جب عقل اور زبان میں فاصلہ بڑھتا جاتا ہے

Syed Talat Hussain aik Rozan
سید طلعت حسین، صاحب مضمون

جب عقل اور زبان میں فاصلہ بڑھتا جاتا ہے

سید طلعت حسین

آپ کسی بھی ویب سائٹ پر چلے جائیں، کوئی سی بھی کتاب پڑھ لیں،کسی رسالے کا مطالعہ کریں، ہر تحریر قیادت کو ایک ہی مشورہ دیتی ہے کہ بولیں کم اور سنیں زیادہ۔ سماعت کا ظرف گفتار کی سکت سے کہیں بڑھ کر ہونا چاہیے۔ درحقیقت قیادت کو کچھ اور خوبیاں بھی درکار ہوتی ہیں، جیسا کہ بصیرت، معاملہ فہمی، کشش، تنظیمی صلاحیت، اتفاق رائے قائم کرنا، صلاحیت کے مطابق اہداف کاتعین وغیرہ۔حکمران طبقے کے لیے ان صلاحیتوں کا حصول ضروری سہی ، لیکن کان اور ذہن کو کھلا اورزبان کو قابومیں رکھنے کی صلاحیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔

افسوس، آج کے پاکستان کی سنگلاخ سیاسی سرزمین پر اس نصیحت کی کھیتی بار آور نہیں ہوتی۔ اس کی بجائے ہمارے ہاں دامن ِقیامت سے جڑی زبان درازی اور لامتناہی بیان بازی ’’بہترین حکمت ِعملی ‘‘ کے زمرے میں آتی ہے ۔ خاموشی اور تحمل کی صفت اس طرح عنقا ہے جیسے ، ’’کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں۔‘‘لگتا ہے کہ کسی پرآشوب آسیب کا ہم پر سایہ ہے کہ کیا خاص، کیا عام، ہر کسی کی زبان شمشیر برہنہ کی طرح عقل اور معقولیت کے کشتوں کے پشتے لگاتی چلی جاتی ہے ۔ ایک سابقہ کالم میں statementitis کا ذکر کیاتھا جو یرقان زدہ ذہنوں کو لاحق بیان دینے کی نفسیاتی بیماری ہے جس نے آج کل اس سرزمین کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔ یقینا بیان دینے کی یہ بیماری پروپیگنڈا نہیں ، کیونکہ یہ بدنام زمانہ اصطلاح (پروپیگنڈا) ابلاغ کا ایک مربوط نظام ہے جس میں کچھ طے شدہ قوانین، اہداف اورسامعین کے متاثر ہونے یا اسے رد کرنے کی صلاحیت کو مد ِ نظر رکھا جاتا ہے۔ یہ رسی کے بغیر کنوئیں میں چھلانگ لگانے کی حماقت کا نام نہیں ۔ایسا کرنے کو Statementitis کہا جاتا ہے ۔

اس پس منظر میں گزشتہ ہفتے عمران خان کے چیف ترجمان، نعیم الحق کا میڈیا میں پیدا کردہ طوفان ایک قابل ِفہم مثال ہے۔ عمومی حالات میں وہ حس  مزاح رکھنے والے ایک معقول اور گفتگو کے فن سے واقف شخص ہیں، لیکن اُس روز اُنھوں نے گویا حماقت کا دفتر کھولنا ضروری سمجھا اور الزام لگایا کہ سابق آرمی چیف، جنرل اشفاق پرویز کیانی نے واشنگٹن اور ایک برادر اسلامی ملک کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی سے اقتدار چھین کر موجودہ حکومت کے حوالے کردیا۔ اگرچہ اُنہیں اپنے اس بیان پر کسی کی حمایت حاصل نہ ہوئی (اُن کا کہنا ہے کہ پارٹی کو اس ضمن میں کچھ ثابت کردکھانے کی ضرورت نہیں) لیکن وہ اپنے بیان پر مصر رہے کہ اس مبینہ سازش نے پی ٹی آئی کو کم از کم ساٹھ فیصد نشستوں سے محروم کردیاتھا۔

اس احمقانہ الزام پر فوری رد ِعمل بارہ گھنٹوں سے بھی کم مدت میں سامنے آیا، کچھ آن ریکارڈ، اور کچھ پس پردہ، اورپھر نعیم الحق بوکھلائے ہوئے ، شش و پنج کے گرداب میں غرق ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے خود کو مزید پریشانی میں الجھاتے پائے گئے۔ ہونے والے نقصان کے حجم کو کم کرنے کی قدرے تاخیر سے کی گئی کوشش میں اُنہوں نے کہا کہ یہ بیان اُن کی ’’ذاتی رائے‘‘ تھا۔ اگلے چند ایک گھنٹوں کے دوران اُن کے حیران کن دعوے میں مزید چھید دکھائی دینے لگے۔ آخرکار اُنھوںنے زبان بندی کی چادر تان لی ، اور جیسا کہ توقع تھی، اُن کی پارٹی نے بھی زبان کو زحمت دینے سے گریز کیا ۔ یہ حکمت ِعملی کارگر رہی ، سکوت تلافی مکافات کا آئینہ دار بن گیا ، اور پھر آج کل کے حالات میں کسی کو بدکلامی یا الزام تراشی کا ہدف بننے والے شخص سے معذرت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہوتی ، بس طوفان گزرنے کا انتظار کیا جاتاہے ۔

نعیم الحق کے الزام کو ’’یرقان زدہ بیان بازی‘‘(statementitis) کی ایک کلاسک مثال قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس یاوہ گوئی کاہدف ایک طرف تو قوم کے اعصاب تھے ، تو دوسری طرف الزام کی زد میں آنے والے سابق آرمی چیف کا کردار۔ تاہم یہ الزام کو ئی منظم آرکسٹرا نہیں تھا،اور نہ ہی اس میں کسی تال میل کی دھمک سنائی دیتی تھی،بس بے ہنگم گفتار کا شاخسانہ تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ نعیم الحق اس اصطلاح ’’یرقان زدہ بیان بازی‘‘ کے موجد نہیں، اور نہ ہی انہوں نے اسے اوج ِکمال تک پہنچایا ہے ، ہاں وہ اس کے ان گنت ’’صارفین ‘‘ میں سے ایک ہیں۔ اورپھر یہ ایک قدیمی بیماری ہے جس کا شکار ہونے والے افراد گمان کرتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کہہ لیں، اُنہیں کچھ نہیں ہوگا، وہ بچ نکلیں گے ۔ ہم نے گزشتہ چند ایک برسوں کے دوران ایسے بہت سے واقعات دیکھے ہیں، چنانچہ صرف ایک شخص کو ہی معتوب قرا ر دینا درست نہیں۔

اگرچہ یہ بیماری انتہائی سرعت کے ساتھ ہر سمت پھیل رہی ہے ، لیکن اس کا مومینٹم اس کے سرچشمے کو تلاش کرنے، یا اس کے اثرات کا جائزہ لینے کی ضرورت سے بے نیاز نہیں کردیتا۔ یرقان زدہ بیان بازی زیادہ ترعقل اور زبان میں مسلسل فاصلہ رہنے سے لاحق ہوتی ہے ، اور دعوے کا ثبوت دینے سے بے نیازی اسے مہمیز دیتی رہتی ہے۔ رہنماؤں یا اُن کے نمائندوں کو الفاظ کے استعمال میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن یہ ایک تھیوری ہے۔ عملی دنیا میں ہم اس کے برعکس دیکھتے ہیں۔ افسوس، ٹرمپ کے دور میں ناپ تول کر بولنا قیادت کا رہنما اصول نہیں رہا۔

نیا فیشن یہ ہے کہ پہلے بول لیں ، سوچنے کا تکلف بعد میں ہوتا رہے گا، وہ بھی اگر ضروری ہوا تو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زبان درازی سے سامنے آنے والے نتائج کا توڑ مزید زبان درازی ہی سمجھی جاتی ہے ،اور سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ ٹرمپ کی طرف سے اپنے مخالفین پر لگائے جانے والے الزامات میں اتنی ہی صداقت ہوتی ہے جتنی ڈائٹ ڈرنکس میں کیلوریز، لیکن وہ مسلسل حملے کرتے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا کو ٹرمپ ازم کا نشہ سا ہوتاجارہا ہے ۔ یہاں مسلسل بیان بازی کا کوئی مخصوص سیاسی ہدف نہیں ہوتا،بس یہ ایک عادت سی بن چکی ہے، اور سیاسی رہنما اکثر اپنا نقصان کرلیتے ہیں لیکن اس سے باز نہیں آتے ۔بسیار گوئی بہت جلد اُن کے فکری کھوکھلے پن کو عیاں کردیتی ہے۔ اس کے بعد وہ جارحانہ حماقت کے ارتکاب پر اتر آتے ہیں، چنانچہ وہ دنیا کی ہر چیز پر بیان بازی کرنا اپنا شعار بنالیتے ہیں۔ اس دوران سامعین جلدی اثر قبول کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن یہ اثرات مستقل نہیں ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ مارکیٹنگ کی دنیا میں ’’تھکاوٹ زدہ سامعین ‘‘ اور ’’گھائل شدہ ناظرین ‘‘ کو دیکھتے ہوئے مزید وارننگ کا اشارہ دیا جاتا ہے کہ اب ہاتھ ہولا رکھیں حتیٰ کہ انتہائی پرکشش اشہارات، جس میں ناظرین کے دل و دماغ کو موہ لینے اور چشم و گوش کی تازگی کا اہتمام کرنے والی ہر چیز ہوتی ہے، وہ بھی تسلسل کی وجہ سے بے کیف اور بوریت سے لبریز ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ صارفین کے رد عمل کا خیال رکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔

جہاں تک نعیم الحق کے دعوے کا تعلق ہے تو اس میں ایک مسئلہ ہے ، جو کہ اعادے سے پید اہونے والی اکتاہٹ سے کہیں بڑھ کر ہے ۔یہ دعویٰ انتہائی التباسی تصور پر مبنی ہے جو عقل تو کیا تخیل کی پرواز سے بھی ماورا ہے ۔ عقل حیران ہے کہ اُنھوں نے کیا سمجھ کر ایسا عجیب بیان پورے اعتماد کے ساتھ داغ دیا، اور یہ بھی نہ سوچا کہ سننے والوں کا رد عمل کیا ہو گا؟ جس یرقان زدہ بیان بازی کا میں نے ذکر کیا، یہ رویہ اس کی مکمل عکاسی کرتا ہے ۔ یہ سوچ رائے عامہ سے بے اعتنائی کا مظہر ہے کہ کہ اُن کی زبان سے ادا ہونے والا ہر لفظ بقراطی دانائی کا استعارہ ہوگا، اور ایسا کرناعوامی فہم کی توہین کے مترادف ہے ۔ یہ رویہ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے ۔ سامعین کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا اُنہیں اپنی بات سنانے اور اپنے موقف سے آگاہ کرنے کے لیے ضروری ہے ۔ جھوٹ اور من گھڑت بیانات کچھ دیر کے لیے تو کام دے جاتے ہیں لیکن کاٹھ کی ہنڈیا کا انجام معلوم۔ یہ درست ہے کہ سیاست بھی ایک طرح کی جنگ بن چکی ہے ، اور محبت اور جنگ میں سب کچھ جائزسمجھا جاتا ہے ، لیکن کچھ حربے استعمال کرنے والے کی طرف پلٹ کر اُسے گھائل کردیتے ہیں۔ اگر ہم سیاست کو تماشا نہیں بنانا چاہتے اور ہمیں ایسی یرقان زدہ بیان بازی کا تدارک کرنا ہے تواس کے لیے معاملہ فہمی اور سیاسی بصیرت درکار ہوگی۔ اگر سیاست دان ایسا کرنے پر قادر نہ ہوں تو فی الحال وہ خاموشی کو اپنا شعار بنائے رکھیں، اور اس دوران کان کھلے رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ اور مصنف