بے پناہ شادمانی کی مملکت ، از ارون دھتی رائے: ایک جائزہ

بے پناہ شادمانی کی مملکت ، از ارون دھتی رائے

بے پناہ شادمانی کی مملکت ، از ارون دھتی رائے: ایک جائزہ

تبصرۂِ کتاب: خضر حیات

ارون دھتی رائے کا نام ان کے پہلے ناول اور ان کی ٹی وی ٹاکس کی وجہ سے اگرچہ راقم کے لیے جانا پہچانا تو تھا مگر زیرِ مطالعہ ناول نے اس لکھاری کی سوچ کے تمام خد و خال مزید واضح کر دیے ہیں۔ ہمیں احساس ہوا ہے کہ یہ عورت تو بلا کی ذہین اور غضب ناک مشاہدے والی ہے۔ ارد گرد جاری صورت حال کا نقشہ اس تفصیل سے کھینچے گی کہ اس میں اگر پتاّ بھی ہل رہا ہے تو وہ بھی نظر انداز نہیں ہوگا۔ انتہائی باریک بینی اور اتنی ہی روانی اور آسانی سے منظرنامے کی جزئیات پیش کرتی آگے بڑھتی جائے گی۔

راقم کو جب پہلے پہل معلوم ہوا کہ یہ ناول کشمیر کے بارے میں ہے تو مجھے ہلکا سا یہ بھی لگا کہ ناول کے ذریعے ہم کشمیر کی وادیوں کی سیر کریں گے، کوہساروں کی ٹولیاں گنیں گے، صنوبر کے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھیں گے، برف کے نظارے کریں گے، یخ بستہ جھیلوں پر کشتیاں چلائیں گے اور یہ سفر ہر لحاظ سے مسرت سے بھرپور ہوگا مگر یہاں تو حالات ہی الٹ ہیں۔ یہاں ہر صفحے پر غصب کی لہریں دوڑ رہی ہیں اور ہر بیسویں لائن انسانوں کے ناحق بہائے جانے والے خون سے لتھڑی ہوئی ہے۔ کئی سالم صفحے تشدّد کی کاروائیوں سے مڑے تڑے ہیں اور اکثر الفاظ غیر یقینی فضاء قائم کرنے کے باعث بدحواسی کا شکار ہیں۔ کُل ملا کے اسی طرح کے مناظر ہیں اس ناول میں۔

ناول شروع میں ہی آپ کو پکڑ لے گا۔ سماج اور سماجی رویوں کی جراحی کا عمل ناول کھولتے ہی شروع ہو جاتا ہے اور جونہی آپ اس آپریشن تِھیئٹر میں پہنچتے ہیں آپ کو سمجھ آ جاتی ہے کہ اس جراحی کا سربراہ کوئی عام ڈاکٹر نہیں ہے، یہ اپنی نوعیت کا منفرد جراح ہے جو سب کچھ ادھیڑتا چلا جا رہا ہے۔ جسے اپنے مریض سے بے پناہ پیار ہے اور وہ کسی بھی سطح تک پہنچ کر اور کسی بھی حد تک جا کر اس کی جان بچانے کے سفر پہ چل نکلا ہے۔ کہیں کہیں ہمیں یہ بھی نظر آئے گا کہ یہ جراح اس کوشش میں ہے کہ مریض (مریض سے مراد ملکِ بھارت ہے، اسے بھارتی سماج بھی سمجھا جا سکتا ہے) کی اگر جان نہیں بھی بچائی جا سکتی تو کم از کم اس کی تکلیف کو کم کر دیا جائے اور پچھلی چار دہائیوں میں (1975ء سے موجودہ وقت تک) اسے پہنچنے والے گہرے زخموں پہ صرف مرہم رکھ کے آگے نہ بڑھ جایا جائے بلکہ پہلے ان زخموں کو کھول کر ان سے فاضل مادے نکال کر سٹیریلائزڈ آلات کی مدد سے ان کا منہ بند کیا جائے اور پھر ان کے ٹھیک ہونے کا انتظار کیا جائے۔

جیسا کہ وہ لکھتی بھی ہیں کہ ہمارے سماج میں نارمل حالات انڈے کی سفید جھلی کی طرح نرم و نازک اور باریک سطح کی مانند اپنا وجود رکھتے ہیں جو مرکز میں موجود عفریت کی زردی کو چُھپانے کے کام آتے ہیں۔ جب تک نارمل حالات کی تہہ کاٹ کر اندر موجود انتہاپسندی اور تنگ نظری کی زردی کو باہر نہیں بہایا جائے گا بیمار سماج کبھی صحت مند نہیں ہو سکے گا اور سماج میں جاری قتل عام تھوڑے تھوڑے نارمل حالات کے وقفے کے بعد دوبارہ دوبارہ شروع ہوتا رہے گا۔

واقعات نگاری

بھارت کی مذہبی، سیاسی، سماجی، معاشی، جغرافیائی اور فکری زندگی کو اپنے جہازی سائز کے کینوس پہ جس مہارت اور برجستگی کے ساتھ پینٹ کر دیا گیا ہے اسے ایک تاریخی دستاویز کے طور پر پڑھایا جائے گا۔ مصنّفہ نے اس ناول میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی، سکھوں کا قتل عام، بھوپال میں کاربائیڈ گیس کے اخراج سے ہزاروں کی تعداد میں مرنے والے عام لوگ (ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو جان سے تو بچ گئے مگر ان کی آنکھوں اور پھیپھڑوں میں لگی آگ نے انہیں اَدھ مُوا کردیا)، بابری مسجد کا انہدام اور رام مندر کی تعمیر کی کوشش، پھر امریکہ والے نائن الیون کا بھارتی رنگ روپ، گجرات فسادات، انا ہزارے کی بھول ہڑتال اور عام آدمی پارٹی کی پیدائش، گلوبلائزیشن اور دہشت گردی کی گلوبلائزیشن کے نظارے، چمکتے بھارت کی کھوکھلی ترقی، دہلی کی آلودگی، مسلمانوں کا قتل عام، کشمیر میں جاری خواہ مخواہ کی جنگ کا ایندھن بننے والے معصوم کشمیری، بستر کے جنگلوں میں جاری علیحدگی پسندی کی تحریک، مودی سرکار کا وزارت عظمیٰ تک کا سفر، بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجیحات اور سماج پر اس کے اثرات اور ایسے بے تحاشہ موضوعات جن پر آج بھارت میں زبان کھولنے کی قیمت جان دے کے چکانی پڑ رہی ہے ان سب ناسُوروں کی ٹھیک ٹھاک خبر لی ہے۔

بھارت کے حالات اور کشمیر کی موجودہ صورت حال کا اتنا واضح نقشہ اتنے قریب سے دیکھ کر بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ ایک ادیب کی آنکھیں، کان، زبان، دل اور دماغ عام لوگوں سے کتنے مختلف ہوتے ہیں۔ وہ کہاں کہاں سے دیکھتا ہے اور کہاں کہاں تک دیکھتا چلا جاتا ہے۔ عام دیکھنے والے کو صرف دیوار نظر آئے گی مگر ادیب کو دیوار میں لگی اینٹیں، ان کا اکھٹرا پلستر، میلا پینٹ، کمزور بنیادیں، اس کے پیچھے کا چھپا ہوا منظر اور پتا نہیں کیا کیا نظر آتا جائے گا۔ اگر حیرت کو بیان کرتا انگلی کاٹنے والا محاورہ میں یہاں استعمال کروں تو یہی کہوں گا کہ میں نے ارون دھتی رائے کے ہر ہر مشاہدے اور بیان پر پورا پورا ہاتھ ہی حیرت میں کاٹ کھایا ہے۔ اس کی سرچ لائیٹ کہاں کہاں پڑتی جاتی ہے بندہ حیرت کے غوطوں سے ہی باہر نہیں آتا۔

کشمیر میں کون کیا کر رہا ہے۔ بھارتی سرکار، انٹیلی جنس ایجنسیز، سیکورٹی فورسز، مجاہدین کے مختلف گروپس، عام شہری، مخبر، ایجنٹ، ڈبل ایجنٹ اور باقی چھپے ہوئے اسٹیک ہولڈرز کشمیر کی جنت کو کس طرح پامال کر رہے ہیں یہ سارے حالات بغیر کسی لگی لپٹی کے ناول میں کھُل کے لکھ دیے گئے ہیں۔ کشمیر کے حالات کو یہاں تک پہنچانے میں بھارتی سرکار کی عقل سے خالی پالیسیوں پر تنقید کرتا یہ ناول معلوم نہیں بھارت میں کس طرح چھپ گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کے حالات کی اس سے جامع منظرکشی کہیں اور نہیں کی گئی جو اس ناول میں کی گئی ہے۔

ادیب سچ میں معاشرے کا ضمیر ہوتے ہیں اور ارون دھتی رائے جیسا ادیب جہاں موجود ہو اس معاشرے کے پاس اپنی اصلاح کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی رستہ بچتا ہی نہیں اور اگر بالفرض کچھ دیر کے لیے یا کسی وجہ سے وہ (معاشرہ) پٹٹری سے اتر گیا ہو تو ارون دھتی رائے جیسے لوگوں کی موجودگی کے باعث اس معاشرے کی ساری توانائی اس بات پہ خرچ ہو رہی ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح پٹٹری پر واپس پہنچ جائے۔ کیونکہ ارون دھتی رائے جیسے لوگ ہی معاشرے کا ضمیر ہوتے ہیں اور اپنی لگاتار تنقید سے راستہ ہموار کرتے جاتے ہیں۔ ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں اکثریت اپنے حقوق سے ناواقف ہوتی ہے اور جنہیں اپنے استحصال کی وجوہات تک کا پتا نہیں چل رہا ہوتا، ایسی خاموش اکثریت کے لیے ارون دھتی رائے جیسی متبادل آوازیں اگر معاشرے میں موجود نہ ہوں تو سماج اور سیاستوں کے ٹھیکے دار پتا نہیں عوام کا کیا حال کر دیں گے۔ ارون دھتی ایسی ہی متبادل اور توانا آواز ہیں۔

زیرِ نظر ناول کشمیر میں جاری پروکسی وار کی حقیقت سے قریب تر تصویر کشی بلکہ فلم بینی پیش کرتا ہے مگر یہ صرف کشمیر کی کہانی ہرگز نہیں ہے۔ یہ تو بھارت کے اندر سرکار کی جانب سے کی جانے والی ساری زیادتیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ ماؤ نواز علیحدگی پسندوں کی تحریک جو کہ بستر کے جنگلوں میں جاری ہے اس کا بھی خلاصہ ناول میں موجود ہے۔ 1984ء میں بھارتی پنجاب میں سکھوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور جس کے متعلق ناول کا مرکزی کردار موسیٰ یسوی کہتا ہے کہ اُس کے لیے تاریخ کا آغاز ہی 1984ء سے ہوتا ہے، اس کے اشارے بھی ہمیں مختلف صفحات میں ملتے ہیں۔ بھارت میں ذات پات کے نظام کی الم ناکیاں جو انسان سے انسان ہونے کا بنیادی حق ہی چھین لیتی ہیں، ان کا بھی بیان موجود ہے۔ کرپشن کا عفریت، عالمی دہشت گردی کا گلوبل اور بھارتی ورژن، نریندر مودی کا ویژن، بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارنامے، مسلم مخالف غیض و غضب، ہندوتوا کا پرچار اور اس کے اثرات، روشن بھارت کی چادر تلے چُھپے بدحالی کے چیتھڑے اور معاشرتی ناہمواریوں سے متعلق ایسے کاٹ دار انداز میں بحث ملتی ہے کہ پوری تصویر اپنے واضح خدوخال اور بھدے رنگوں کے ساتھ آنکھوں کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔

عدم برداشت پر مبنی اس معاشرے جسے مصنّفہ ‘دنیا’ کا نام دیتی ہے اس میں ہیجڑوں کا مسکن ‘خواب گاہ’ اور انجم کا قبرستان میں قائم کردہ جنت گیسٹ ہاؤس ہی وہ اکلوتی جگہیں ہیں جہاں انسان کا انسان ہونا ہی دیکھا جاتا ہے اور مذہب، نسل، ذات، عقیدہ، جنس سب کچھ بے وقعت ٹھہرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اروندھتی رائے نے بھارتی سماج کو رہنے کے لیے ایک قبرستان سے بھی بُری جگہ قرار دے کر طنز کا وہ معیار قائم کیا ہے جس تک پہنچنا تو دُور کی بات، موجودہ دور کی بھارتی فضا میں ایسا سوچنا بھی جان گنوانے کے باعث بن سکتا ہے۔

کردار نگاری:

کردار نگاری کے فن میں یہ خاتون یکتا نظر آتی ہیں۔ کردار کی زندگی چاہے چار لائنوں جتنی ہے یا سو صفحات پر مشتمل، تفصیل اور اہتمام یکساں نوعیت کے ملیں گے۔ کردار کا تعارف پڑھ کر یوں محسوس ہوگا جیسے کتاب کے صفحوں سے ایک حقیقی وجود زندگی حاصل کرکے آپ کے سامنے تعمیر ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے ہاتھ میں پکڑے برش کا ہر اگلا اسٹروک کردار کے نین نقش مزید واضح کرتا جائے گا۔ میرا ان کے کرداروں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی سرسری تعارف نہیں ہوا بلکہ ہر کردار اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ مجھ سے ملا ہے۔ یہ نہیں ہوا کہ نام پتا بتایا، کردار سے اپنا کام لیا اور کسی اگلے صفحے کی اُداس سی لائن میں اسے زندگی سے آزاد کر دیا۔ نہیں نہیں بالکل بھی ایسا نہیں ہے۔ کرداروں کی تجسیم جس کاملیت کے ساتھ ہمیں یہاں ملتی ہے اس کی مثالیں بہت ہی کم کم ملیں گی (اور یہ جذباتی جملہ قطعاً نہیں ہے)۔

پہلا ہی کردار جس سے ناول کی جڑیں پُھوٹتی ہیں وہ ہے آفتاب یعنی انجم یا انجم یعنی آفتاب کا کردار جو اندرون دہلی کے شاہ جہان آباد شہر کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتا/ ہوتی ہے اور ایک اسی طرح کی زندگی اس کا مقدر بنتی ہے جس طرح کی زندگی ہم مبہم جنسیات والے لوگوں کو جینے دیتے ہیں۔ انجم جو کہ آفتاب کے طور پہ پیدا ہوئی تھی ایک ہیجڑا ہے اور اسی ہیجڑے کی نفسیات اور قبرستان میں اس کی بسائی گئی الگ دنیا سے ارون دھتی رائے نے علامتی طور پہ وہ کام لیا ہے جو میرے نزدیک اس کے ناول کا ماحصل ہے۔

انجم کے علاوہ اس کے والد جماعت علی کا کردار ہو، خواب گاہ میں زینب، نمو گورکھپوری، استاد کلثوم بی اور دیگر کردار ہوں، صدام حسین جو ایک دلّت ہے مگر اپنی اصل پہچان کو خود کے لیے ذلت سمجھتا ہے، آرکیٹیکچر کا کشمیری اسٹوڈنٹ موسیٰ یسوی ہو، ایک جذباتی طالب علم سے میڈیا پرسن بن جانے والا ناگا ہو، ایک اسٹیج ڈرامے میں گارس ہوبارٹ کا کردار نبھانے والا بپلپ داس گپتا ہو جو بعد میں بھارتی انٹیلی جنس کا حصہ بن جاتا ہے، میجر امریک سنگھ ہو، ایس پی پنکی ہو، کمانڈر گلریز ہو یا ٹارچر سیل میں پانچ منٹ کے لیے نمودار ہونے والا حجام ہو، ہر کردار ایک بھرپور پیکر ہے جو ناول کے مناظر کو تخیل کے پردے پر واضح طور پر فلمی صورت میں منعکس کرتا جاتا ہے۔

سب سے قابلِ ذکر کردار (جو میری نظر میں مرکزی کردار ہی ہے) آرکیٹیکچر کی اسٹوڈنٹ ایس تلوتما کا ہے جس میں جگہ جگہ مصنّفہ کی اپنی جھلک نظر آتی ہے۔ یہی وہ کردار ہے جو ناول کی جان ہے۔ ایس تلوتما کی شخصیت میں ایسا جادو ہے کہ وہ ان تینوں لوگوں کی زندگیوں میں، جو اس سے محبت کرتے ہیں ہر لمحہ بیک وقت شامل بھی ہے اور غیر موجود بھی۔ جس کی ذات کا جادو تینوں کو بدل کے رکھ دیتا ہے۔ جو ایک بے رحم دنیا کے سامنے مزاحمت کا استعارہ بن کے ناول کے صفحوں میں موجود رہتی ہے۔ جس کی کوئی ذات نہیں، برادری نہیں، خاندان نہیں، خاندانی ہس منظر نہیں۔ جس سے اگر پوچھا جائے کہ ‘ایس-تلوتما’ میں ایس سے کیا مراد ہے تو وہ نہایت رسان سے کہہ دیتی ہے ایس سے مراد ایس ہی ہے۔ (یعنی یہ کسی بھی طرح سے میرے خاندان، نسل یا برادری کی پہچان نہیں ہے)۔ جو شادی اس لیے نہیں کرنا چاہتی کہ ایک انسان کے طور پہ آزاد رہ سکے اور جسے مرنے کے لیے کسی کی اجازت نہ لینی پڑے۔ جس کی شخصیت میں ایسا اسرار اور ایسی گہرائی ہے کہ نہ کسی پہ کُھلتی ہے اور نہ کسی کو متاثر کئے بنا رہتی ہے۔ جن کے ساتھ سالوں گزارے وہ بھی کبھی اس کے اندر نہ جھانک سکے۔ جو سب میں شامل ہے مگر سب سے جُدا ہے۔ جو ہمیشہ سامنے والے کو اس کے چہرے کے پیچھے تک دیکھ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جس کی نگاہیں سیدھا اندر تک اترتی چلی جاتی ہے۔ جو کچھ نہ بول کے بھی سب کچھ کہہ جاتی ہے۔ جس کی دنیا ہی مختلف ہے۔ جو پیدائش سے ہی پہچان (آئیڈینٹٹی) کے مسئلے سے دوچار ہے۔ کون ہوگا جسے اس کردار سے محبت نہیں ہوئی ہوگی؟

منظر نگاری

ارون دھتی رائے کی دنیا میں دیواریں باتیں کرتی ہیں، سڑکیں شور مچاتی ہیں، شہر چیختے چنگھاڑتے ہیں، گرمی انگڑائیاں لیتی ہے، دھوپ چلتا پھرتا وجود ہے، مگر مچھ میٹنگ کرتے ہیں، چھپکلیاں لطیفے سناتی ہیں اور موسم کہانیاں سناتے ہیں۔ اکثر جگہوں پہ لگے گا کہ یہ کسی کہانی کا صحافتی زبان میں بیان ہے۔ ایک فیچر ہے جسے کسی سنڈے میگزین میں چھپنا ہے مگر پھر اچانک یہ پلٹا کھائے گی اور احساس کی اس سطح پر آپ کو چھوئے گی کہ رونگٹے کھڑے کر دے گی۔ کردار نگاری کے علاوہ مصنّفہ کی منظر نگاری بھی لائقِ تحسین ہے۔

کچھ اقتباسات ملاحظہ ہوں:

“جس لمحے میں نے اسے دیکھا، میرے وجود کا ایک حصہ مجھ سے جُدا ہوا اور اس کے گرد لپٹ گیا۔ یہ آج بھی اُسی طرح لپٹا ہوا ہے۔”

کشمیر میں جاری حالات کی منظرکشی جتنی بھرپور ہے وہ دل میں زخم بھی اتنا ہی گہرا لگاتی جاتی ہے:

“اس طرح شورش شروع ہوگئی۔ موت ہر جانب تھی۔ موت ہر شے تھی۔ کریئر۔ آرزو۔ خواب۔ شاعری۔ عشق۔ خود جوانی بھی۔ موت جینے کا بس ایک اور قرینہ بن گئی۔

قبرستان اُگ آئے، پارکوں اور چراگاہوں میں، چشموں اور ندیوں کے ساحلوں پر، کھیتوں اور جنگلوں کے سبزہ زاروں میں۔ قبروں کے کتبے زمین سے یوں اُگنے لگے جیسے چھوٹے بچوں کے دانت۔”

“قید خانے کھچا کھچ بھر گئے، ملازمتیں بھاپ بن کر اُڑ گئیں۔ گائیڈ، دلال، ٹٹوؤں کے مالک (اور ان کے ٹٹو)، دربان، بیرے، رسیپشنسٹ، برف کی گاڑیاں کھینچنے والے، سستے زیور بیچنے والے بساطی، گُل فروش اور جھیل کے کشتی بان مزید نادار اور خالی پیٹ ہوتے گئے۔

فقط گورکن تھے جنہیں ذرا بھی سکون نہ تھا۔ ہر وقت کام کام کام۔ اوور ٹائم اور نائٹ شفٹ کے لیے زائد اجرت کا سوال ہی نہیں۔”

؎ اب وہاں خاک اڑاتی ہے خزاں

پھول ہی پھول جہاں تھے پہلے

ناول کے اہم کردار مُوسیٰ یسوی کے الفاظ میں:

“آج کل، کشمیر میں، کوئی بھی، فقط اس لیے مارا جا سکتا ہے کہ وہ بچ کیوں گیا ہے۔”

بے پناہ شادمانی کی مملکت

علامتی انداز

انجم کے قبرستان یعنی جنت گیسٹ ہاؤس و کفن دفن مرکز کا وادیء کشمیر کی موجودہ حالت سے علامتی تقابل جتنا دل فریب ہے اتنا ہی تکلیف دہ بھی ہے کہ پورا کشمیر بھی ایک قبرستان ہی ہے جہاں جو مر گئے ہیں بس وہی زندہ ہیں کیونکہ جو جی رہے ہیں وہ تو مُردہ ہو چکے ہیں۔ بے پناہ شادمانی کی مملکت بھی جیتے جاگتے انسانوں سے دور ایک قبرستان میں ہی قائم ہو سکی جو انجم نے قائم کی ہے۔ ارون دھتی رائے کی نظر میں موجودہ سماج شادمانی سے خالی ہو چکا ہے اور اگر خوشی جیسی کوئی چیز اگر کہیں مل سکتی ہے تو وہ بس مُردوں کے بیچ میں ممکن ہے۔

سماج پہ طنز کا اس سے زور دار تازیانہ کوئی اور کیا ہوگا؟

غرض یہ کہ پورا ناول چند ایک ایسی بے چین رُوحوں کا قصّہ ہے جنہیں ایک ظالم دنیا کا سامنا ہے جس نے انہیں توڑ پھوڑ کے رکھ دیا ہے مگر وہ کسی حال میں ہمت ہارنے والی نہیں ہیں۔ ان شکستہ حال لوگوں کو پناہ صرف محبت اور امید میں ملتی ہے۔ ایک طرف یہ ایک محبت کی داستان ہے تو دوسری طرف ہولناکی کی اور تباہی کی۔ بھارتی دائرہ اختیار میں شامل ایسے علاقوں کی کہانی ہے جہاں جنگ ہی امن ہے اور امن جنگ۔ بھارت اور کشمیر کی حالیہ صورت حال کا خوب صورت نقشہ ناول کے صفحوں میں لپٹا ہوا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک معیاری ناول ہے جس کا لکھنا کسی عام لکھاری کے بس کی بات نہیں تھی، ایسا صرف ارون دھتی رائے ہی لکھ سکتی تھی۔

وہ ناول میں لکھتی ہیں:

How to tell a shattered story?

By slowly becoming everybody.

No.

By slowly becoming everything.

اس ناول کا موضوع تو قابلِ داد ہے ہی کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں میں کشمیر کے موضوع پہ لب کشائی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ارون دھتی رائے نے ممنوعات کے جوہڑ میں نہ صرف پتھر پھینکا ہے بلکہ اس میں کود بھی گئی ہیں۔ ناول کے موضوع کے علاوہ اردو زبان میں اس کا ترجمہ بھی بے حد لائقِ تحسین ہے جو دہلی یونیورسٹی میں اردو ادب کی پروفیسر محترمہ ارجمند آرا نے کیا ہے۔ مجھے اس ناول کا مطالعہ کرتے ہوئے شدید احساس ہو رہا تھا کہ کوئی ہمارے ملک کے پل پل بدلتے حالیہ حالات کو بھی اپنی تحریر میں سمو دے جس میں تمام انگڑائیوں کا ذکر بالترتیب کر دیا جائے۔ اخبار ٹیلی ویژن کی خبریں ہمیں آج سے متعلق باخبر رکھ سکتی ہیں مگر ان میں وہ صلاحیت نہیں کہ پوری صورت حال کا مجموعی جائزہ ہمارے سامنے رکھ سکیں۔ یہ کام ادب ہی کرتا ہے اور ادب میں بھی بہترین میڈیم ناول ہے۔ خدا کرے کوئی ادیب میری اس شکایت کو سن لے اور آبادی کے ایک بڑے حصے، جو نقشے کے مطابق پاکستانی کہلاتے ہیں، کے ذہنوں میں پیدا ہونے والی بے پناہ خالی جگہوں کو پُر کرنے کی سعی کر سکے۔

مزید دیکھیے: ارون دھتی رائے : ایک ناول لکھنے میں 20 سال کیوں لگے؟

میں ہر دردِ دل رکھنے والے اور کتاب دوست انسان کو صرف درخواست نہیں کروں گا کہ وہ یہ ناول پڑھے بلکہ میں مجبور بھی کروں گا کہ ضرور پڑھے اور جب تک اسے نہ پڑھے، اپنے پڑھے لکھے ہونے والے دعوے کو کسی سرد خانے میں رکھ دے۔ ارون دھتی رائے کو پڑھے بغیر ادب کا مطالعہ نہ صرف ادھورا ہے بلکہ غیر معتبر بھی ہے۔

آئیں اپنے اپنے مطالعے کو معتبر بنائیں!