پاکستان سول ایوارڈز:اک تماشا سا بس رہا ہے میاں!

(ڈاکٹر غافر شہزاد)

دنیا بھر میں شہریوں کو ریاست کی طرف سے اُن کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف کے طور پر اعزازات دیے جاتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ایسا اعزاز ملنا باعث عزو شرف ہوتا ہے۔پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے گیارہ سال بعد اعزازات کا یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے ’’پاکستان سول ایوارڈ ‘‘کے عنوان سے ایک خط 1958 میں جاری ہوا جس میں چھ اقسام کے ایوارڈ دیے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ان میں’’ اعزازبرائے پاکستان، برائے شجاعت، برائے امتیاز، برائے قائد اعظم، برائے خدمت‘‘ اور’’ صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی‘‘ شامل تھے۔ ہر اعزاز کے مزید چار درجے متعین کیے گئے ۔ ترتیب نزولی کے اعتبار سے ’’نشان امتیاز‘‘ سب سے بڑا، اس کے بعد’’ ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز اورتمغہ امتیاز‘‘ شامل ہیں جب کہ ’ ’صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی‘‘ آرٹ، ادب، سائنس، کھیل اور نرسنگ کے شعبوں میں غیر معمولی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے۔ ناموں کی نامزدگی کا اعلان ہر سال 14 اگست کو جب کہ اعزاز پانے والے افراد کو یہ اعزاز23 مارچ کو دیا جاتا ہے۔ان اعزازات میں نشان شجاعت، ہلال شجاعت، ستارہ شجاعت، تمغہ شجاعت، اور صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی کے ساتھ ایوارڈ یافتگان کو معقول رقم بھی دی جاتی ہے۔ صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی کے لیے ایوارڈ کی رقم پچھلے سال سے پانچ لاکھ سے بڑھا کر دس لاکھ روپے کر دی گئی ہے جب کہ شجاعت کے مختلف درجوں کے لیے اس سے بھی زیادہ رقم انعام کے طور پر دی جاتی ہے۔ ایوراڈ برائے شجاعت چاروں درجوں میں بہادری اور غیر معمولی حالات میں انسانی زندگیوں کو بچانے کے سلسلے میں خدمات پر دیے جاتے ہیں جب کہ دیگر درجوں میں اعزازت میڈیسن،انجنئیرنگ، ٹیکنالوجی، فلسفہ، تاریخ،تعلیم، ادب کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق پر دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری اداروں میں خدمات سرانجام دینے والے ملازمین اور غیر ملکیوں کو بھی ایوارڈ دیے جاتے ہیں جنہوں نے پاکستان کے حوالے سے کوئی اہم خدمات سرانجام دی ہوتی ہیں۔(1959) میں پہلا تمغہ برائے حسن کارکردگی مغربی پاکستان میں حفیظ جالندھری اور مشرقی پاکستان میں ڈاکٹر شاہین الدولہ اور کوی جسیم الدین کو دیا گیا۔ اس کے بعد یہ اعزازصوفی تبسم (1962)، شاہد احمد دہلوی، ابوالفضل (1963)، مولانا صلاح الدین احمد(1964)، رئیس احمد جعفری (1966)، عاشق حسین بٹالوی (1967)، احمد ندیم قاسمی (1968)، و دیگر اہل قلم کو دیے گئے۔
پاکستان میں علمی و ادبی، سائنسی و تاریخی اور تعلیمی معاملات کے علاوہ غیر معمولی صورت حال میں انسانی زندگی کو بچانے کے لیے اپنی جان پر کھیل جانے والوں کی ستائش اور اعتراف کے لیے سرکاری اعزازت کا سلسلہ پاکستان میں صدر ایوب خان کے دور میں شروع ہو گیا تھا۔اس سرپرستی کی جڑیں انجمن ترقی پسند تحریک کے تخلیق کردہ ادب اور پھر 1952ء کے راولپنڈی سازش کیس تک چلی جاتی ہیں۔ روس میں آنے والے انقلاب میں ادیبوں اور شاعروں کے متحرک اور فعال کردارکو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں یہ سوچا گیا کہ قلم کے ذریعے انقلاب آ سکتا ہے۔ اس وقت تحریک پاکستان کے نتیجے میں ملنے والی آزادی ہر کسی کے سامنے تھی۔تب واقعی اہل قلم کے ساتھ ساتھ حکومتی ایوانوں میں بھی قلم کے لکھے ہوئے لفظ کو تلوار یا گولی سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا۔اہل قلم کی سوچ اور ان کی حب الوطنی کے جذبے کی بظاہر ستائش کرنے مگر اصل میں ان کے قلم کو رہن رکھنے کے لیے پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل ہوئی جس میں قدرت اللہ شہاب کا ایک مرکزی کردار رہا ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے ایک جانب افواج پاکستان میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت رکھنے والے ادیبوں شاعروں کو منظر عام پر لانے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا ،دوسری جانب نظریاتی اور تخلیقی سطح پر ادب تخلیق کرنے والوں کے ساتھ رابطے کیے۔ اس کے لیے ایک پلیٹ فارم کی ضرورت تھی جو پاکستان رائٹرز گلڈ کی صورت میں مہیا کر دیا گیا۔اب یہاں ادیبوں شاعروں کو سرکاری اعزازات دینے کے ساتھ ساتھ ان کی کتابوں پر انعامات دینے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔اس کو آدم جی ایوارڈ کہا گیا۔یہ بظاہر غیر سرکاری انعام تھا مگر اس کے پیچھے قدرت اللہ شہاب کی حکومتی سرپرستی میں کوششیں شامل تھیں۔’ فرشتے‘ ہر وقت ادیبوں شاعروں کے گرد منڈلاتے رہتے۔یہاں تک کہ ادیبوں شاعروں نے اپنے قریبی دوستوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا۔آدم جی ایوارڈ بلا شک و شبہہ خالص اور قدآور شاعروں اور ادیبوں کی کتابوں پر دیا گیا مگر اس کو عطا کرنے کے لیے کچھ اور مقاصد بھی زیر غور رہتے۔
آدم جی ایوارڈ (1959-60)عطا کرنے کے لیے پہلی تقریب پاکستان رائٹرز گلڈ کے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب کے زیر انتظام ایوان صدر میں ہوئی جہاں صدر پاکستان محمد ایوب خان نے اردو ادب کے لیے غلام عباس اور شوکت صدیقی جب کہ بنگالی زبان میں ادب تخلیق کرنے والے سید عبدالستار اور روشن یزدانی کو اپنے ہاتھوں سے انعام کی رقم 5000/- روپے فی کس کے حساب سے عطا کی۔رقم کے اعتبار سے آدم جی ایوارڈ کو ایشیا کا سب سے بڑا انعام قرار دیتے ہوئے قدرت اللہ شہاب نے اپنی تقریر میں صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایوان صدر میں صدر پاکستان کے ہاتھوں یہ ایوارڈ دینے سے ایک تو ایوارڈ کی تکریم قائم ہو گئی ہے اور دوسرا یہ کہ پاکستان رائٹرز گلڈ الگ سے تقریب کروانے کے اخراجات سے بچ گئی ہے(بحوالہ ڈان 3 جنوری2061ء)۔بیان کیے گئے ان ہی دو مقاصد سے آدم جی ایوارڈ کی قلعی کھل جاتی ہے۔آنے والے برسوں میں راشد کریم (1961)، محمد خالد اختر(1964) ، عبداللہ حسین (اداس نسلیں) شوکت عثمان (1966) ، میرزا ادیب (1968) کشور ناہید (1969)، پروین شاکر(1976) ،نذیر قیصر(1979)، ( احمد فراز(درد آشوب)، شہزاد احمد،امجد اسلام امجد، مشتاق احمد یوسفی، محمد اظہارالحق (1982)، اور کئی دوسرے ادیبوں شاعروں کو آدم جی ایوارڈ سے ان کی نئی شایع ہونے والی کتابوں کو نوازا گیا۔
آدم جی ایوارڈ کے ساتھ ہجرہ ایوارڈ بھی شروع کیا گیا تھا۔ یہ ایوارڈ زتو بند ہو گئے مگر ادیبوں شاعروں کی تمام توجہ صدر پاکستان کے سول ایوارڈ خاص طور پر صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی کی جانب ہو گئی جس کے ساتھ آج کل دس لاکھ روپے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ ایوارڈز کی نامزدگی کے لیے کیبنٹ ڈویژن ہر سال دسمبر میں صوبائی حکومتوں کے مختلف اداروں کے سربراہان،سیکرٹری اور کمشنر صاحبان کو خط لکھتی ہے۔ اس میں اعلان سے پہلے حکومت پاکستان متعلقہ شخص سے ایوارڈ وصول کرنے کی رضامندی بھی لیتی ہے اور اس کے ساتھ اس بات کی چھان بین بھی کرتی ہے کہ نامزد ہونے والا شخص ملک دشمن سرگرمیوں میں تو کسی حوالے سے ملوث نہیں رہا۔اس کے علاوہ سفارش کرنے والے ادارے نے اس بات کا حلفیہ بیان بھی جمع کروانا ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص کو پچھلے پانچ سالوں میں پاکستان سول ایوارڈ کسی بھی درجے میں نہیں دیا گیا۔ ہر سال جب ایوارڈ کی نامزدگی کا اعلان ہوتا ہے ادب، آرٹ، فلم، ڈرامہ، صحافت کے شعبہ جات میں ایوارڈ پانے والوں کے ناموں پر لے دے ہوتی ہے۔ جو ایوارڈ ملنے والوں کے احباب میں شامل ہوتے ہیں وہ ایوارڈ کی نامزدگی میرٹ پر قرار دیتے ہیں جو مخالف ہوتے ہیں، وہ ہر سال اس موقع پر میرٹ کی دھجیاں بکھرنے کا رونا روتے ہیں۔ آصف علی زرداری صدر پاکستان تھے، تب نرگس سیٹھی اور رحمان ملک و دیگر افراد کو ان کی’’ خصوصی خدمات‘‘ کے عوض جب صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تو بہت لے دے ہوئی۔اس سال جب اکادمی ادبیات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کو ایوارڈ برائے حسن کارکردگی دیا گیا تو وہ ادیب شاعر جن کے سامنے اُن کی اکادمی ادبیات میں تعیناتی کے بعد کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں تھیں انہوں نے اس پر سخت اعتراضات اٹھائے مگر کب کسی کی سنی جاتی ہے۔ سب سے بڑا اعتراض تو یہی بنتا ہے کہ ایوارڈ دینے والی کمیٹی میں خود چیئرمیں اکادمی ادبیات بھی بیٹھے ہوتے ہیں مگر نئے آنے والے چیئرمیں اکادمی ادبیات کو یہ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔
پچھلے اور اس سال جن ادیبوں شاعروں کو خاص طور پر صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی دیا گیا، اُن پر ادب کے منظر پر موجود لوگوں نے اعتراضات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو ایک حد تک درست بھی ہے۔ مگر ایوارڈ دینے والے اداروں کے پاس ایسا کوئی پیمانہ فی الحال موجود نہیں کہ ناپ تول کر ناموں کی نامزدگیاں کی جائیں۔ ایوان صدر سے جاری ہونے والی انعامات کی فہرست میں اپنا نام ڈلوانے کے لیے ادیبوں شاعروں کی کوششیں سارا سال جاری رہتی ہیں۔ انعام دلوانے والے ادبی سرپرستوں کی جوتیاں چاٹی جاتی ہیں، ان کے لیے دعوتیں اور تقریبات کی جاتی ہیں، کتابوں کے نام انتساب کیے جاتے ہیں۔گروپ بندیاں کی جاتی ہیں، امید و یاس، جوڑتوڑ اور خوشامد کا یہ سلسلہ 14 اگست سے پہلے کیبنٹ ڈویژن میں ہونے والے اس اجلاس تک جاری رہتا ہے جس میں رواں سال کے لیے ناموں کی حتمی فہرست کی منظوری ہوتی ہے۔ کس کا گھوڑا کتنا بھاگا، کس کی رسائی کہاں تک تھی، کس کی سفارش میں کتنا دم خم تھا، اس کا پتہ چلتا ہے۔ پھر کئی دن تک مختلف مفروضوں اور اندازوں سے ایوارڈ یافتگان کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔اور تین چار مہینے اسی سرگرمی میں گزارنے کے بعد ایک نئی امید لے کر ادیب شاعر پھر اس دوڑ میں شامل ہو جاتے۔
ایوان صدر سے جاری ہونے والے ان اعزازات کا کوئی معیار مقرر نہیں ہے۔کسی کو غربت اور بیماری کی بنیاد پر مالی معاونت کے طور پر ایوارڈ کی یہ رقم دے دی جاتی ہے حالاں کہ اس کے لیے حکومت نے کئی خیراتی ادارے بنا رکھے ہیں۔ کسی کو یہ سوچ کر ایوارڈ دے دیا جاتا ہے کہ اس سے مستقبل میں کو ئی تخلیقی کام سر زد ہونے کا امکان ہے، حالاں کہ اِس بات کا کہیں امکان نہیں ہوتا، کچھ ایسے لوگوں کو بھی ایوارڈ دیے جاتے ہیں جن کی وجہ سے ایوارڈ کی توقیر میں ا ضافہ ہو تا ہے اور دو نمبر، غیر مستحق افراد خود کو اُن کے ساتھ بریکٹ ہو کر معزز محسوس کرتے ہیں۔کچھ حکومتی عہدوں پر ہونے کے سبب ایوارڈ پر ہاتھ صاف کر لیتے ہیں۔ کچھ اس لیے ایوارڈ حاصل کرتے ہیں کہ پتہ بھی تو چلے کہ وہ ادیب شاعر ہیں۔ کچھ ادبی سرپرست اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کے لیے اپنے چیلوں کو ایوارڈ دلوا کر احساس تفاخر میں ڈوب جاتے ہیں۔کچھ اپنے آپ کو اس لیے ایوارڈ دلوا لیتے ہیں کہ لوگوں کو پتہ چلا کہ ان کی ایوانِ صدر میں واقفیت یا رشتہ داری ہے۔ ایسے ادیب شاعر بھی ہیں کہ صوبائی سطح کی کمیٹی نے اُن کا نام مسترد کر دیا، انہوں نے غصے میں آ کر ایوان صدر سے براہ راست یہ ایوارڈ لے لیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ بے شمار ایسے ہیں جو برسوں منصوبہ بندی کرتے ہیں مگر ہر بار ان کی کوشش میں تھوڑی سی کمی رہ جاتی ہے۔
نوبل انعام سے لے کر صدارتی ایوارڈ تک نامزد ہونے والوں پر اعتراضات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔عالمی سطح پر ایوارڈ ایسے لوگوں کو بھی دیے جاتے ہیں جن کی شخصیت کا ایک ہیولہ تشکیل دے کر عالمی قوتوں نے کچھ کام لینے ہوتے ہیں۔مگر پاکستان کی سطح پر ایوارڈ کی نامزدگی بغیر کسی مناسب سسٹم کے ہونے کے سبب ہر بار کچھ نام ایسے آ جاتے ہیں کہ جو تمسخر کا سبب بنتے ہیں اور باقی لوگوں کو بھی مشکوک کر دیتے ہیں۔ اکادمی ادبیات کو چاہئے کہ وہ ایک ایسی فہرست بنائے جس میں ادیبوں اور شاعروں کے تخلیقی کام کو ڈاکیومنٹ کیا گیا ہو۔کم از کم ایسا
معیار مقرر کر دیا جائے کہ جو لوگ اس فہرست میں شامل ہوں، ان کو ہی یہ ایوارڈ مل سکیں۔پھر یہ دیکھا جائے کہ اس برس اس فہرست میں شامل کون سے ادیب اور شاعرزیادہ متحرک اور فعال رہے ہیں، اس برس ان کے ناموں کو زیر غور لایا جائے۔ ابتدائی طور پر نام زد ادیبوں شاعروں کے بارے میں خفیہ طور پر ان لوگوں سے رائے لی جائے جنہیں اس شعبے میں یہ ایوارڈ پہلے بھی مل چکا ہے اور جس ادیب شاعر پر زیادہ سے زیادہ لوگ متفق ہوں ، صرف اسے ہی اس برس ایوارڈ سے نوازا جائے۔ اکادمی ادبیات کے چیئرمیں خود ایوارڈ لینے کے بجائے ایسا کوئی معیار بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو ان کا نام زندہ رہ سکتا ہے۔