سال 2016 کی آخری تحریر

(ببرک کارمل جمالی)

2016 کا آخری سورج میرے سامنے تھا
میں اس وقت گوٹھ کے گلیوں میں بیٹھا تھا
میں نے ایک نظر آج اپنے آبائی گائوں پہ ڈالا ہوا تھا کہ اس سورج کے ساتھ کیا کیا بدلتا ہے مگر کچھ لمحے پورے گائوں پہ ڈالا مگر ہر طرف ظالم ظالم نگاہوں سے دیکھتا رہا مگر سب کچھ تو ویسے کا ویسا تھا امی نے صبح اٹھتے ہی دہی کو لسی بنا کر مکھن نکال دیا بچے سکول جانے لگ گئے ۔ چرواہے بھینس بکریوں کو ساتھ لیکر چراگاہ کی طرف لے جا رہا تھے مسجد سے ہر روز کی طرح آج بھی آزان مل رہی تھی ماموں جان کو اس ٹائم بیٹا ہوا تو اس کا نام ہی آذان خان رکھ دیا سب لوگ خوش تھے جیسے ہی میں کمرے کی طرف آیا تو ٹی وی آن کیا ٹی وی پہ چل رہا تھا آج پوری دنیا نئے سال کی نئی خوشیاں منائی جا رہی ہیں
دوبارہ میں نے گائوں کی طرف دیکھا یہاں تو خوشیاں نہیں منائی جا رہی یہاں کی زندگی شہروں کی زندگی سے بالکل الگ ہے لوگ نئے سال میں جارہے تھے مگر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ بلوچستان کی سر زمین پہ نیا سال کا سورج نکلتا بھی ہے یا نہیں۔
کیونکہ بلوچستان کی سر زمین مسائل کی سر زمین  ہے یہاں پہ کبھی پانی کےمسائل کبھی گیس کے مسائل کبھی سڑکوں کے مسائل تو کبھی نوجوان کے  نوکریوں کے مسائل میں سوچ میں پڑھ گیا کن کن مسائل کا ذکر کرو سب مسائل سب کے سامنے ہیں۔
اسی ٹائم میں نے اپنی بائیک نکالی اور شہداد کوٹ سندھ کا رخ کیا جہاں سے سی پیک کے حوالے سے کچھ نشانات لگائے جا رہےتھے
یہ وہ سڑک ہے جو رتو دیروں سے خضدار اور گوادر تک روڈ جا رہا ہے روڈ کے قریب دکانات کو وارنگ لیٹر دیا جا رہا تھا سی پیک کی وجہ سے آپ کے دوکان مسمار کیئے جائے گے دوکاندار پریشان تھے میں نے ایک بورڈ دیکھا جہاں لکھا تھا ٹرک ٹرمینل سی پیک جہاں پہ کچھ لوگ نشانات لگا رہے تھے کچھ پکچر نکالے اور آگے سٹی کی طرف چل پڑا جہاں پہ کچھ لوگ ایک مردہ بھینس کی کھال اتار رہے تھے جب ان کو کہاں کہ بھائی یہ کیا کر رہے ہو تو بولے بھائی صاحب کا بھینس رات مر گیا ہے اس کی کھال اتار کر کچھ پیسے مل جائیں گے۔ چلو چھوڑوں آگے چلتے ہے میں جب سٹی میں پہنچا تو کچھ پیسے اے ٹی ایم سے نکالنے کا سوچا وہاں پہنچا تو رش بہت زیادہ تھا زبردستی اندر داخل ہوا تو اندر کیا دیکھا بینظیر کارڈ کے پیسے نکالے جا رہے تھے فی کارڈ کا ایک بندہ سو روپے فی اے ٹی ایم کا لے رہا تھا ہم نے منت سماجت کر کے اپنے لیئےکچھ پیسے نکال لیئے اور بازار کی سمت چل پڑے۔ بازار کے اندر ایک فقیر ملا جس نے میرا ٹانگ پکڑا اور کہاں ایک سو روپے سوال ہے  میں نے پوچھا بھائی کس خوشی میں آپ کو ایک سو روپے کا نوٹ دو۔ وہ جلدی بولے رات جا کے بھائی نئے سال کی پارٹی میں لاکھوں روپےخرچ کرو گے مجھے ایک سو کا نوٹ دے دو اسلئیےآج بڑی رقم کی خواہش کر ڈالی اللہ اللہ کرکے فقیر کو پچاس کے نوٹ دے کے جان چھوڑایا اور آگے چل پڑا ۔
کھانہ کھایا اور چپل 36 نمبر خریدے اور رنگا رنگا نئے سال کے ڈیزائن دیکھنے لگا اور واپسی پہ کچھ فروٹ اور سبزیاں اور گوشت خریدا اور گوٹھ کی طرف واپس ہوا راستے میں چند پولیس والوں نے روک لیا بھائی کاغذات دیکھائوں کاغذات کے بعد قانون نے ہمارا شناختی کارڈ دیکھا  اور بعد میں انشورنس کا پوچھا جو ہمارے پاس نہ تھا۔
بھائی کرتے کیا ہو ؟؟؟
جلدی میں بول پڑا بھائی۔
صحافی ہو سندھ قانون جلدی بول پڑا
یار سیدھا سیدھا کیوں نہیں بولا
صحافی ہو۔۔
جاو جاو اب مجھے چھوڑ دیا گیا آج پتا چلا کہ سندھ کا قانون سال کا آخری دن بھی روڈوں پہ نکل کر منا رہا تھا ہم شام کو گوٹھ پہنچے امی چائے بنا رہی تھی چائے پی کر ٹی وی پہ بیٹھ گئے پورے دنیا کے لوگ نئے سال کے آغاز میں خوشیاں منا رہے تھے کہیں پہ ڈھول بج رہے تھے تو کہیں پہ چراغاں کیا جارہا تھا تو کہیں پہ دو محبت کرنے والے مل رہے تھے تو کہیں پہ نئے سال کے نغمے گائے جا رہے تھے لوگ اربوں روپے خرچ کر رہے تھے اس وقت مجھے لگا کہاں گئے وہ لوگ جو کئی کئی گھنٹوں تک سی پیک پہ بحث کرتے تھے۔ کہاں گئے وہ لوگ جو کتے کو گٹر سے نکالنے کیلئے گھنٹوں کے گھنٹوں بحث میں ڈوبے ہوئے تھے اس وقت مجھے لگا پورا ملک امن کا آج گہوارہ بن چکا ہے میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا پیارے اللہ میاں ہر روز ایسا دن دیں۔ نہ کوئی غم نہ کوئی خواہش نہ حکومت نہ کوئی اپوزیشن نہ حکمرانوں کے نخرے نہ گالی نہ کوئی گلوچ سب کچھ سب لوگ بھولے ہوئے تھے ہم نے نئے سال کو الوداع کہ کر دو بجے اگلے سال کو ویلکم کہا اور سو گئے اور اگلی صبح کا انتظار کرنے کے ساتھ نئے نئے مسائل پہ سوچنے لگ گئے جس کی وجہ سے ہمیں نیند بھی نہیں آرہی تھی پر آنکھیں باندھ کر زبردستی نیند کو گلے لگا لیا ۔۔
الوداع اے سال 2016 الوداع۔۔
تلخ یادوں سےبھرا سال الوداع۔۔