فاطمہ ثریا بجیا: اردو ادب اور یتیمی کے زخم

فاطمہ چڑیا بجیا کی تصویر
فاطمہ ثریا بجیا

(شیخ محمد ہاشم)

ماہ فروری شروع ہوگیا، دل میں لگے زخم پھر سے ہرے ہوگئے ،فروری2016نے ادب سے لگاؤ رکھنے والوں کو پے در پےجو گھاؤ لگائے اُن کا بھرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ ظالم فروری 2016 نے عہد ساز ادبی شہنشاہوں کو مٹی کی چادر اوڑھا کر سُلا دیا۔ ماہ فروری 2016 کے آغاز نے اردو ادب کے سینے پر سانحات کے بوجھ ڈالنا شروع کر دئیے تھے ، مشہورا فسانہ و کالم نگارجناب انتظار حسین 2فروری 2016کوخالق حقیقی سے جا ملے ، مشہور ناول نگار جناب محی الدین نواب 6فروری 2016کو اس دُنیا سے رخصت ہوئے۔ بھارتی شاعر ،فلمی گیت کار، مکالمہ نگار مقتدا ندا فاضلی 8فروری2016 کو بمبئی میں وفات پائے گو کہ اُن کے والدین اور تقریباً خاندان کے افراد پاکستان میں مقیم ہیں۔10فروری 2016کوفاطمہ ثریا بجیا ہم میں نہیں رہیں۔ رفتہ رفتہ ا ب آہ و بکا کے اس معاشرے سے روشنی کی کرنیں بھی معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ اپنے خالق حقیقی سے جا ملنے والے ان کرشمہ ساز شخصیات نے جہاں ہمارے معاشرے میں روشنی کی کرنوں کو پھیلایا، وہیں ان کی رحلت سے پیدا ہونے والے خلاء نے مایوسی اور تاریکی کو جنم دیا ۔ایسے موقع پر ایک پاکستانی فلم کے گانے کے بول ہمارے دل و دماغ میں پھیلی مایوسی اور تاریکی کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔


کیسا اُجڑا ہے اُمیدوں کا چمن تیرے بعد
پھول مرجھائے ، بہاروں پہ خزاں چھائی ہے

سطروں کی تنگی کے باعث ہم درج بالا تمام عہد ساز افراد کی سوانح حیات، تخلیقات اور جمالیات کا تذکرہ کرنے سے قاصر ہیں، اس لئے یہ سلسلہ ہم “محترمہ فاطمہ ثریا بجیا “کی سوانح حیات  اپنے الفاظوں میں قلمبند کرنے کی کوشش سے  کرتے ہیں، اور کوشش کرتے ہیں کہ یہ قرض اور دل کا بوجھ کسی حد تک کم ہو سکے۔

مصنف کی تصویر
صاحب تحریر: شیخ محمد ہاشم

حد نگاہ تک پھیلا ہوا آسمان اور پھیلے ہوئے آسمان پر پھیلے چاند، سورج اور ستارے دراصل روشنی کے استعارے ہیں جو انسان کو تاریکی میں روشنی پھیلانے پر اُکساتے ہیں۔انسان پیدایشی تاریکی کا مجسمہ ہے، اس کے اندر کی تاریکی میں شمع کو روشن کرنے کے لئے اللہ تبارک تعالیٰ خاص لوگوں کو مختص کیا کرتے ہیں۔ یہ روشنی پھیلاتا ہوا بیان تھا محترمہ فاطمہ ثریا بجیا کا ۔تاریخ کے حوالے سے اس بیان کو دیکھا جائے تو بے شمار محسن انسانیت گزرے ہیں جنھوں نے رب کی جانب سے سونپی گئی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں نبھایا۔

فاطمہ ثریا بجیا نے کسی مکتب سے تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ ہی کوئی سند حاصل کی۔ ایک ایسی خاتون جو تعلیم یافتہ نہیں تھیں لیکن انھوں نے تعلیم و تربیت کے حوالے سے جو مثالیں قائم کیں وہ نیر اعظم ،نیر تاباں کے مصداق ہے۔ تعلیم و تربیت کے میدان میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے والی بجیا نے اپنے اقدار، تہذیب وتمدن کو ہمیشہ بھنچ کر رکھا۔
ِ

انسان کی سوچوں سے بہت چھوٹا ہے یہ حد نگاہ تک پھیلا ہوا آسمان ،کیونکہ خالقِ دوجہاں نے انسان کے سینے میں علم وحکمت کے خزانے بھرے ۔ فاطمہ ثریا بجیا نے مشہور شاعرہ عابدہ اقبال کے تخیلات کو سچ ثابت کر کے دیکھایا ۔انھوں نے والدہ کے انتقال کے بعد اپنے خاندا ن کے موتیوں کو ایک مالا میں پرو کر رکھا۔ ان کی تربیت میں تہذیب کا اعلیٰ میعار پایا جاتا ہے۔ اسی لئے ان کے خاندان نے اُن کو بجیا کے خطاب سے نوازا اور اب دنیا انھیں بجیا کے نام سے ہی پہچانتی ہے۔ 1ستمبر 1930میں حیدرآباد دکن بھارت میں پیدا ہونے والی بجیا نے 5لاکھ سے زائد صفحا ت تحریر کئے۔ ناول نگاری ،ڈرامہ نگاری میں بجیا معروف شخصیات کی فہرست میں شمار کی جاتی تھیں۔انھوں نے ٹیلی ویژن ،ریڈیو اوراسٹیج پر بھی بطورمصنف  کام کیا  اور شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔سماجی اور فلاحی کام کے حوالے سے بھی ان کو  قدر کی نگا ہ سے دیکھا جاتا رہا۔ بجیا نےحکومت سندھ میں مشیر برائے تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ 1997میں بجیا کو حکومت پاکستان نے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا،2012میں اُن کو صدر پاکستان نے ہلال امتیازکو ان کے گلے پر سجایا،ان کے کام کو سہراتے ہوئے جاپان نے بھی اعلیٰ سول ایوارڈ سے نوازا۔ فاطمہ ثریا بجیا نے اس دنیا سے پردہ پوشی سے قبل اپنے ایک اور پیغام کو تاریخ کا حصہ بنادیا تھا ، بجیا نے وصیت کی تھی کہ میرے جنازے میں کوئی کیمرہ آن نہیں ہونا چاہیئے۔ ان کے بھائی انور مقصود نے میڈیا والوں سے معذرت اور درخواست کی کہ بجیا کی وصیت کااحترام کیا جائے اور پس پردہ کام کرنے والی بجیا نے اس دنیا سے ہی پردہ کر لیا۔

فخر ہمیشہ ایسی ہی صلاحیتوں پر ہوا کرتا ہے کہ جب وہ صلاحیتیں لاکھوں میں سے ایک انسان کو نمایاں مقام پر لا کر کھڑا کر دیتیں ہیں۔ درج بالا عہد سازاور ان سے قبل رحلت فرما جانے والی شخصیات میں وہ تمام صلاحیتں موجود تھیں ،جن کے پیغامات و تعلیمات ہمیں سیدھا راستہ استوار کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، گر چہ ہم ان کےپیغامات و تعلیمات کو سنجیدگی سے لیں۔ ایسی شخصیات کا عہد اب ختم ہو تا جا رہا ہے ، چند گنے چنے لوگ رہ گئے ہیں اللہ ان کی عمر یں دراز کرے ۔لیکن موجودہ دور میں ایسی شخصیات نا پید ہوتی جا رہی ہے۔ کیونکہ ہماری تعلیم و تربیت کا محور صرف دولت کمانا رہ گیا ہے۔ہم اپنے بچوں کو سند یافتہ تو بنا رہے ہیں لیکن انسان بنانے کے پہلووں سے غافل ہیں ۔ہمارے بچے شاہ رخ خان ،سلمان خان،اکشے کھنہ سے تو اچھی طرح واقف ہیں لیکن ادب ان سے کوسوں دور ہوتا جا رہاہے۔