کشمیر کیا سوچ رہا ہے؟

حسین جاوید افروز
حسین جاوید افروز

کشمیر کیا سوچ رہا ہے؟

از، حسین جاوید افروز

’’ہم لے کر رہیں گے آزادی،  ہے حق ہمارا آزادی۔” یہ وہ نعرہ ہے جو اس وقت جنت نظر وادی کشمیر میں پہلگام تا کپواڑہ اور راجوری تا سونمرگ کشمیریوں کے لیے اب یا کبھی نہیں کا استعارہ بن چکا ہے۔ لیکن ذرا رکیے۔  یہ 90کی دہائی کا کشمیر نہیں رہا جب عسکریت نے وادی میں ڈیرے ڈال دئیے تھے اور کشمیری حریت پسند 1987 کے ریاستی انتخابات میں بھارتی ایجنسیوں کی جانب سے کی گئی بدترین دھاندلی سے تنگ آ کر بزور شمشیر جدوجہد آزادی پر گامزن ہوچکے تھے۔ اب دلی سرکار کے  لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ پتھر بازوں کے ہاتھوں ہی اتنی زچ ہوچکی ہے کہ نہتے عوام پر شہروں میں اچانک فائر کھول دیتی ہے۔

تازہ ترین مثال ہمارے سامنے شوپیاں اور اننت ناگ کی ہے جہاں31 مارچ کو 17 کشمیریوں کو شہید کردیا گیا۔ جس کے بعد سے کشمیر وادی میں معمول زندگی معطل ہوچکے ہیں۔ تعلیمی ادارے مقفل ہوچکے ، سیاحتی سرگرمیوں ٹھپ ہوچکیں اور انٹرنیٹ سروس بھی غیر فعال ہوچکی ہے۔ کشمیر مکمل طور پر ایک فوجی چھاؤنی کا سا منظر پیش کر رہا ہے جہاں 6 لاکھ انڈین فوج ، سی آر پی ایف اور شکست خوردگی کے عالم میں دن رات سرچ آپریشن اور کرفیو میں غرق ہوچکی ہے اور ہر بیس کشمیریوں کے لیے ایک مسلح سنتری متعین کیا گیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نائن الیون کے بعد کشمیر میں عسکریت پسندی کا عمل سست روی کا شکار رہا اورکشمیر میں سیاحتی سرگرمیاں بھی روزافزوں دکھائی دینے لگی۔ گویا اب نئی کشمیری نسل ایک نئی سوچ لے کر پروان چڑھ رہی تھی۔

لیکن پھر 2008 میں امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین الاٹمنٹ کے معاملے نے وادی میں ایک بڑی احتجاجی تحریک کو جنم دیا۔ جس میں پھل والے سے لے کر ڈاکٹر،  وکیل سبھی طبقات آزادی کے نعرے پرامن طور پر لگانے لگے۔ مگر افسوس سرینگر کی بادامی باغ کنٹونمنٹ نے اس پرامن مظاہرے کا جواب بھی گولی سے دیا۔ یوں کشمیریوں کی نئی نسل کے دلوں میں بھی دلی کے خلاف نفرت تیزی سے سرائت کرتی گئی۔ جس میں وقت کے ساتھ اس وقت اضافہ ہوا جب شوپیاں میں دوخواتین کا ریپ کیا گیا اورجب افضل گورو کو پھانسی دی گئی۔ اس چنگاری سے آگ کے شلعے اس وقت مزیدبلند ہوئے جب جولائی 2016 میں برہان وانی جیسے سجیلے نوجوان کی شہادت ہوئی۔

ایک پرامن کشمیری احتجاجی سرگرمیاں روز بروز بھارتی فوج کے لیے عسکری کارروائیوں سے بھی بڑی آفت بن کر ابھریں۔ کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار کئی ہفتے جامع مسجد سرینگر مقفل کردی گئی۔ انڈین میڈیا نے ہمیشہ کشمیر کا دلکش منظر دکھانے کی سعی کی ہے جیسا شہر سرینگر جو کہ ڈل جھیل کنارے ہر شام ایک خوابیدہ جنت کا منظر پیش کرتا ہے۔ جیسا کہ پہلگام کے حسین سبزہ زار اور لدر دریا کی جولانیاں جہاں لاتعداد ہندوستانی فلموں کی عکس بندی کی گئی۔ لیکن ڈل جھیل کنارے ہی موجود حضرت بل کی درگاہ میں ہر جمعے کی نماز کے بعد کس شان سے کشمیری سرینگر کے گلی کوچوں سے نکلتے ہیں اور آزادی کے فلک شگاف نعروں سے ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔ اس کیفیت کی وجوہات کو کبھی نئی دلی اور بھارتی میڈیا نے جاننے کی کوشش نہیں کی۔ ہاتھوں میں پتھر  لیے اور سبز ہلالی پرچم تھامے یہ کشمیری بھارت سے گزشتہ 70 سال کا حساب طلب کرتے ہیں۔

بدلے میں انڈین فورسز شناخت پریڈ، کرفیو کے ذریعے کشمیریوں کو ہراساں کیے رکھتی ہیں اور یوں ان کی عزت نفس کو تار تار کرتی ہے۔ مشہور کشمیری رہنماء یاسین ملک کے بقول ’’کشمیر میں برہمن سامراج ہماری آزادی کے درپے ہے۔ یہ بھارت کے وردی والے بدمعاش ہم کشمیریوں سے ہمارے ہی علاقے میں شناخت پوچھتے ہیں؟ان کو کیا حق حاصل ہے ‘‘؟آج عالم یہ ہے کہ15اگست ہو یا 26 جنوری کو بھارت کا یوم جمہوریہ۔ کشمیریوں کے لیے یہ دن ایک یوم سیاہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں یوم جمہوریہ پر دلی میں راج پتھ پر بھارتی فوج کی پریڈ منعقد کی جاتی ہے اور ہر طرف ترنگے دکھائی دیتے ہیں تو وہاں سرینگر کے لال چوک میں ہو کا عالم ہوتا ہے۔ یہاں بھارتی افواج ، جموں کشمیر پولیس کے سخت پہرے تلے لال چوک میں ترنگا لہرایا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں کشمیری عوام قطعاٰ دلچسپی ظاہر نہیں کرتے۔ یہاں بھارتی فوج کے بھی دو رخ سامنے آتے ہیں۔ ایک جانب تو وہ پکڑ دھکڑ اور مسلسل گشت کی کیفیت میں رہتی ہے تو دوسری جانب وہ دکھاوے کے طور پر دور دراز کے کشمیری دیہات میں لوگوں میں ریڈیو ، موبائل فون تقسیم کرتی دکھائی دیتی ہے۔

اور ان کویہ احساس دیتی ہے کہ بھارت سرکار ان کے لیے مخلص ہے۔ نیز بچوں کے لیے مسکان کے نام سے فوج کے تعاون سے سکول بھی کھولے جاتے ہیں تاکہ کشمیری،  فوج کا دوسرا مہربان چہرہ بھی دیکھ سکیں۔ مگر یہ ڈھونگ جلد ہی اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے جب کپواڑہ سے گمنام قبروں کے طویل سلسلے ملتے ہیں۔ جب شناخت پریڈ کے بہانے کئی بیگناہ افراد کو لاپتا افراد میں تبدیل کر کے عقوبت خانوں میں بھیج دیاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک10 ہزار سے زائد کشمیری لاپتا افراد کے زمرے میں آتے ہیں۔ جن کے پیارے آج بھی ان کی گھر واپسی کے منتظر ہیں۔ اورجو لوگ خوش قسمتی سے رہا کیے جاتے ہیں وہ عدالت میں مسلسل حاضر ہوکر اپنے خلاف بنائے گئے بے بنیاد مقدموں کا سالوں سامنا کرتے ہیں۔ جنوبی کشمیر کے جنگلات بھرے علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے نام پر جس طرح بیگناہ جوانوں کو ہلاک کیا جاتا ہے اور گاؤں نذرآتش کیے جاتے ہیں اس پر انسانیت بھی کانپ جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہندوستان کہنے کو دنیا کی بڑی جمہوریت ہے مگر اس جمہوریت کی سرحدیں ہماچل پردیش اور پنجاب تک ہی ہیں۔

اس کے آگے جموں کشمیر میں بھارتی جمہوریت، دستور اور شخصی زندگی کا تحفظ کا احساس دم توڑ جاتا ہے۔ شائد کشمیر بھارتی فوج کے لیے ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جس کے ذریعے وہ بجٹ کا غالب حصہ عسکریت کوکنٹرول کرنے کے نام پر ہضم کرتی آئی ہے۔ مودی دور میں جہاں ہندوتوا کا زہر سارے انڈین سماج کو بیمار کر رہا ہے وہاں کشمیر میں بھی حالات مزید بگڑے ہیں۔ حال ہی میں ایک سابق ا نٹیلی جنس افسر دنیشور شرما کو کشمیر کے زمینی حالات جاننے اور تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد سے گفت وشنید کے لیے بھیجا گیا۔ لیکن تادم تحریر دکھاوے کی بنیاد پر کھڑا یہ مشن بھی بری طرح ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ نہ تو شرما کے پاس کشمیر کے تمام سٹیک ہولڈرزسے مذاکرات کرنے کا مینڈیٹ ہے؟اور نہ ہی ان مذاکرات سے سرچ آپریشنز کا سلسلہ تھم سکا ہے۔ جبکہ سب سے اہم یہ کہ دنیشور شرما ابھی تک کشمیری سیاسی اسیروں کی رہائی کے  لیے بھی کچھ نہیں کرسکے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ کشمیر کو اٹانومی دینے کے معاملے کو خود وزیر اعظم نریندرا مودی نے شہداء کے خون سے بیوفائی قرار دے کر گویا دنیشور شرما کی کوششوں کو غیر متعلق بنادیا ہے۔

بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کشمیر کے الجھے بحران کو حل کرنے کے لیے بھارتی حکمران و میڈیا سنجیدہ ہی نہیں ہے۔ جس کا واضح ثبوت حال ہی میں سپر اسٹار شاہد آفریدی کی جانب سے کشمیریوں کے جذبہ آزادی کے حق میں کیا گیا وہ ٹوئٹ ہے جس نے بھارت میں کھلاڑیوں سے لے کر دانشوروں تک کو آگ لگا دی ہے۔ ظاہر ہے بھارتی میڈیاکا شکست خوردگی سے بھرپوریہ رویہ تو مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے سازگار ماحول تراشنے سے تو رہا۔ میں جب گزشتہ برس وادی نیلم گیا تو کیرن کے مقام پر نزدیک سے مجھے مقبوضہ کشمیر کی دیہی زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ مجھے اس حقیقت کو جاننے میں ذرابھی وقت نہیں لگا کہ زندگی کی رعنائیاں اور تازگی پاکستانی کیرن میں بدرجہا اتم موجود تھیں جہاں مقبوضہ علاقے سے آیا مشہور کشمیری پشمینے کی شالیں ہوا میں لہرا رہی تھیں اور پھل فروش کشمیری لذید سیب سجائے بیٹھے تھے۔

ہر طرف چہل پہل کا سا سماں تھا۔ اتنی ہی زیادہ اداسی ، اور یاسیت کا ماحول مجھے دریا پار مقبوضہ کیرن میں دکھائی دیا۔ جہاں گاؤں کے بچے اورجوان ایک خوف کے ماحول میں سہمے سہمے قدم بڑھاتے گزر رہے تھے۔ گویا جیسے کوئی مسلسل ان کی نگرانی کر رہا ہو۔ نومبر سے فروری تک کشمیر وادی میں شدید موسم سرما کا راج ہر طرف ہوجاتا ہے جس کو چلائے کلان کہتے ہیں۔ گویا پیرپنجال سے لے کر اوڑی اور گریز وادی کے علاقے سفید برف کی چادر میں چھپ جاتے ہیں۔ یہ برفانی موسم سرما ایک عجیب سے آزار کا احساس دیتا ہے۔ لیکن اس کے بعد مارچ میں وادی نئے نئے پھولوں، گلیشئروں سے آتے چشموں اور زعفران کے شاداب کھلیانوں سے مہک اٹھتی ہے جس کے کنارے چنار کے حسین درخت تازہ ہوا سے جھوم کر اپنی شادمانی اور بہار کی آمد کا والہانہ اظہار کرتے ہیں۔  شائد اب کشمیر میں غلامی کا چلائے کلان بھی اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے اور آزادی کی بہار اپنے رنگ بکھیرنے کی تیاریوں کی آغاز کرچکی ہے۔ کیونکہ اس دلفریب باغیچے کی آبیاری کشمیریوں نے اپنے خون کی قربانی دے کر کی ہے اور قربانی کبھی رائیگاں نہیں جایا کرتی۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔