جنگ ہے یا کج ادائی اور انا کی معبودیت کا لمحہ

Rozan Social Speaks
ایک روزن سوشل

جنگ ہے یا کج ادائی اور انا کی معبودیت کا لمحہ

از، ایک روزن رپورٹس  

رفیع اللہ میاں:

پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں مجھے ناول نگار سید کاشف رضا کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ ہم اپنے دوستوں کو ناراض نہیں کر سکتے۔ سیاسی، نظریاتی اختلافات کا اس ملک میں معاملہ یہ ہے کہ عمومی طور پر لوگ ’نظریے‘ کی بحث کا علم نہیں رکھتے۔ سیاسی اور نظریاتی اختلاف خوف ناک حد تک سطحی نوعیت کا ہے۔

چُناں چِہ اختلاف رکھنے والے خود تھالی کے بینگن کی طرح ادھر ادھر لڑھک رہے ہوتے ہیں اور انھیں تھالی کا بینگن بننے کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔ ایسے پسِ منظر میں ٹھوس اور واضح ویوز رکھنے والے دوستوں کو اپنی بات دوسروں کو سمجھانا سخت مشکل ہو جاتا ہے۔ بات ایک کی جاتی ہے اور مطلب دوسرا لیا جاتا ہے۔

اب جب کہ خطے پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے ہیں، تو نظریات کی جنگ کو پسِ پشت ڈال کر دوست احباب مطالبہ کرتے ہیں کہ اس نازک موقع پر اس مؤقف کی حمایت کی جائے جس کی مخالفت کرتے آ رہے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ ہم یہ بھول جائیں کہ حالات کو اس نہج تک کیسے لائے گئے؟

حالات کو نازک موڑ پر لانے والے کون ہیں؟ عوام کو ایسے نازک حالات میں پاگل پن کی حد تک جانے والے تباہی و بربادی کے نعرے کون دیتا ہے؟

یہ تو واضح ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہ ضرور ممکن ہے کہ جنگوں کو اپنی قوت بنانے والے تاجرانہ مکارانہ ذہن کے ہاتھوں ایندھن بننے والے مزدور سپاہی کے ساتھ وقتی ہم دردی کی جائے۔ یہ منظر نگاہ میں لا کر دیکھیں، کہ بھارت کی جانب سے حماقت کی انتہا کیے جانے کے نتیجے میں پائلٹس کو حکم ملتا ہے کہ دوسرے ملک کی سرحد میں گھس کر موت بانٹ کر آ جائے۔

یہ سپاہی بھی تاجرانہ مکارانہ ذہن کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ اور پاک فضائیہ کا وہ سپاہی بھی جو در انداز کو اس کے مقصد میں کام یاب نہیں ہونے دیتا اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری کام یابی کے ساتھ ادا کر لیتا ہے۔ کیوں کہ جب اسے حکم ملتا ہے تو وہ اپنے ہی علاقوں میں بھی بم باری سے، اپنے ہی لوگوں کو مارنے سے نہیں چُوکتا۔

پھر بھی، ہم اس وقت ایک ایسی پوزیشن میں ہیں کہ پڑوسی ملک ہر طرف سے گھسنے اور جارحیت کے لیے تڑپ رہا ہے۔ اس کی شر انگیزی اس وقت عروج پر ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ خطہ جنگ کے بھیانک شعلوں میں گِھر جائے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اگر بھارتی پائلٹس کی کارِ روائیاں کام یاب ہو جاتیں، تو انسانی جانوں کے فوری نقصان کے علاوہ یہ جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے کا کام کر جاتیں۔

پاکستان پر بھی فرض ہو جاتا کہ با قاعدہ جواب کے لیے انڈین باؤنڈریز میں گھس جائے۔ اس تناظر میں کراچی سے تعلق رکھنے والے شاہین حسن محمود صدیقی کو میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں جس نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت سے شر پسند بھارتی در اندازی کے جوش کو مزید کچھ دیر کے لیے ٹھنڈا کر دیا۔

یاسر چٹھہ:

ڈیئر آپ نے خوب کہا۔ پر ایک کسی قدر سماجی نا خوب بات بھی سن لیجیے۔

یقیناً ہم اخلاقی مُعمّاتی لمحے اور دو راہے کے ذہنی جغرافیے میں ہیں۔ پر ایک بات فرما دیجیے کہ کہیں اگر دو بچوں کو کبھی لڑتے جھگڑتے دیکھا ہو تو فیصلہ کرنے میں کہ کس نے گالی دی، اور کس نے ہَتھ گولا کیا، کس نے پہل کی اور کس نے ردِ عمل دیا، تو کیا فیصلہ کر پاتے ہو؟

مجھ سے تو نہیں ہو پاتا۔ جنگ اور تشدد وہ دیوانگی ہے جس کی انائی تسکین بہت ہی کم عرصے کے لیے ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی جنگ کی اول اول اقساط کی کنٹرولڈ خبریں ہوتی ہیں۔

کچھ وقت گزر جانے پر کیا حاصل ہوتا ہے، صرف احساسِ زیاں اور اپنے فہم کے تعطل کے غیر زرخیز اور بانجھ وقفے کے احساس کے سِوا۔

آسانی کی راہ لیتے ہیں، مُعمَّہ اور دو راہہ آسانی اور یک سانئِ خیال میں بدلتے ہیں؛ بس کہتے ہیں کہ کشیدگی کو ختم کرنے کا کوئی بھی لمحہ درست ترین لمحہ ہی ہوتا ہے؛ اور کشیدگی کو بڑھانے اور تشدد کو شہ دینے کا ہر لمحہ ایک کجی کا لمحہ aberration ہی ہے۔

سب سے پہلے زندہ رہنے کی سوچیں، تا کہ بعد میں ہم زندگی کے مسئلوں کے لیے سوچنے کا وقت پا سکیں۔


مزید دیکھیے:  انسانی جان کی حرمت کا پاس  از، ڈاکٹر عرفان شہزاد


دنیا کا سب سے زیادہ militarized خطہ کشمیر ہے، اور اس پر زبر دستی کی بد نصیبی لادی گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت یہاں سے اپنی فوج کا انخلاء کرے، اور پاکستان “غیر ریاستی؟؟” عناصر کو ضبط میں لائے۔ اس کام میں مشترکہ دوستوں اور عالمی برادری کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔

کچھ وقت گزرے۔

پھر ہر دو طرف کے کشمیری قابلِ بھروسا بین الاقوامی سیکیورٹی کی موجودگی میں استصوابِ رائے کا بند و بست کرے۔ (اگر بین الاقوامی برادری خود کو دودھ کی رکھوالی پر مامور کسی بِلّے سے افضل سمجھ سکے تو از حد شکریہ)

اتنے سارے مفروضوں اور اچھی نیتوں کے مفروضے… ! تو اور کیا کریں پھر، اگر اچھے منظر، خوش نظر امکانات، اور دل کش خواب بھی نا دیکھیں تو…

یارانِ مَن، کشمیریوں کا کیا قصور ہے کہ ان کی خود ارادیت کی تحریک پر بھارتی ریاست کی سنگینیں بھی تَنی رہیں، اور انہی پر “غیر ریاستی” عناصر کی سیاہ رات کے سایے لمبے ہوتے رہیں۔

پچھلے کچھ دنوں بد قسمتوں میں سے، سب سے زیادہ بد قسمت امن خواہ حقِ خود ارادیت کے حصول کے حامی کار کن رہے ہیں۔ سیاست ہاری ہے، اور وحشت ننگا ناچ جیتی ہے۔