جنگی ہتھیار اور گوشت کی اسلامی اور غیر اسلامی باس

Emran Azfar

جنگی ہتھیار اور گوشت کی اسلامی اور غیر اسلامی باس

از، عمران ازفر

پاکستانی عوام چند ماہ پہلے کیے گئے اپنے جذباتی فیصلے کے منطقی انجام کو مختلف سطحوں پر بھگت رہے ہیں۔ اس سارے سلسلے کی شکل کس قدر بھیانک ہو سکتی ہے اس حوالے سے کچھ بھی کہنا مشکل تر ہے۔

مُنھ میں خاک کہ آج لگ بھگ پونے دو ارب آبادی کے دو ملکوں کے زعماء آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کو بیتاب ہیں اور ایک طرف ایک وزیرِ اعظم ہے جس کا پس منظر شدید نفسیاتی پیچیدگی کے باعث عظیم انسانی محرومی سے بھرا ہوا ہے لہٰذا اسے اپنی سیاسی فتح ہر شے سے عزیز تر ہے۔

گو یہ فتح انسانوں جسموں کے بے جان دھڑوں کے قطب مینار تعمیر کر کے حاصل کی جائے جب کہ دوسری طرف ایک سادہ اور کم شعور یافتہ قوم کا ہاؤ ہو کرتا وزیرِ اعظم ہے جس کی بنیادی تربیت میں ہی اعتدال اور مکالمہ شامل نہیں ہے اور وہ اور ان کے نمائندگان ہر بات پر مُنھ سے جھاگ اڑانے لگتے ہیں اور خود فریبی کے ایسے جال میں مقید ہیں جس کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

آج ایک اور “دانشور” آفتاب اقبال کو کوئی سمجھائے کہ ہر صورتِ حال کی سنگینی کو پھبتی، لطیفے اور بھانڈ پن سے گوارا نہیں بنایا جا سکتا۔


مزید دیکھیے: جنگ ہے یا کج ادائی اور انا کی معبودیت کا لمحہ


کوئی ہمارے اس دانشور کو سمجھائے کہ قوم کے شعور کی تربیت کی جاتی ہے انہیں آنکھیں بند کرنا، دوسرے پر پھبتی کسنا نہیں سکھایا جاتا ساتھ ہی وہ چالیس منٹے دانشور آج کھڑے ہوں اور جس ابہام اور تفریق کا بیج انہوں نے بویا ہے اس کی تیار فصل اپنی اولاد اور عیال کے ذریعے کاٹیں مگر… ۔

یہ سب دانشوران اگے نہ بڑھیں گے بَل کہ اس کھلی جارحیت اور بربریت کو یہ بھانڈ اپنے محفوظ کمروں (safe homes) سے دیکھیں گے اور جگتوں اور لطیفوں اور بُھوں بُھوں سے موڑیں گے کہ یہ کب جانتے ہیں کہ ہتھیاروں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یہ ہتھیار مسجد مندر، مسلمان کافر، مرد عورت، بچے بوڑھے کو ایک شدت کے ساتھ گراتے مسمار کرتے اور فنا کرتے ہیں۔

یہ کب سمجھتے ہیں کہ ٹی وی چینلز پر چنگھاڑتے دانشور ان کا راستہ روک رہے ہیں یہ معصوم ہتھیار اخلاقی دائروں سے ما ورا ہوتے ہیں اور فوجی کیمپ، نشتر ہسپتال، زکریا یونیورسٹی، کمپری ہینسو سکول اور گٗل گشت کالونی میں زندگی کی جنگ لڑتے عام آدمیوں کو ایک رویے سے کاٹ ڈالتے ہیں کہ وہ گوشت کی اسلامی اور غیر اسلامی باس کی شناخت سے نا بلد ہیں۔

یہ وہ لُکن چُھپی ہے جس میں فتح کا تاج موت کے سر سجتا ہے جو مذاہب کی تفریق سے آزاد ہے اور اس کی یاد گاریں اجتماعی قبریں ہوتی ہیں۔

جناب عمران خان صاحب خدا را اس ملک کے عوام کا کچھ خیال کریں سماجی عمل میں تو آپ اور آپ کے “ماہرین” نا کام ہو چکے ہیں۔ مگر آج للکارنے اور دوسروں کو غلط کہنے کی بہ جائے مکالمے کا راستہ ہموار کریں۔ پوری دنیا کی توجہ اس مسئلہ پر مرکوز کریں اور عوام کو اس تیزابی جنگ میں مت جھونکیں۔

ہم مانتے ہیں آپ عظیم ہیں آپ ہی قائدِ اعظم ثانی ہیں آپ ہی ہمارے ملک کے وزیرِ اعظم ہونے کا حق رکھتے ہیں مگر اپنے لہجے میں نرمی لانے کے علاوہ خاص طریقہ اختیار کر کے خطے اور عالمی اقوام کو اس صورتِ حال سے آگاہ کریں ورنہ تاریخ اس کھیل کے کسی بھی کردار کو معاف نہیں کرے گی۔