آؤ ہم تماشا دیکھتے ہیں

Syed Kashif Raza

آؤ ہم تماشا دیکھتے ہیں

ملک کی پُر امن سیاسی جماعتوں کے ہاتھ باندھ دیے گئے۔ ملک کے سابق صدر اور سابق وزرائے اعظم کو نہ صرف نظر بند کیا گیا، بَل کہ رہائی کے لیے ان کی امکانی کوششوں کی بھی تضحیک و تذلیل کی گئی۔

اس تذلیل سے تنگ آ کر ایک سابق صدر نے ضمانت کی درخواست کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ ایک سابق وزیرِ اعظم موت کے کنارے پہنچ گیا مگر اس نے حکومتی رعایات کی بھیک طلب کرنے سے انکار کر دیا؛ ایک اور اسیر سابق وزیرِ اعظم نے اپنا وکیل تک کرنے سے انکار کر دیا۔

اگر یہ چور ہیں تو دنیا کے دو سو ملکوں کا ریکارڈ نکال کر مجھے کوئی ایک ایسا چور نکال کر دکھا دیجیے جس نے ایسا کیا ہو۔


دوسرا زاویہ:

متفق علیہ دھرنا از، فرنود عالم


جب پُر امن سیاسی جماعتوں کو کونے سے لگا دیا گیا تو ایک مولوی تحریک لے کر اٹھا اور سیاسی خلا پُر کر گیا۔ اس کا بیانیہ میرا بیانیہ نہیں۔ یہ تو اس کی مہربانی ہے کہ جمہوریت کی بات کر رہا ہے، بڑی جماعتوں کو ساتھ لے کر چل رہا ہے۔ منجن تو وہ اپنا ہی بیچے گا اور اسے اس کا حق بھی ہے۔

اب ہم سے توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ ہم مذہبی منجن کے خلاف بولیں، خواتین کی عدم شراکت کے خلاف بولیں۔ ہم بولیں گے لیکن تمھاری فرمائش پر کیوں بولیں؟

میں سیکولر جمہوریت کا حامی ہوں مگر اس ریاست میں سیکولرز کی حیثیت سوتیلے بیٹوں کی ہے۔ سیکولرز کو space ملنا تو ایک طرف رہا، یہاں تو غیر مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی دبا دیا گیا۔

لاڈلے کو لانے کے شوق میں ہر لائن کراس کر دی گئی۔ اب پُر امن جماعتوں کو کارنر کرنے والے جو زبان سمجھتے ہیں اس میں ان سے معاملہ ہونے دیں۔

وی آر نو بَڈی، We’re nobody، آؤ ہم تماشا دیکھتے ہیں۔

پس نوشت:

(پر انسان دوست تحریک میں مقام رکھنے والے انگریز ادیب، ناول نگار و نقاد، ای ایم فورسٹر نے اپنے ایک انشائیے، On Tolerance میں بہت خوب بات کی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم سب سے محبت نہیں کر سکتے، لیکن ہمیں سب کے ساتھ چلنا ہوتا ہے، اور ہم برداشت تو کر سکتے ہیں۔ مدیر، ایک روزن)

(سو) رابعہ عدویہ نا منظور؛ پاکستان مصر نہیں اور نہ اسے ہونا چاہیے۔ مذہبی اور سیکولر جماعتوں کے درمیان جیسی خونی لکیر مصر میں حائل رہی ہے، ویسی پاکستان میں حائل نہیں۔ طالبان تشدد کے دور میں ایک امیرِ جماعت کے سوا تمام معروف مذہبی جماعتوں نے طالبان کو مسترد کیا۔ اس لیے پاکستان میں رابعہ عدویہ جیسے کسی واقعے کی خواہش رکھنے والوں کو مسترد کر دینا چاہیے۔

جمہوریت کے ایک نُکتے پر پاکستان کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں متحد و متفق ہیں۔ آئین اور جمہوریت کی بَہ حالی کی جد و جہد میں سیکولر اور مذہب پسند سب شریک رہے ہیں۔ ایک مضبوط قوم معاشرے کی متنوّع خواہشات کو ساتھ لے کر ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔

از، سید کاشف رضا 

About سیّد کاشف رضا 26 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔