کرفیو زدہ علاقے کی بیوہ سڑکیں

ںسترن احسن فتیحی
ںسترن احسن فتیحی

کرفیو زدہ علاقے کی بیوہ سڑکیں

سفر نامہ از، نسترن احسن فتیحی

کشمیر  ہندوستان کے نقشے پر سب سے اوپر نظر آتا ہے، اور کشمیر کی خوب صورتی کی کہانیاں ہماری زندگی میں بچپن سے ایسے شامل ہوتی ہیں کہ اسے ہم حقیقت سے زیادہ خواب سمجھنے لگتے ہیں، اور یہ ہمارے تخیّل میں یوں بس جاتا ہے جیسے بہت دور دراز علاقے کی  کوئی ایسی جگہ ہو جہاں پہنچنا نا ممکنات میں سے ہو۔

بچپن گزرنے کے بعد کشمیر تک ہماری رسائی آئے دن کی خبروں کے ذریعے ہوتی رہی۔ کشمیری لوگ ہمیں ہمارے علاقے میں مل جاتے ہیں۔ کہیں طالب علم کی شکل میں تو کہیں تجارت کرتے ہوئے۔ اسی لیے کشمیر کےسیب ہوں یا اخروٹ اور بادام، فرن اور شال ہوں یا زعفران، کانگڑی ہو یا قہوہ ہم تک بہ آسانی پہنچ جاتا ہے؛ اور کشمیر ہماری زندگی میں ہر جگہ اور ہر وقت شامل رہتا ہے۔

مگر جب جشن نسائی ادب میں اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجیز کے توسط سے کشمیر آنے کا دعوت نامہ ملا تو احساس ہوا کہ جو کشمیر ہم میں ہر وقت شامل ہے اس میں، میں پہلی بار شامل ہونے جا رہی ہوں۔ اب تک ہندوستان کے نہ جانے کتنے علاقوں کی سیاحت کر لینے کے بعد بھی کشمیر کی طرف رخ کرنے کا زندگی نے موقع نہیں دیا تھا۔ اس لیے کشمیر کے حوالے سے تصور میں جو چند تصویریں بہت گہری بنتی تھیں، وہ وہاں کی برفیلی چوٹیاں، مشکل ترین راستے، بہت زیادہ ٹھنڈ اور تمام وادی میں سرسراتی ہوئی ایک دہشت، اس تصور کو آئے دن کی خبروں نے بہت توانا کر دیا تھا۔

جس کی وجہ سے خوف کے سائے اتنے گہرے تھے کہ کشمیر کی خوب صورتی کا خیال دھندلا پڑ چکا تھا۔ مگر اس دعوت نے شوق کو مہمیز دی اور زمیں پر امیر خسرو کی بتائی ہوئی جنت کے نشان تلاش کرنے اور کرشن چندر کے بیانیہ میں درج رنگوں کو پرکھنے کے لیے  ہم نے یہ سفر طے کر لیا۔ جوبنات کی کشمیر شاخ کی تین رکن شبنم عشائی، نکہت فاروق نظر اور رخسانہ جبیں صاحبہ کی کوششوں سے ممکن ہوا۔

اس طرح بہت دور دراز لگنے والے اس علاقے میں ہم ہوائی جہاز سے صرف سَوا گھنٹے کی مسافت طے کر کے پہنچ گئے۔ ہماری میز بان خواتین شبنم عشائی اور نکہت فاروق نے تسلی دی تھی کہ ابھی موسم معتدل ہے اس لیے ایک ہلکی سی شال اور سویٹر کے علاوہ کسی اور تفکرکی ضرورت نہیں۔

اکیڈمی کی گاڑی میں ہم نو عورتوں کا مختصر سا قافلہ ہوٹل شہنشاہ کی طرف رواں دواں تھا۔ ان سڑکوں کے اطراف دوڑتے ہوئے مناظر سے دل نے پوچھا، کیا یہ ہی ’’کرفیو زدہ علاقے کی بیوہ سڑکیں ہیں،‘‘ میں عصر حاضر کی نظم گو شاعرہ شبنم عشائی کی  دھیمی دھیمی لو دیتی ہوئی نظموں میں ہمیشہ خود کو پگھلتا ہوا محسوس کرتی ہوں، اور اب میں ان نظموں میں چھپے درد کو اس علاقے میں تلاش کرنا چاہتی تھی۔

اس سیمینار کے لیے لکھے گئے اپنے مقالے کے لیے میں نے کشمیری شاعرات کی اردو شاعری میں جس احتجاج کو تلاش کیا تھا اس احتجاج سے اور اس درد و غم سے رُو بہ رُو ہونا چاہتی تھی، مگر درد تو دل کے نہاں خانوں میں چھپا ہوتا ہے۔ ان سڑکوں اور سر سبز وادیوں  پر تو خاموشی کے اَسرار کا پَردہ تھا۔ یہ وادیاں اپنی مسحور کن فضا سے آج بھی نو واردوں کا استقبال اسی خوش خلقی سے کرتی ہیں۔ اپنے زخم نہیں دکھاتیں۔

ہم سب نو واردان وہاں کے سر سبز و شاداب اور روح پرور فضا میں گم  جلد ہی ہوٹل شہنشاہ پہنچ گئی تھیں۔ وہاں پُر جوش استقبال تھا۔ آرام دہ کمرہ تھا۔ دریچے سے ڈل لیک کے مناظر تھے اور ہوٹل کے کینٹین میں گرم گرم کھانا تھا۔ اس آسائش میں بھلا غم کا گزر کیا ہوتا۔ آج کھانے کے بعد پورا دن میسّر تھا۔


متعلقہ: ایک کشمیری کا تصور ہندوستان یقینا آپ سے مختلف ہے  از، پروفیسر منوج کمار جھا

تباہی سے تباہی کی طرف از، نسترن احسن فتیحی


سیمینار اگلے دو دن ہونا تھا، ہماری میز بان نکہت فاروق نے کہا کہ “آج سے کچھ دنوں تک پوری مغلیہ سلطنت آپ کی دستِ رس میں ہے، کہ شہنشاہ آپ کا میز بان ہے اور جہانگیر آپ کا ڈرائیور ہے۔ اس لیے آپ لوگ کھانے کے بعد کشمیر کی سیر پر نکلیے۔‘‘

یوں محفل کو زعفران زار بناتے ہوئے اکیڈمی کی گاڑی اور ہماری میز بان خاتون کی ذاتی کار میں ہم سب شالیمار باغ کے لیے روانہ ہوئے اور اس دن معلوم ہوا کہ نکہت صرف اچھی شاعرہ اور فکشن نگار ہی نہیں ہیں بَل کہ وہ کار بھی بہت اچھی طرح ڈرائیو کرتی ہیں۔ ابھی ان کشمیری خواتین کی بہت سی خوبیاں آنے والے دنوں میں ہمارے سامنے آنے والی تھیں۔

شالیمار باغ ہماری منزل تھا۔ راستے میں نشاط باغ اور کشمیر یونیورسٹی کو دیکھنے کی خواہش دل میں دبانا پڑی کہ وقت کا خیال بھی رکھنا تھا۔ بس گزرتے ہوئے باہر سے ہی اس کا آرکیٹکچر دیکھ کر محظوظ ہوئے۔

شالیمار باغ سے ہمیں جلد نکلنا تھا تا کہ کچھ اور بھی دیکھ سکیں مگر یہاں اترنے کے بعد وقت کا خیال خام ہو گیا، اور یہاں ہم مغل سلطنت کے شان دار ماضی کی ایک جھلک پا کر ہی سب کچھ بھول گئے۔ شالیمار باغ کو شہنشاہ جہانگیر نے اپنی ملکہ نور جہاں کے لیے ۱۶۱۹؁  میں تعمیر کروایا تھا۔ یہ ڈل جھیل کے شمال مشرق سے ایک رُود بار کے ذریعے منسلک ہے اور دائیں کنارے پر سری نگر شہر واقع ہے۔ جموں اور کشمیر کے محکمۂِ سیاحت نے اسے بہت اچھی طرح سنبھال کر رکھا ہے۔

یہاں کھلے ہوئے خوش نُما پھول دل و دماغ کی ساری کثافتیں دھونے پر قادر ہیں۔ ہم اس باغ کے طویل سلسلے کو جو آگے بڑھتے ہوئے کچھ اونچائی پر واقع ہوتا گیا تھا، دوڑ دوڑ کر جہاں تک دیکھ سکتے تھے دیکھ آئے، اور ان حسین مناظر کو نظروں سے دل و دماغ میں محفوظ کر لائے۔

ہماری اگلی منزل حضرت بَل تھی۔ حضرت بل کی زیارت کشمیر پہنچنے کے پہلے ہی دن ہمارا نصیب ہوئی، اور یہ دن حضرت بل کے خوش گوار زیارت پر ختم ہوا، نظروں میں اس پاک مسجد کی سِحَر انگیز فضا کو سمیٹنے کی بھوک لیے ہم نے نمازِ عصر ادا کی۔ دل میں مُوئے مبارک کے تصور سے  رقت پیدا ہوئی۔ اور وہاں سے نکل کر مسجد کے قدموں کو دھوتی ہوئی ڈل کے کنارے جا کر غروب آفتاب کا مزہ لی۔

ایسی وارفتگی اس ماحول میں تھی کہ ہمارا وہاں سے نکلنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ مگر وقت کی بیڑیاں کون کاٹ سکا ہے۔ ہم ہوٹل واپس آگئے۔ دوسرے دن کی تیاری کے لیے کہ جس مقصد کے تحت یہ سفر در پیش تھا۔

۲۶  / ستمبر ۲۰۱۸؁:

آنے والے دو دن مصروفیت بھرے تھے۔ سیمینار کےپہلےدن کا ’افتتاحی اجلاس‘ میں علاقائی ادبی شخصیات سے متعارف ہونے کا دن تھا۔ پھر دوسرے  دو سیشن میں ہمیں اپنے اپنے مقالات پیش کرنے تھے۔ ہم تیار ہو کر اور ہوٹل شہنشاہ کے دربار ہال میں جمع ہو چکے تھے۔

بڑی گہما گہمی تھی۔ ساری نشستیں پُر ہو چکی تھیں۔ افتتاحی اجلاس میں ہم جن شخصیات سے متعارف ہوئے اس نے ہم سب کو ایک خوش گوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ یہ صرف کشمیر میں ممکن تھا اور یہ صرف ہماری میز بان خواتین کی ہمت کی وجہ سے ممکن ہوا تھا کہ ایک ادبی سیمینار کی ذمہ داری میں اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز کے ساتھ کارپوریٹ دنیا کی دو اہم شخصیات بھی شامل ہوئی تھیں۔

ہوٹل اور بینک جن کا نصب العین ہی معاشی فائدے سے جڑا ہوا ہوتا ہے، مگر اس کانفرنس کی مہمان نوازی میں اکیڈمی کے سیکرٹری ڈاکٹر عزیز حاجنی کے ساتھ ہوٹل شہنشاہ کے مالک  حاجی سعید اور جموں اینڈ کشمیر بینک کے کارپوریٹ مینیجر جناب سجاد بزاز پیش پیش تھے۔ ان کے اندر زبان و ادب کی اتنی گہری دل چسپی اور اس کے لیے کام کرنے کا ایسا جذبہ کارِ فرما ہو سکتا ہے، یہ جان کر اور دیکھ کر ہم سب  حیران بھی ہوئے اور خوش بھی۔

یہ حیرت بھری خوشی اس وقت اور دو بالا ہوئی جب اس پروگرام میں شرکت کرنے کے لیے آنے والی خواتین زندگی کے ہر دوسرے شعبے کی نمائندگی کرنے والی نظر آئیں، جس میں محترمہ نصرت اندرابی جو استاد، سماجی کار کن اور کئی اداروں کی سر پرست رہ چکی ہیں، محترمہ شفیقہ پروین (ماہر تعلیم اور شاعرہ)، ریٹائرڈ آئی اے ایس محترمہ نسیم لنکر، محترمہ غوث النسا جو جموں کشمیر کی پہلی خاتون جج (ریٹائرڈ)، اور ریٹائرڈ ڈائریکٹر کشمیر دور درشن محترمہ شہزادی سائمن، وغیرہ ذوق و شوق سے شامل رہیں، اور جشن نسائی ادب کے حسن کو دو بالا کر دیا۔

مرد حضرات کی موجودگی بھی اس کانفرنس کے وقار  میں اضافے کا سبب بنی۔ محترم شاعر جناب فاروق نازکی، پروفیسر جناب زماں آزردہ، مشہور و معروف افسانہ نگار جناب نور شاہ، شاعر اور ناول نگار جناب شفق سو پوری، جموں کشمیر ورلڈ فلم فیسٹیول کے ڈائریکٹر جناب مشتاق علی احمد خان، مشہور اسکرین پلے رائٹر ڈائریکٹر پروڈیوسر محی الدین مرزا وغیرہ نے جشن نسائی ادب میں شامل ہو کر خواتین تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی۔

اس کے بعد مقالے کے دونوں اجلاس بہت کامیاب رہے۔ کانفرنس کی کئی رپورٹ اب تک سامنے آ چکی ہیں۔ اس لیے میں اس سے گریز کرتے ہوئے اپنے سفر کی رُوداد کو آگے بڑھاتی ہوں۔

۲۶ /ستمبر:

چُوں کہ یہ ادبی سفر تھا اس لیے دو دن کے کانفرنس کا ذکر آنا نا گزیر ہے۔ دو دن جس جوش خروش اور خوش گوار تجربات کے ساتھ گزرے ۲۶  ستمبر کی صبح ایک نا خوش گوار اور مایوس کن خبر کے ساتھ نمو دار ہوئی۔ کہیں فائرنگ میں کسی نو جوان کی موت اور وادی میں چھ یا سات جگہ کرفیو نافذ ہونے کی خبر نے ہمیں کشمیر کے حالیہ حالات کے رُو بہ رُو لا کھڑا کیا۔

اب ہمارے ذہنوں سے مغلیہ دور کی شان  کا نشہ اتر چکا تھا اور ہم آج کے کشمیر کے حالات کے رُو بہ رُو تھے۔ آج کے اجلاس کی نا کامی کی فکر کے ساتھ ہم دربار ہال میں جمع تھے۔ ہماری میز بان خواتین بھی شبہے میں تھیں کہ ان حالات میں کوئی سیمینار میں کیوں کر شرکت کر سکتا ہے۔

اداس دل کے سا تھ پہلے اجلاس کی ابتدا کی  کوشش شروع ہوئی مگر اس سے پہلے کے اس کی شروعات ہوتی دربار ہال دیکھتے ہی دیکھتے اس میں شرکت کے لیے آنے والوں سے بھر گیا، اور ہمارا تعارف ان حالات میں جینے والوں کی اس ہمت سے ہوا۔ جسے ہم یہاں آئے بغیر کبھی نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ یہ سب یہاں کے ان نا مساعد حالات کے اتنے عادی ہیں کہ اسے خاطر میں نہیں لاتے۔ پروگرام میں شاعری کے سوز اور دلوں کے گداز نے سب کو خوب خوب رلایا۔

مجھے لگا کہ ملاقات اور گفتگو کے اس سلسلے نے ہماری رسائی دل میں چھپے درد  تک کرا دی ہے؛ وہ درد جو میں یہاں کی شاعرات کی شاعری میں تلاش کر آئی تھی۔ مگر اس درد کے با وجود ان کی ہمت سے پہلی بار متعارف ہو رہی تھی۔ یہاں کی لڑکیاں بہت تعلیم یافتہ اور مضبوط ہیں۔ غم کی شکل کوئی سی ہو، سب سے زیادہ متاثر وہی ہوتی ہیں: شوہر، بیٹا، باپ یا اپنی عزت۔ کسی کو  بھی کھو دینے کا خوف معمولی نہیں ہوتا مگر وہ نہ کہ ہر غم کا مقابلہ کرتی ہیں بل کہ دوسروں کی مدد کے لیے ہر وقت مستعد رہتی ہیں۔

میں ننھی سی افسانہ نگار رافعہ ولی کو اور پنک بینک کی امپلائی ریما کو کبھی نہیں بھول سکوں گی، رافعہ ولی نے ان حالات کا شکار لڑکیوں پر ایسا خوب صورت افسانہ پیش کیا کہ ہر کوئی عش عش کر اٹھا، اور ریما نے خواتین کے حالات اور جبر کا ذکر کرتے ہوئے اپنا دل نکال کر سامعین کے سامنے رکھ دیا، کشمیر کی موجودہ صورت حال میں ان کی جاب جاب سے زیادہ سوشل ورک ہے۔

پہلے دو دن، رات کے کھانے کے بعد ڈل کے کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے کچھ کشمیری نو جوانوں سے ملاقات ہوئی جو دور کے اپنے کسی گاؤں سے روز گار کے لیے رات کی تاریکی میں نکل کر آئے تھے اور اکا دکا سیاحوں کے سامنے اپنی معمولی سی گٹھری کا سرمایا کھول کر کم سے کم قیمت لگا کر اپنا سامان فروخت کرنے کی کوشش کر  رہے تھے۔ دن کی روشنی میں نکلنا ان کے لیے موت کا اندھیرا ثابت ہو سکتا تھا۔ اس لیے وہ اسی وقت اندھیرے کی چادر اوڑھ کر نکلتے۔ وہ اتنے خوب صورت تھے کہ انہیں صرف شاہ زادہ کہنے کا دل چاہتا تھا۔ لیکن ان کے تن پر معمولی لباس تھے۔

پر ان کا حسن کسی شاہی لباس کا مرہون منت نہیں تھا، ان نو جوانوں کی تعداد بہت تیزی سے کم ہو گئی تھی۔ یہ اپنے ہی ملک میں در بدر تھے۔ کیوں کہ یہ دو ملکوں کے اقتدار کی جنگ میں پس گئے تھے۔ ان سے کسی ملک کو کوئی ہم دردی نہیں تھی۔ ان کی تعلیم اور روز گار کی کسی کو فکر نہیں تھی۔ بل کہ یہ مظلوم  لالچ کے جبر کا شکار تھے۔ یہ زمین کی جنت کے مالک تھے اس لیے انہیں حسد کی نظر کھا گئی تھی۔

آج کے دن ہم چاہ کر بھی ڈل کے کنارے چہل قدمی کے لیے نہ نکل سکے۔ صرف کمرے کے دریچے سے ڈل کا دیدار کرتے ہوئے سوچتے رہے کہ کل کا دن تو ہم کشمیر گھومنے کے لیے رکے تھے مگر اب نہ جانے یہ ممکن ہو سکے گا کہ نہیں۔

دوسرے دن ہماری میز بان خواتین شبنم اور نکہت ایک نئی ہمت کے ساتھ کمر کس کر صبح صبح حاضر تھیں۔ پورا کشمیر بند تھا۔ اسکول اور بینک ہر جگہ چھٹی تھی۔ حالات کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں نے پروگرام میں کچھ تبدیلی کی اور بتایا کہ آج وہ ہمیں پری محل اور چشمہ شاہی کی سیر کے لیے لے جا رہی ہیں۔

آج اکیڈمی کی گاڑی ہمارے لیے موجود نہیں تھی کیوں کہ سیمینار کے فرائض انجام  دے کر وہ فارغ ہو چکے تھے۔ اب ان کا ایک ہی کام بچا تھا ہمیں ایئر پورٹ تک چھوڑنا۔ اس لیے اسے کل آنا تھا۔ مگر ہماری میز بان خواتین نے ہار ماننا نہیں سیکھا تھا۔ ان کی ذاتی کار تو تھی ہی اپنے روابط سے انہوں نے ایک بے حد مخلص اور انسان دوست شخص کو  اپنی اس کوشش میں شامل کیا۔ جن کے شامل ہونے سے سیر کا مزہ دو بالا ہو گیا۔

ہمارا قافلہ پری محل کے لیے نکل پڑا۔ جگہ جگہ پولیس ناکے کشمیر کی اس خوب صورتی کو داغ لگانے کے لیے کافی تھے۔ ایک جگہ ایسی بھی آئی جہاں سے گزرنے کے لیے کار سے اتر کر  سیکیورٹی چک کے لیے پیدل گزرنا ہوتا تھا۔ مگر ہمارے میز بان نے اپنی فہم سے ہمیں اس زحمت سے بچا لیا اور ہماری گاڑیاں سہولت سے نکل گئیں۔

ان چوراہے، نکڑ اور گلی سے گزرتے ہوئے میں یہ بات ذہن سے نہیں نکال پا رہی تھی کہ ان مقامات پر ہی متعدد بار معصوم لوگوں کو گولیاں  کھانی پڑی ہوں گی یا آنسو گیس اور زد و کوب سے گزرنا پڑا ہو گا۔ ڈاؤن ٹاؤن سے گزرتے ہوئے قدیم طرز کی عمارتوں اور لکڑیوں کی مُنَقّش در و دیوار سے جھانکتی ہوئی اداسیوں نےکان میں سر گوشی کی یہی وہ کرفیو زدہ علاقے کی بیوہ سڑکیں ہیں، جن پر دو ملکوں کی ضد میں معصوم شہیدوں کا خون بہا ہے اور ان بے گناہوں کے خون کا رنگ ان سڑکوں نے یہاں کے گُلوں کو بخش دیا ہے، اور اپنی مانگ سے زندگی کی کامرانیوں کا سیندور پوچھ کر بیوہ ہو گئی ہیں، اور ان سڑکوں کے کنارے زندگی جینے کا ڈھونگ رچاتی  سجی ہوئی دکانیں اپنی بے مائیگی پر نوحہ کُناں ہیں۔

بڑے بڑے فائیو اسٹار ہوٹل سناٹوں کی دہشت میں لپٹے، ان اداس سڑکوں کے کنارے خالی پڑے ہیں، اور اپنی رونق کے لیے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔ ڈل جھیل کے سینے پر تیرتے رنگ برنگے شکارے اور خاموشی سے پانی کی سطح پر اِیستادہ ہاؤس بوٹ بھولے بھٹکے آئے ہوئے سیاحوں کی طرف اپنی اداس آنکھوں سے دیکھتے اور خود پر منحصر کرتی زندگیوں کے لیے فریاد کرتے نظر آتے ہیں۔ بادام، اخروٹ اور سیب کاشت کرنے والے اور سونے و چاندی کے تاروں سے فرن  پر کشیدہ کرتے ہاتھ زر سے خالی ہیں۔ اب وہ کوئی دہشت گرد ہو یا محافظ دستے انہوں نے یہاں کی زندگی کو تاراج کر کے رکھ دیا ہے۔ یہاں کی عوام اپنی زیست کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے، بزرگوں کی اس بستی سے اپنی خالی آنکھوں میں سوال لیے پوچھ رہا ہے کہ آخر ہمارا قصور کیا ہے۔