حضرت سخی سرور کا عرس اور ریاستی جبر

حضرت سخی سرور کا عرس

حضرت سخی سرور کا عرس اور ریاستی جبر

(ذولفقار علی )

وادی سندھ کی تہذیب کی سب سے اہم بات پُرامن تاریخ کی امین ہونا ہے۔ آثار قدیمہ کے باقیات میں سے اس دھرتی سے آج تک کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا۔ شاید اس لئے اس وادی میں جگہ جگہ بزرگوں کے چھوٹے بڑے مزار ملتے ہیں جنہوں نے عدم تشدد کے فلسفے کے زیر اثر یہاں کے لوگوں میں اپنا فیض بانٹا۔ اسی فیض کی بدولت وادئی سندھ کے لوگ دوسری ہم عصر تہذیبوں کے افراد سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔
اگرچہ اس خطے کی خوشحالی، فطری تنوع اور معاشی ذرائع کی فراوانی کے باعث بہت سے حملہ آور یہاں کے باسیوں کو لوٹتے کھسوٹتے رہے اور یہاں کے حسن و وسائل کو تار تار کرتے رہے مگر پھر بھی یہ تہذیب عدم تشدد اور برداشت کے بل بوتے پر حملہ آوروں کا مقابلہ کرتی رہی۔
تاریخ میں جتنے بھی بڑے ظالم اور خونخوار حملہ آور آئے انہوں نے یہاں کے لوگوں کو قتل کیا، وسائل کو لوٹا، تشدد کے بد ترین حربے آزمائے مگر انہوں نے یہاں کے بزرگوں کے مزاروں کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا پچھلے پندرہ سالوں میں مذہبی شدت پسندی سے تعلق رکھنے والے افراد اور اداروں نے پہنچایا۔

حضرت سخی سرور کا عرس احتجاجی مظاہرہ

خاص کر افغان وار کے پہلے مرحلے میں جب ریاست نے ایک گھناؤنا کھیل رچایا تو اُس کی آگ میں وادی سندھ کی تہذیب کے مزاج کے عکاس صوفی اور بزرگ بھی نہ بچ سکے۔ یہ سلسلہ آج تک رک نہیں پایا بلکہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آتی جا رہی ہے۔
ریاست کبھی تشدد کے پروردہ افراد کی نگہبان بن کر ان بزرگ ہستیوں کو اپنے بہیمانہ عزائم کا نشانہ بناتی رہی تو کبھی سیکیورٹی کے نام پر لاکھوں زائرین کے جذبات اور احساسات کے ساتھ کھلواڑ کرتی رہی۔
اس گورنمنٹ کے حالیہ اقدامات کا جائزہ لیں تو انہوں نے بہت سارے بزرگوں اور صوفیا کرام کے درباروں پر زائرین کا داخلہ بند کر دیا ہے۔ جن میں خاص طور پر روہی کے ” چنن پیر” تھل کے “حضرت عنایت شاہ” اور دامان کے مشہور بزرگ حضرت سخی سرور کے عرس پر پابندی لگانا شامل ہے۔

 

حضرت سخی سرور تیرہویں صدی کے مشہور صوفی بزرگ گُزرے ہیں۔ آپ کا اصل نام سید احمد سُلطان تھا ۔آپ نےمحبت اور امن کا پیغام پھیلانے کیلئے پورے سینٹرل ایشیا کا سفر کیا اورکچھ عرصہ عراق میں بھی قیام پذیر رہے۔ لیکن آپ نے آخری پڑاو ڈیرہ غایخان سے 30 کلومیٹر دور کوہ سلیمان کے دامن میں کیا۔
حضرت سخی سرور کا عرس ہر سال مارچ میں شروع ہوتا ہے اور دو مہینے تک جاری رہتا ہے۔ اس عرس میں پاکستان کے مختلف علاقوں سے لاکھوں زائرین شریک ہوتے ہیں۔ پاکستان سے باہر بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ حاضری دینے کیلئے یہاں پر آتے ہیں خاص طور پر سکھ اور ہندو برادری میں آپکا حلقہ اثر بہت زیادہ ہے۔ اس لئے آپ کا عرس مختلف ناموں سے دُنیا کے مختلف حصوں میں مختلف ناموں سے منایا جاتا ہے۔ سرائیکی وسیب میں وساخی کے تہوار کے داران “سنگھ میلہ” پشتون بیلٹ پشاور میں اسی بزرگ کی مناسبت سے ” جھنڈوں والا میلہ” اور تخت لاہور کے علاقے میں “قدموں والا میلہ”مشہور ہے۔
اس عرس میں لوگ اپنی منتیں مرادیں لے کر آتے ہیں اور یہاں شریک ہوکر اپنے من کا بوجھ حلقہ کرتے ہیں ۔ عرس میں شریک افراد فرقے، مذہب اور قومیت سے بالاتر ہو کر ایک انسان کی حیثیت سے اپنے دُکھ اور پریشانیوں کا مختلف طریقوں سے اظہار کرتے ہیں۔ جس میں دھمال، جھومر، ننگے پاوں چلنا، پیٹ کے بل چلنا ، رونا اور تنگ و تاریک راستوں سے ہو کر گُزرنا شامل ہے۔
مگر ریاست کی ناقص پالیسی پر جگر پیٹنے کو دل کرتا ہے کہ وہ شدت پسندی کے بیانیے سے نمٹنے کی بجائے اُسے کسی نہ کسی شکل میں یہاں کے مقامی باسیوں پر مسلط کرتی رہی ہے۔ جس کی حالیہ مثال اس عظیم الشان عرس پر سیکیورٹی رسک کا جواز بنا کر پنجاب گورنمنٹ کی طرف سےپابندی عائد کر دینا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ مقامی منتخب نمائندے اور اہل اقتدار طبقہ کی طرف سے کوئی مذمتی بیان تک سامنے نہیں آیا۔ لیکن کچھ مقامی نوجوانوں اور سیاسی شعور رکھنے والے افراد نے پنجاب حکومت کے اس اقدام کی نہ صرف بھر پور مذمت کی بلکہ تن کے کپڑے اٗتار کر اور سر میں مٹی ڈال کر شدید ماتم بھی کیا اور کئی گھنٹے تک سخی سرور کے دربار سے کوئیٹہ روڈ تک “سات پھیرے” بھی کھائے جو اس بزرگ سے جُڑی کمال کی میتھ کی عکاس ہے۔

صدیوں سے یہاں کے باسی اس متھ myth پر یقین رکھتے ہیں کہ سائیبیریا کی یخ سردیوں کے موسم میں کونج ہزاروں میل کا کٹھن اور جان لیوا سفر کر کے کوہ ہمالیہ کی بلند ترین چوٹیوں کو عبور کرتی ہوئی سخی سرور کے درشن کرنے کیلئے یہاں آتی ہے۔ اس عقیدت اور محبت کو یہاں کے باسی آسمان پر اُڑتی کونج کو یہ کہہ کر تصدیق کرتے ہیں “کونجاں وائے کونجاں سخی سرور دے ست پھیرے ڈتی ونجو” (کونج اڑی کونج سخی سر ورکے نام کے سات چکر کاٹ کے جاو)اور یقین مانئیے کونجوں کی ڈار بچوں کی یہ آواز سنتے ہی آسمان پر سات چکر کاٹے بغیر آگے نہیں بڑھتی۔ اس کا مشاہدہ میں نے کئی بار اپنی آنکھوں سے کیا ہے۔
سرمیں مٹی ڈال کر بدن کی قمیض اتار کر ا س عرس کی بندش کے خلاف سراپا احتجاج مقامی لوگوں کی سر پرستی کرتے ہوئےعلاقے کی بزرگ شخصیت جناب قادر بخش نے کہاکہ اس روحانی اور تصوف کے رنگ کے علاوہ یہ عرس سرائیکی وسیب کے پسماندہ ترین علاقے کیلئے معاشی خوشحالی کا بھی باعث بنتا ہے۔ ہزاروں لوگ مختلف کاروبار کے ذریعے اس عرس کے دوران سال بھر کا روزی کماتے ہیں۔ اُن کے بقول 80 فیصد کے لگ بھگ مقامی آبادی کی روزی اس عرس سے وابستہ ہے۔
پیپلزپارٹی کوٹ چٹھہ کے مقامی کارکن جناب آصف گُلیانی نے بھی اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر پنجاب حکومت نے کرکٹ کا میچ کروانا ہو تو لاہور کے اندر ہزاروں پولیس والے اور سیکیورٹی کے افراد لگا دئے جاتے ہیں کیونکہ اُس میں جوا اور بلیک منی کا دھندہ ہوتا ہے جس کا فائدہ اشرافیہ کے لوگون کو پہنچتا ہے جبکہ صوفیا کرام کے عرس کیلئے چند پولیس والے بھی دستیاب نہیں ہیں۔
اس جلوس میں علاقے کے پڑھے لکھے نو جوانوں نے بھی بھر پور شرکت کی جس میں رمضان قادر کا نام نہ لینا زیادتی ہوگی۔ اس نوجوان نے اپنے غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بطور مہذب انسان ہمیں اپنے ورثے اور ثقافت کا بھر پور تحفظ کرنا ہوگا ورنہ وہ دن دور نہیں جب ریاست پر قابض اقتدار کے بھوکے اپنی سطحی سوچ کو ہم پر مسلط کر کے ہمارے عرس، ہمارے روزگار، ہمارے ثقافتی تہوار اور ہمارے امن کی داعی تہذیبی علامتوں کو برباد کر دیں گے۔ یہ کیسے حکمران ہیں جو لوگوں سے سب کچھ چھین کر اپنا دوام چاہتے ہیں مگر ان کو یہ نہیں پتا کہ رنجیت سنگھ سے لیکر تخت لاہور پر قابض موجودہ حکمرانوں تک امن اور عدم تشدد کے پیروکار اس دھرتی کے اصل باشندے مقابلہ کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی عدم تشدد کی حکمت عملی اپناتے ہوئے انکا مقابلہ کیا جائیگا اور صوفیا کی یہ دھرتی اپنی اصل حالت میں پھر سے بحال ہوگی ۔ اس نے خواجہ فرید کا کلام پڑھ کر کہا ” مونجھیں کوں نہ کر یاد ول، اے جھوکاں تھیسن آباد ول، فریدا تھیوں شاد ول، ایہہ نائیں نہ واہسی ھیک منڑی”۔

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔