ہم جو پیدل چلے تو ہمارے سنگ … 

لکھاری کی تصویر
یاسر چٹھہ

ہم جو پیدل چلے تو ہمارے سنگ … 

از، یاسر چٹھہ 

ہم اپنے بچپن کو بَہ حال کرنے میں جذباتی نڈھال ہوئے رہتے ہیں۔ جب ہی تو ادب میں، صحافت میں، اشتہار سازی میں ناسٹیلجیا کسی سَستی اور تخَیّلی سُست تکنیک کے طور پر برتا، اور آخری حد تک نچوڑا بھی جاتا ہے؛ اور کچھ زیادہ حیرانی کی بات نہیں کہ یہ بِک بھی جاتا ہے، بَل کہ دھڑا دھڑ بِکتا ہے۔

ہمارا سَرد درد اپنے ماضی کو درست کرنے پر زیادہ ہی جُتا رہتا ہے؛ اور جو بے چارے سَمے باقی بچ رہیں، ان میں مستقبل کے موہوم وقت کے لیے ہمارا دماغ ارادے باندھتا رہتا ہے، لائحۂِ عمل کے دفتر کے دفتر بُنتا رہتا ہے۔ ارادے اور عمل کے لائحے یقیناً کچھ کرنے سے زیادہ دل کش و تغزل آموز ہوتے ہیں۔

یہ کہنی کہہ کر پھر وہیں سے بات جوڑتا ہوں کہ جہاں سے یہ سلسلہ ٹوٹا ہے۔ گزرے وقت کو پھر سے بَہ حال کرنا: اس بَہ حالئِ گزر شد میں سے بچپن کو واپس لانا کئی ایک ہوکوں، آسوں، حسرتوں کا موضوعِ سخن بھی ہوتا ہے، اور موضوعِ رونا دھونا بھی ہوتا ہے۔ وقت کی رِیل کو واپس گھمانے کے سلسلے میں بے بسی، خود ترحمی، self-pity کی اداس کر دینے والی کیفیت کو بھی جنم دیتا ہے۔

ہم بھی وہی ہیں، جو کئی ایک دوسرے تیسرے اور چوتھے ہیں، اور ہو سکتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی بَہ ظاہر عامیانہ سی روِش  اور عمل سے آپ کا یوریکا، eureka، لمحہ سامنے آن پڑتا ہے۔

ان میں سے ایک ایسا لمحہ راقم کو بھی بس ایسے ہی آتے جاتے مل گیا۔

بھلا کیسے؟

میری جائے روز گار و کار گاہ، workplace، گھر سے بہت زیادہ دور نہیں۔ ایسے ہی عمومیت کے زنگ کو اتارنے کی بہت ساری سبیلوں میں سے اچانک خیال آیا کہ جائے کار گاہ پیدل جایا جائے۔

زندگی کی یَک سانی میں خود اپنے عاملِ کار ہونے کا، نا چیز سا ہی، مگر ایک حیلہ ہو سکنے کا تو امکان تھا۔

سو، کامل کا تو مُلّاں رہ نما ہو گا، پر بوریتِ ہست و بود کا حیلہ اور وسیلہ ہی رَہ بَر ہوتا ہے … اب پچھلے دس دن سے جائے کار، workplace، پیدل آنے جانے لگا ہوں۔

جاتے اور آتے سَمے خود سے ملنے کا موقع سَوا ہو کر دست یاب ہونے لگا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی لگتا ہے کہ وقت اب میری اپنی رفتار سے ہم آہنگ ہو گیا ہے، بَل کہ لگتا ہے کہ بَہ غیرکسی شعوری کوشش کے اسے واپس گھمانے پر بھی قادر ہو گیا ہوں۔

ایسے لگنا شروع ہو گیا ہے کہ اپنے بچپن کو سدھار گیا ہوں۔ اس پرانے وقت میں سدھارنے میں کوئی رونی صورت، کوئی حسرت کی قوالی، کوئی آنسو نہیں ٹپکا۔ کسی ادیب کی سستی ناسٹیلجیائی تخیّلی ترکیب و تخلیق، کسی اشتہار ساز ادارے کی سُست اشتہار سازی کے تانگے پر بیٹھنا  بھی نہیں پڑا۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔