین تسلیم کرتے ہیں جو مسلمان ریاست اورغیرمسلم شہریوں کے مابین پرامن بقائے باہمی کیلئے مشعلِ راہ ہے، میثاق مدینہ کے مطابق مقامی رسم و رواج کا احترام یقینی بناتے ہوئے غیرمسلموں کو مذہبی آزادی فراہم کی گئی، اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنا اور مظلوم کی ہرحال میں مدد کی یقین دہانی کروائی گئی، تمام شہریوں کوبِلا مذہبی تفریق متحد ہو کرظالم، سرکش اور فسادی کا ہاتھ روکنے کا پابند کیا گیا ، اسلامی ریاست مدینہ کے قانون پر عمل کرنے والے غیرمسلم شہریوں کی حفاظت ریاست کا فرض قرار دیکر تمام غیر مسلموں کو مسلمانوں کے مساوی حقوق فراہم کیے گئے، اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ میثاقِ مدینہ پر عمل پیرا تمام شہری ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتے ہوئے کڑے وقت میں مددکریں گے۔

قیامِ پاکستان کے وقت ملک کی تقریبا ایک چوتھائی آبادی (لگ بھگ 23فیصد) غیرمسلموں پر مشتمل تھی جو آج سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بتدریج کم ہوتے ہوئے 3فیصد تک رہ گئی ہے لیکن پاکستان ہندوکونسل سمیت دیگر غیرسرکاری اداروں کی رپورٹس کے مطابق غیرمسلموں کی موجودہ آبادی پانچ سے چھ فیصد پرمشتمل ہے،الیکشن کمیشن کی تازہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں بسنے والے غیرمسلم ووٹرزمیں ہندوؤں کی تعدادسب سے زیادہ پچاس فیصدپر مشتمل ہے، سرکاری اعداد و شمار میں غیرمسلم آباد ی کو کم ظاہر کرنے کا مقصد مختص کردہ کوٹے میں کمی لاکراستحصال کرناہے جس کیلئے بناء کسی مزید تاخیر کے مردم شماری کی اشد ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قائداعظم کے نظریئے سے انحراف کی بنیاد قیامِ پاکستان کے وقت ہی پڑ گئی تھی جب مذہب کے نام پر پرامن شہریوں پر حملے، قتل و غارت اور جائیدادوں پر قبضہ شروع کردیا گیاتھا، ایک طرف بھارت سے مسلمان مہاجرین کے لٹے پٹے قافلے آرہے تھے تو دوسری طرف پاکستانی سرزمین پر صدیوں سے بسنے والے پرامن ہندوؤں کا قتل عام جاری تھا،لیاقت نہرومعاہدے کے مطابق ہندو ؤں کی جائیدادکی دیکھ بھال کیلئے اوقاف بورڈ کا سربراہ پاکستان میں کسی غیرمسلم کو لگانا لازم ہے جس پر آج تک عملدرآمد نہ ہوسکا۔

غیرمسلموں کو پاکستان میں برداشت نہ کرنے میں تیزی قائداعظم کے دنیا سے چلے جانے کے بعدآ گئی جب پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے 1949 ؁ء میں ان شدت پسند عناصر کا دباؤ قبول کرتے ہوئے قراردادِ مقاصد منظور کرلی جو قیامِ پاکستان کے کٹر مخالف تھے، اس موقع پر مشرقی پاکستان کے ہندو سیاستدان بھوپندرکماردت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اس قرارداد کے نتیجے میں پاکستانی معاشرہ مذہبی تفریق کے باعث انتشار کا شکار ہوجائے گا ، غیرمسلم سیاستدانوں کے خدشات بہت جلد صحیح ثابت ہونا شروع ہوگئے جب مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے سیاسی تنقید کو مذہب مخالفت کا رنگ دے کر عوام کے جذبات مشتعل کرکے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا سلسلہ شروع کردیا۔

اگلے سال 1950 ؁ء میں احمدیوں کے خلاف پرتشدد ہنگامے پھوٹ پڑے اور انہیں دائرہ اسلام سے خارج کرنے کیلئے بھرپور تحریک چل پڑی ،قیامِ اسرائیل اور بعدازاں عرب اسرائیل جنگ نے پاکستانی یہودیوں پر پاک سرزمین تنگ کردی، 1965 ؁ء کی پاک بھارت جنگ کی وجہ سے پاکستانی ہندوؤں کی زندگی اجیرن ہونے لگی،مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بنیادی عوامل میں سماجی ناانصافی اورقومی انتخابات کے نتائج کا قبول نہ کرنا تھا لیکن اس سانحہ کا ذمہ دار وہاں کی مقامی ہندو آبادی کو ٹھہراکرباقی ماندہ پاکستان میں بسنے والے محب وطن ہندوؤں کی ملک و قوم سے وفاداری کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے گئے حالانکہ پاکستانی ہندوؤں کیلئے پاکستان دھرتی ماتا ہے جس سے وفاداری اور حب الوطنی دھرم کا حصہ ہے ،سانحہ مشرقی پاکستان کے بعدکی سیاسی قیادت نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا جو آئین بنایا اس میں غیرمسلموں کومساوی حقوق دینے کی تو بات کی گئی لیکن آج متعدد ایسی دفعات موجود ہیں جس پر غیرمسلم کمیونٹی کو تحفظات ہیں جیسا کہ معاشرے کیلئے ناسور تمام برائیوں کی جڑ شراب کے گھناؤنے کاروبار کو غیرمسلموں کے نام سے جاری رکھنے کی اجازت دینا،بعد ازاں ہفتہ وار تعطیل اتوار کو ختم کرکے جمعے کا اعلان کرکے شدت پسند عناصر کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔

خطے میں ایران اسلامی انقلاب اور سپرپاور روس کی افغانستان میں عسکری مداخلت نے بھی پاکستانی معاشرے کو مذہب کے نام پر تشددکی طرف دھکیلا، کمیونسٹ روس کے خلاف جہاد میں مصروف عمل پاکستان کی شناخت بطوراسلام کے قلعے ایک ایسی سیکیورٹی اسٹیٹ میں ہونے لگی جہاں کے ہر غیرمسلم شہری کوبلاجوازپاکستان دشمن اور غیرملکی ایجنٹ سمجھاجانے لگا، ایک منظم حکمت عملی کے تحت نصابِ تعلیم میں ایسے مضمون شامل کردیئے گئے جس کا مقصد غیرمسلموں بالخصوص ہندوؤں کو متعصب اور اسلام دشمن ثابت کرکے نئی نسل کے ذہنوں کو پراگندہ کرنا تھا۔

آج تک سرکاری و غیرسرکاری تعلیمی اداروں کی ایسی کوئی درسی کتاب میری نظر سے نہیں گزری جس میں پاکستان کیلئے کسی غیرمسلم شخصیات کی خدمات کے بارے میں بیان کیا گیا ہو، پاکستان کے واحد نوبل انعام یافتہ سائنسدان کو غیرمسلم ہونے کی بناء پر سماجی طور پر نظرانداز کیا گیا، جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں مذہبی انتہاپسندی کو سرکاری پالیسی کا درجہ دیکرغیرمسلموں کے مذہبی اور بنیادی حقوق بشمول آزادی اظہار، اجتماع اور یونین سازی وغیرہ پر پابندی لگاکر انہیں خوف و ہراس میں مبتلا کردیا گیا، حدود آرڈیننس کا نفاذ غیرمسلموں پر بھی کردیا گیا،توہینِ مذہب قانون کا الزام لگاکرکسی بھی غیرمسلم کی جان سے کھیلناآسان کردیا گیا، بہت سے واقعات میں ملزم کو جیل میں دورانِ حراست بناء کسی تحقیقات کے قیدیوں ہی نے موت سے ہمکنار کردیا، غیرمسلموں کی شہادت کو ناقابلِ قبول اورغیرمسلموں سے متعلقہ مقدمات میں مسلمان کیلئے دیت کی آدھی رقم کی ادائیگی سمیت دیگر قانونی ہتھکنڈوں سے غیرمسلموں کو قومی دھارے سے باہر کرنے کی کوشش کی گئی جس میں دن بدن شدت آتی جارہی ہے،سانحہ بابری مسجد کے بعد پاکستان میں چن چن کر غیرمسلموں کے مقدس مقامات کو نقصان پہنچایا جانے لگا۔

پاکستان ہندو کونسل کے مطابق ہندو کم سن بچیوں کا اغواء، جبری مذہب تبدیلی، زبردستی شادی، مندروں سمادھیوں پر قبضہ، مذہبی مقامات کی عدمِ دستیابی سمیت دیگر روزمرہ کے مسائل پاکستانی معاشرے کودن بدن کھوکھلا کرتے جارہے ہیں ۔میری نظر میں پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا تھا اور پاکستان کو درپیش مسائل کا حل بھی جمہوریت میں پنہاں ہے، پرویز مشرف کے دورآمریت میں غیرمسلموں اور خواتین کیلئے مخصوص نشستیں متعارف کرواکر عالمی برادری کے سامنے ملک کا سوفٹ امیج پیش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ مسئلے کا دیرپا حل نہیں کیونکہ پارلیمان میں موجود غیرمسلم نمائندے فی الحال عوام کے ووٹ سے الیکٹ نہیں ہوتے بلکہ جیتنے والی سیاسی جماعتوں کی ذاتی مرضی پسند سے سلیکٹ ہوتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ آزاد کشمیر اسمبلی کی طرز پرغیرمسلموں کو دہرے ووٹ کا حق دیکرکم از کم پندرہ انتخابی حلقے غیرمسلموں کو اپنے حقیقی نمائندے خود منتخب کرنے کیلئے مختص کیے جائیں تاکہ پاکستان میں بسنے والے غیرمسلم اپنے مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کیلئے قانون سازی پارلیمان میں کرکے ایک پرامن پاکستانی معاشرے کا قیام عمل یقینی بنائیں۔ اس اقدام سے غیرمسلموں کے مابین بھی اپنی کمیونٹی کے مسائل حل کرنے کیلئے نہ صرف انتخابی عمل کے جمہوری رحجان کو تقویت ملے گی بلکہ وہ بھی عوام کے سامنے جوابدہ ہونگے، صدرِ پاکستان اور وزیراعظم کی آئینی پابندی ایک طرف لیکن حکومتی ذمہ داریوں میں غیرمسلموں کی شمولیت بھی غیرمسلم آبادی کے احساسِ عدم تحفظ میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔