انتقام کا جذبہ: سماجی تبدیلی کا اہم سبب

مصنف:احمد علی جوہر

انتقام کا جذبہ: سماجی تبدیلی کا اہم سبب

از، احمد علی جوہر

سماج میں ہمیشہ سے اچھے اور بُرے دونوں عناصر پائے جاتے رہے ہیں۔ جس سماج میں بُرے عناصر کا غلبہ ہوا ہے وہ تباہی و بربادی کی جانب گامزن ہوا ہے۔ سماج کے بُرے عناصر میں سے ایک عنصر انتقام کا جذبہ ہے۔ یہ جذبہ انسانی جبلّت میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جذبہ دنیا کے ہر سماج میں قدیم زمانہ سے پایا جاتا رہا ہے۔ ہم اپنے سماج میں بھی ہرجگہ اور ہر قدم پہ انتقام کے جذبے کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ کسی بھی سماج میں انتقام کے جذبے کا پایا جانا، اس سماج میں موجود انتشار، پراگندگی، پستی اور اس کے زوال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ جذبہ جب شدّت اختیار کرجائے تو سماج کے لیے بہت بڑا ناسور بن جاتا ہے۔

انتقام کا جذبہ انفرادی مسئلہ نہیں ہے کہ ہم اسے نظر انداز کردیں، بلکہ یہ ایک اہم نوعیت کا سماجی اور اجتماعی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ جب پیچیدہ صورت اختیار کرتا ہے تو اس کی زد میں صرف فرد نہیں، افراد آتے ہیں اور اس کا نشانہ سماج بنتا ہے۔ اس لئے اس مسئلہ کو اپنے سماجی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ سماج میں غریب، امیر، طاقتور، کمزور ہر طرح کے لوگ بستے ہیں۔ مختلف رنگ و نسل، ذات پات اور مختلف مذاہب و مسالک اور فرقوں کے لوگ سماج میں رہتے ہیں۔ ایک بہتر سماج اسے مانا جاتا ہے جہاں تمام مذاہب ومسالک اور تمام فرقوں کے لوگوں کے درمیان باہمی ہمدردی، محبت ومروّت اور بھائی چارے کا ماحول ہو۔ جہاں تمام لوگوں کو یکساں ترقی کے مواقع، عزّت سے زندگی جینے کا حق حاصل ہو اور سب کے ساتھ مساوات اور حسن سلوک کا رویّہ روا ہو۔ اچھے معاشرہ کی تشکیل کے لیے ہر دور میں سماجی مفکروں، فلسفیوں، دانشوروں اور عالموں نے اپنے اپنے طور پر کوششیں کی ہیں۔ ان کوششوں کے نتیجہ میں سماج میں اعتدال وتوازن، انسانیت ومحبّت اور اخوّت وبھائی چارگی کی فضا ہموار ہوئی ہے اور سنہرا ماحول برگ وبار لایا ہے۔ سماجی مصلحین اور مفکروں کے سماجی اصلاح کی کوششیں جب کم ہوئی ہیں اور جب سماج میں حد سے زیادہ حرص وہوس کا غلبہ ہوا ہے تو سماج میں رفتہ رفتہ بُرے عناصر نے زور پکڑنا شروع کردیا ہے جس میں سے ایک عنصر انتقام کا جذبہ ہے۔

انتقام کا جذبہ سماج کے لیے کتنا تباہ کن ہے، اس کا اندازہ مفکرین کے درج ذیل اقوال سے لگایا جاسکتا ہے۔ Walter Scott کے مطابق انتقام کا جذبہ منہ کا ایسا ہلکا میٹھا ذائقہ ہے جو جہنم میں تیار کیا گیا ہو۔ Shannon L.Alder کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے تمہارے دل کو ٹھیس پہنچائی ہے تو ایسے لوگوں کو اگر لگاتار پریشان کرنے کے لئے تم اپنا وقت خرچ کرو گے تو یہ عمل تمہیں ذہنی و دماغی تکلیف پہنچائے گا۔ Richelle E.Goodrich کا خیال ہے کہ وہ سماج جس کی بنیاد انتقام کے جذبہ پر ہو، وہ ایسا سماج ہے جو اپنے آپ تباہ ہوجائے گا اور اس کی تباہی طے ہے۔ انتقام کا جذبہ جس شخص کے اندر جنم لیتا ہے وہ نفسیاتی مریض ہوجاتا ہے۔

ایسے لوگوں کے بارے میں John Dryden کہتے ہیں کہ بیمار آدمی کی ناراضگی اور اس کے غیض وغضب سے محتاط رہو۔ انتقام کا جذبہ انسان کو انتہائی جانبدار بھی بنا دیتا ہے۔ وہ چیزوں کو دونوں آنکھوں کے بجائے صرف ایک آنکھ سے دیکھتا ہے۔ چیزوں کو ایک آنکھ سے دیکھنے کا نتیجہ کتنا خطرناک ہوتا ہے، اس ضمن میں مہاتما گاندھی کا یہ قول ملاحظہ ہو کہ ایک آنکھ کے لئے ایک آنکھ (یعنی صرف ایک سے دیکھنا) پوری دنیا کو صرف اندھا بنائے گی۔

سماجی مفکرین کے درج بالا بیانات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انتقام کا جذبہ معاشرہ کے لیے بے حد مُضر ہے۔ یہ جذبہ کیسے پیدا ہوتا اور برگ وبار لاتا ہے۔ تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ کسی بھی سماج میں سماجی ناانصافی، دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم، عدم مساوات، انسانیت کے ساتھ توہین آمیز اور حقارت بھرے سلوک اور ظالمانہ رویّے انسانوں کے درمیان انتقام کے جذبہ کو جنم اور فروغ دیتے ہیں۔ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا یا کسی کو گالی دینا اور بُرا بھلا کہنا بھی انتقام کے جذبہ کو بڑھاوا دیتا ہے۔ کسی کو حقیر سمجھنا یا کسی پر گھٹیا اور منفی کمنٹ کرنا یا کسی کا مسلسل بھدّا مذاق اُڑانا بھی اس جذبہ کو تحریک دیتا ہے۔

آپسی اختلافات، سماجی، سیاسی، معاشی اور طبقاتی افتراقات سے بھی یہ جذبہ جنم لیتا اور فروغ پاتا ہے۔ یہ جذبہ گھر، دفتر، اسکول، کالج، چوراہا، بازار، غرض انسانی زندگی کے ہر قدم اور ہر شعبہ میں پایا جاتا ہے۔ انتقام کا جذبہ جب انسان میں جنم لیتا ہے تو اس کے اندر مختلف منفی خصوصیات پیدا ہوجاتی ہیں۔ یہ جذبہ انسانی ذہن کو مفلوج کردیتا ہے اور اس کے سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کرلیتا ہے۔ یہ جذبہ انسان کے اندر شدید گھٹن کی کیفیت پیدا کرتا ہے اور اس کی وجہ سے انسان منتشر رہتا ہے۔ جب تک انسان پر اس جذبہ کا غلبہ رہتا ہے وہ دوسروں یعنی مخالف لوگوں کے بارے میں بُرا سوچتا ہے۔ موقع ملنے پر وہ اسے نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنا قیمتی وقت بھی ضائع کرتا ہے اور دوسروں کو بھی ڈسٹرب کرتا ہے۔ جب معاشرہ انتقام کی آگ میں جلنا شروع ہوجاتا ہے تو وہاں ترقیات کی راہیں خودبخود مسدود ہوجاتی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں بھی اگر انتقام کے جذبے سے کام کرتی ہیں تو اس سماج میں ترقی نہیں ہوتی یا کم ہوتی ہے۔ ہاں تباہی وبربادی زیادہ ہوتی ہے۔ سماج کے مختلف گروپس اور مختلف مذاہب کے ماننے والے اگر انتقام کے جذبے سے کام کرتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں شدید تنازع اور فرقہ وارانہ فسادات جنم لیتے ہیں۔ انتقام کے جذبہ کا سب سے مضر پہلو یہ ہے کہ اس سے سماج میں اتحاد واتفاق کی جگہ افتراق وانتشار جنم لیتا ہے اور مسلسل افراتفری، بے چینی اور شدّت پسندی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ کسی بھی سماج میں افتراق وانتشار، مسلسل افراتفری، بے چینی، شدّت پسندی اور عدم اطمینان کی صورت، ترقی کے لیے زبردست رُکاوٹ تو ہے ہی، اس سماج کے وجود کے لیے بھی مُضر ہے۔ ایسا سماج زوال کی طرف گامزن ہوکر تباہ وبرباد ہوسکتا ہے۔

انتقام کے جذبہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ جذبہ انسانی صلاحیتوں پر بہت پرزور طریقے سے اثرانداز ہوتا ہے۔ اُسے مثبت راستوں سے ہٹا کر منفی راستوں پر لگا دیتا ہے اور اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ انتقام کا جذبہ انسان کو اندھا اور پاگل بنا دیتا ہے۔ انسان کا اندھا یا پاگل ہونا سماج کے لیے بڑا تباہ کن ثابت ہوتا ہے اور ایسے میں سماج تباہی وبربادی کی آخری حدوں کو چھونے لگتا ہے۔ انتقام کا جذبہ چاہے جس شکل میں ہو، وہ سماج، اس کی ترقی، حکومت اور انسانیت سب کے لیے مُضر ہے۔

اس مُضر اثر سے سماج کو بچانے اور اس کی اصلاح کے لیے سماجی مفکرین، دانشوروں، عالموں اور پڑھے لکھے لوگوں کو آگے آنا چاہئے اور انھیں لوگوں کے درمیان اخوّت ومحبّت اور بھائی چارے کا ماحول قائم کرنے اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ Thomas Hobbes کا خیال ہے کہ باہمی تعاون ہی مضبوط حکومت اور مرکزی اقتدار کو ترقی دے سکتا ہے۔ سماج کو انتقام کے جذبے سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سماج میں صحت مند نظریات کو فروغ دیا جائے، سماجی انصاف، عدل ومساوات، باہمی تعاون اور ایک دوسرے کو فائدہ پہنچانے کے بے لوث جذبے کو عام کیا جائے اور لوگوں کے درمیان اخوّت ومحبّت اور بھائی چارے کا ماحول قائم کیا جائے۔ اس کے لیے سماجی ورفاہی اداروں، تنظیموں اور پڑھے لکھے طبقوں کو آگے آنا اور اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینا چاہئے۔ اس طرح سماج میں روشنی کی لہر تیز ہوگی اور ظلمت کی کھائی میں جانے سے سماج بچ جائے گا۔

محبت کا نعرہ لگاتے رہیں گے
محبت کی دنیا بساتے رہیں گے
کرو لاکھ کوشش نہیں بند ہوگا
کہ ہم میکدے کو چلاتے رہیں گے
گریزاں گریزاں بھی ہے وہ تو کیا ہے؟
کہ ہم دل کے رشتے نبھاتے رہیں گے
نہیں رہزنوں کا کوئی خوف ہم کو
قدم سوئے منزل بڑھاتے رہیں گے