سونو نگم کا اذان کے متعلق دوکوڑی کا بیان

سونو نگم کا اذان کے متعلق دوکوڑی کا بیان
سونونگم

سونونگم کا دوکوڑی کا بیان

(صادق رضا مصباحی)

۱۷؍اپریل کی صبح بالی ووڈکے معروف سنگرسونونگم نےاذان کے خلاف جوںہی اپنے دل کی بھڑاس نکالی تووہی ہواجس کی توقع سونونگم نے پہلے ہی سے کررکھی تھی ،سوشل میڈیااورسوشل میڈیاکے باہرمسلمانوں کے احتجاجی بیانات اورمظاہروں کاسیلاب ساآگیااوریوں گمنامی اورناکامی کے اندھیر ےمیں گرتا ہوا سونونگم اچانک میڈیاکی شہ سرخیوں تک پہنچ گیا۔سونونگم نے تواپنامقصدپوراکرلیااوراحتجاج کرنے والے مسلمانوں میں سے بعض طبقے بھی اپنامقصدحاصل کرنے سے نہیں چوکے۔ تنظیموں کے بینرتلے اس طرح کے چند مسلمان پہلے ہی سے ایسے مواقع کی تاک میں رہتے ہیں۔انہوںنے سڑک پر اتر کراحتجاجی مظاہرے کیے ،بیان بازیاں کیں، پولیس اسٹیشن گئے ،افسران سے ملے ،تصاویر کھنچوائیں اور اخبارات میں شائع کرادیں۔اب وہ اپنے گھربیٹھ کر کسی دوسرے ’’سونونگم‘‘کے انتظار میں ہیں ۔ زیادہ تر احتجاج کرنے والوں اوراحتجاج کی تحریک دینے والوں میں کوئی فرق نہیں ،دونوں شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ جب وہ محسوس کرتےہیں کہ ان کی زندگی ،’’موت‘‘ کے قریب پہنچ چکی ہے یازندگی کی حرارت ،برودت کا لبادہ اوڑھ چکی ہے توپھرموت کی کھائیں اوربرودت کے غاروں سے نکلنے کے لیے وہ بس ایک ہی سہارا تلاش کرتے ہیں یعنی الٹی سیدھی بیان بازی کرو جلد مشہور ہو جائو گے ۔یہ اتناتیربہدف نسخہ ہے کہ اس کافائدہ ہوتاہی ہے ۔سونونگم معروف سنگرہے ،دنیابھرمیں گھومتا ہے ،مشہور لوگوںکے ساتھ اٹھتابیٹھتاہے ، وہ اس رازسے اچھی طرح واقف ہے کہ کب کیابیان دینا ہے ، اس نے دوسروںکے سابقہ تجربات سے بھی فائدہ اٹھایاکہ انہیں کس طرح اختلافی بیان نے گنامی کی زمین سے اٹھاکرشہرت کے آسمان پرپہنچادیاتھا چنانچہ اس نے صبح ہی صبح اذان کے خلاف بیان داغ دیا اورشام آتے آتے مسلمانوںکاپوراسوشل میڈیا سونونگم کے مقصدمیں رنگ بھر نے لگا اور آج تک رنگ آمیزی کررہاہے۔
سمجھ میں نہیں آتاکہ سونونگم کیااتنابڑاآدمی ہے کہ اس کےبولاہواقانون کادرجہ رکھتاہے؟ وہ وزیر اعظم ،وزیراعلیٰ ،گورنریاوزیرہے؟اس کی زبان قانون کی زبان ہے؟وہ بہت بڑامفکر اور دانشور ہے؟ مگر افسوس! مسلمانوں نے اپنی بے شعوری اورکج فکری سے اس کے بےوزن بیان کووزن عطا کر دیااوراس بے حیثیت شخص کوحیثیت دے دی۔بات ہے تلخ مگربات ہے سچائی کی ،مسلمانوںکی زیادہ ترتنظیمیں اب محض احتجاج کی دوکانوں میں تبدیل ہوچکی ہیں ،یہ صرف احتجاج کامال فروخت کرتی ہیں۔اس واقعے میں بھی ان تنظیموں نے سونونگم کے لیے مارکیٹنگ ایجنسی کا کام کیاہےاوراس کے دوکوڑی کے بیان کوان’’ مارکیٹنگ ایجنسیوں‘‘نے کروڑوں میں فروخت کرکے خودبھی نفع کمایا ہے اورسونونگم کی آنےوالے البم کی بھی زبردست تشہیرکردی ہے۔معاف کیجیے گا،ان تنظیموں کا سوائے احتجاج اورمظاہروں کےکوئی اورکام نہیں ۔ہم توانہیں معذورسمجھتے ہیں کہ یہ بے چارے اس کے سوا کچھ اورکربھی نہیںسکتے۔ہم قوم نہیں صرف احتجاجی بھیڑمیں تبدیل ہوچکے ہیں ،ہماری بیشتر تنظیمیںتعمیری کام کرنے کی سکت اپنے اندرنہیں پاتیں اور جو کوئی تعمیری کام کرے اس کی شخصیت مجروح کرنے کاکوئی دقیقہ بھی فروگزاشت نہیں کرتیں،ان کی دوکان صرف بیان بازیوں اور احتجاجات سے چلتی ہے ۔کیاان تنظیموںمیں سےکسی نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور تعمیروترقی کے لیے کام کیاہے ؟ اوراگرکیاہے تو اس کے کتنے اثرات مرتب ہوئے ہیں؟اسلام کے لیے ’’ہمدردی کا جذبہ‘‘ ایسے ہی مواقع پرکیوں ان کے سینوں میں انگڑائیاں لیتاہے ،مسلمانوں کی فلاح ا ورمستقل تعمیری کام کے موقع پرکیوںیہ جذبات ان کے سینوںمیں اٹک کررہ جاتے ہیں ؟یہ لوگ ہمیشہ میڈیاکی شہ سرخیوںمیں کیوں آناچاہتے ہیں ؟
سونونگم جیسے کتنے آئےاورکتنے آئیں گے جواسلامی شعائرکامذاق اڑاکرمرکھپ جائیں گے مگر اذانیں ہمیشہ دی جاتی رہیں گی اوردشت وجبل گونجتے رہیں گے ،اس طرح کے بیانات مستقبل میں بھی دیے جائیں گے اوران کے خلاف احتجاج بھی ہوگا،مگرایساکبھی نہیں ہوگاکہ مسلمانوں کے سارے طبقے اور مسالک ملی مسائل کے حل کے لیے یک آوازہوجائیں تاکہ اس طرح کی حرکتوں پر مکمل پابندی لگ جائے کیو ںکہ ملی مسائل کے حل کے لیے اگرہم ایک اسٹیج پربیٹھ گئے تو ہماری بیویاں ہمارے نکاح سے نکل جائیں گی ،فتوی کے قلم دان حرکت میں آجائیں گے اورہم کافر و مرتد قرار دے دیے جائیں گے اورسب سے بڑی بات یہ کہ ہماری دوکانیں بندہوجائیں گی۔لوح ذہن پرنوٹ کرلیجیے کہ اس طرح کے ملی مسائل کے حل کے لیے مسلکی اختلافات کے باوجودسارے فرقوں کے اتحادکے بغیرکوئی چارہ ہی نہیں ،یہ ہم اگر آج نہیں کریں گے توکل ہمیں کرناہی پڑے گااور اس وقت کریں گے جب ہمارے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیںبچے گا۔
دوسری بات، سونو نگم کے اس ٹویٹ سے مسلمانو ںنے ایک بہت بڑاموقع گنوادیاہے ۔ایسے مواقع باربارنہیں آتے مگرمسلم قیادت کی بے بصیرتی اوربے شعوری نے اسے کوئی اہمیت نہ دی ۔سونونگم نے کہا تھا کہ اسے مسجدکی اذان کے علاوہ مندراورچرچ کے گھنٹوں سے تکلیف ہوتی ہے اس لیے ان پر پابندی عائدکردینی چاہیے ۔ہم بھی کہتے ہیں کہ یقیناپابندی عائدکردینی چاہیے اوران کے علاوہ نوراتری ، گنپتی ،دیوالی کے شور شرابے پربھی پابندی کی جانی چاہیے کیوںکہ ان تیوہاروں پربہت زیادہ شور شرابہ ہوتا ہے اوردوچارمنٹ کے لیے نہیں ہوتابلکہ کئی کئ گھنٹے تک لگاتارہوتارہتاہے ،اس سے شہریوں کوتکلیف پہنچتی ہے ،بیماروں کو الجھن ہوتی ہے ،بوڑھوںاوربچوں کے لیے یہ ماحول اذیت ناک ہوجاتاہے ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ۲۰۱۲کی رپورٹ کے مطابق ملک کی ۲۷فی صدآبادی شوروغل کی آوازوں سے پریشان رہتی ہے اور۴۸فی صدبوڑھوںاوربیماروں کواذیت دیتی ہے۔ اس لیے حکومت سے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سونونگم کے مطالبے پرسنجیدگی سے غورکرے اوراس شور شرابے کاقصہ ہی ختم کردے ،نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔اگران پربھی پابندی عائدہوجائے تو پھرمعاملہ ہی ختم ،ملک میں نہ کہیں شور شرابہ ہوگااورنہ سونونگم جیسوںکوتکلیف ہوگی اورپھرپریشان حال لوگوں کونجات بھی مل جائے گی ۔ اگرہم سونونگم کی ہاں میںہاں ملاتے تواذان پرکیاگیاتبصرہ اسی کے گلے کی ہڈی بن جاتا۔ہم مسلمانو ںکا کیا ہے ، ہم تودنیابھرجہاں بھی جاتےہیں ،اذانیں سنتے ہیں،ہم پیداہوتےہیں تو ہمارے کانوں میں اذان دی جاتی ہے ،جب آندھیاں ،طوفان اورزلزلے آتےہیں توہم اذان دیتے ہیں او ر جب مرجاتے ہیں توبھی ہماری قبرپراذان کی آوازسنائی جاتی ہے اس لیے اگر شور شرابے پرپابندی لگ گئی توہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گابلکہ اس سے برادران وطن مصیبت میں آ جائیں گےکیوں کہ ہندوستان کے سواکتنے ملک ہیں جہاں نوراتری ،گنپتی ، دیوالی منائی جاتی ہے اور مندروں میں گھنٹی بجتی ہے ؟ظاہرہے حکومت ایساکبھی نہیں کر سکتی لہٰذاوہ جب برادران وطن کے شور شرابے والے تیوہاروںپرپابندی نہیں لگاسکتی توپھراذانوں پر بھی پابندی نہیں لگاسکتی ۔یہ ایساسوال ہوتاجوحکومتوں کوبھی چاروں شانے چت کردیتامگربصیرت اور شعور کوگروی رکھ کرہم حسبِ روایت احتجاج پرآماودہ ہوگئے ،ایف آئی آردرج کرائی گئی ،کیس کرنے کا مطالبہ کیاگیااورایک بارپھردنیابھرکویہ کہنے کاموقع دیاگیاکہ مسلمان صرف احتجاج اورمظاہرہ کرنے والی قوم ہیں ۔
سونونگم جیسے لوگ مسلمانوں کےشعائرکواس لیے نشانہ بناتے ہیںکیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمان ان کی مارکیٹنگ کابہترین ذریعہ ہیں ۔وہ جیسے ہی کچھ بولیں گے مسلمان آسمان سرپر اٹھا لیں گے اوریوں وہ اچانک میڈیاپرآجائیں گے ۔وہ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگروہ دوسری قوموں کے خلاف کچھ بولیں گےتوانہیں اتنی زبردست پبلسٹی شایدنہیں ملے گی یاپھرانہیں ہمیشہ کے لیے ’’سبق ‘‘ مل جائے گا۔ میرے کانوں میں کوئی پھونک رہاہے’’میاں!جب قوم کے ذمے داران ملت کے تحفظ سے زیادہ اپنے تحفظ کی فکرکرنے لگیں توایسے ہی حادثات رونماہوتےہیں ۔