مالی تفاوت

Naseer Ahmed, the writer

مالی تفاوت

از، نصیر احمد

ہم سوچ رہے تھے کہ دنیا میں احساس کمتری بڑھ گیا ہے۔ کل ہی ہم نے کسی کے ہاتھوں میں ایک چمکتا دمکتا آئی فون دیکھا، ہمارا دل تو وہیں ڈوب گیا، دورے پڑھنے لگے اور دو تین دفعہ ہم بے ہوش بھی ہوئے، ہر بے ہوشی کے بعد ہمارا یہی سوال تھا کہ اس گنوار کے ہاتھوں میں آئی فون؟ قرب قیامت کی نشانی، وقت استغفار ہے، دھرتی کی کایا پلٹ گئی ہے۔

ایک تو ہم کوئی سنجیدہ بات کر ہی نہیں سکتے لیکن ہمارے اندازے میں یہ آمریت، نفرت اور اقلیت دشمنی کی طرف بڑھتے رجحانات احساس کم تری کا ہی نتیجہ ہیں کہ احساس کم تری کے ہی نتیجے میں ہی فرد کو اس قسم کے قلعے چاہیے ہوتے ہیں جو اس کو اس کی بناوٹوں کے جواز فراہم کریں۔ اور یہ بناوٹیں بھی احساس کم تری کا ہی نتیجہ ہوتی ہیں جن کے جواز نفرت سے لیے جائیں۔ اور یہ جوشیلا سا چھچھورا جو بہت سارے جگہوں پر حکم ران ہے، وہ بناوٹوں اور نفرتوں کا نتیجہ ہے جن کا ماخذ احساس کم تری ہے۔

ہمارے اندازے میں یہ عام احساس کم تری بڑھتی ہوئی مالی تفاوتوں کا نتیجہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق یورپ کے پاس عالمی دولت کا 32 فیصد ہے اور بھارت کے پاس عالمی دولت کا ایک فیصد۔ اور بھارت کی آبادی یورپ سےکافی زیادہ ہے۔ یعنی ایک طرف اشیا کا لطف اور دوسری طرف اوم جے جگدیش ہرے، اب بھگوان کتنے ہی شکتی شالی ہوں، ایک دفعہ تو دل ھم ھم کرتا ہے۔

دوسری طرف اوکسفیم ( ایک عالمی فلاحی ادارہ) یوں رقم طراز کہ دنیا کے 85 آدمیوں کے پاس دولت دنیا کے سآڑھے تین بلین غریبوں جتنی ہے۔ اب جتنی مرضی دفعہ مشیتِ ایزدی دفعہ مشیت ایزدی پر تکیہ کریں، ایک دفعہ تو گلا بیٹھ ہی جاتا ہے۔

اس عدم مساوات کے بہت سارے نتائج ہیں، ان بہت سارے نتائج میں سے احساس کم تری اور تصنع نہ صرف عدم مساوات کے نتائج ہیں بل کہ اس کی وجوہات بھی۔ زندگی میں خود غرضی کو ترقی کی اساس اور مقصد قرار دے کر لالچ کو اس قدر آزاد کر دیا ہے کہ خرد، قوانین، ہم دردی ، حقوق اور دور بینی جیسے اوصاف کا انسانی خامیاں بن گئے ہیں اور جب آپ ان اوصاف سے بے صفت ہو جا ئیں تو آپ بہ طور انسان احساس کم تری کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس احساس کم تری کے زیر اثر آپ خرد، قوانین، ہم دردی، محبت، حقوق اور دور بینی کی مسلسل توہین کو ایک ایسا رویہ بنا لیتے ہیں، جو دولت حاصل کرنے میں آپ کا بہت مدد گار ہوتا ہے لیکن آپ کی انسانیت بھی مجروح کرتا جاتا ہے۔ اس درد کا درماں آپ شیخ شہر جیسی بناوٹوں میں ڈھونڈتے ہیں۔

میری امارت میری محنت اور عطیہ خدا وندی کا شاخسانہ اور میری دریا دلی اسی احساس تشکر کی گواہی ہے۔( بعض افراد کے مال و دولت کے پیچھے یہ باتیں سچ بھی ہو سکتی ہیں لیکن معاشی نظام اگر لطف و عدل پر مبنی نہ ہو تو ذاتی اچھائی نظام کی بہتری پر بہت زیادہ اثر نہیں ڈال سکتی)۔

میں قوم کا خادم ہوں اور یہ ساری اشیا جن سے یہ لطف اٹھاتے ہیں میری خدمت کا پھل ہیں۔( قانون کی خلاف ورزی یا دوسروں کے معاشی حقوق مجروح کرنے سے قوم کی یہ خدمت بھی ایک بناوٹ ہی بن جاتی ہے)۔

میں امت کا محافظ ہوں اور میری قربانیاں بے پناہ ہیں( لیکن اگر امت بھوک سے بلکتی، ایڑیاں رگڑتی پائی جائے تو قوم کا تحفظ بھی تصنع کا تصویر کش ہو جاتا ہے)۔

اور یہ احساس کم تری ایک بہت بڑے سکیل پر پھیل جاتا ہے۔ کہ دولت مند کی پیروی ایک ایسا جذبہ ہے جس سے دولت کے خواہش مندوں کا رشتہ بہت گہرا ہوتا ہے۔ اور دولت مند اپنی دولت بڑھانے کے لیے اور مالی تفاوتوں کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے مذہب و ملت اور رنگ خون جیسی سماجی اور حیاتیاتی اتفاقات اور انتخابات سے ایک جوشیلی اور چھچھوری نفرت متعلق کر دیتے ہیں۔ اور یہ جوشیلی اور چھچھوری نفرت احساس کم تری کو مسلسل مضبوط بناتی رہتی ہے اور انسانوں کی خصلت کے مثبت پہلوؤں کو کھوکھلا کرتی رہتی ہے۔

اور اس کے نتائج، مودی، اردوان، ٹرمپ، پوٹن اور ناتھن یاہو جیسے حکمرانوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی صورت میں رُو نما ہوتے ہیں۔

مالی تفاوت، احساس کمتری اور نفرت میں مسلسل اضافے کے ہولناک نتائج ہم بیسویں صدی میں سہہ چکے ہیں اور تھوڑے سے وقفے کے بعد اسی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔

ہم کوشش تو کرتے رہتے ہیں کہ انسانیت کا احساس کم تری کم ہو، احساس کم تری کم ہو گا، تو نفرت میں کمی آئے گی اور نفرت میں جب کمی آئے گی تو مالی تفاوتوں میں کمی لانے کی صلاحیت بھی بڑھ جائے گی۔