پیر بخشا! یہ وہی ملک خدا داد ہے ناں

پیر بخشا! یہ وہی ملک خدا داد ہے ناں

پیر بخشا!

او پیر بخشا!

پیر بخش: (احترام سے) جی چوہدری جی

چوہدری: او پیر بخشا یہ جو ہر جگہ لانگ مارچ کا چرچا ہے یہ کوئی نئی جماعت ہے کیا؟

پیر بخش: (مسکراتے ہوئے) نہیں چوہدری جی۔ یہ نئی جماعت تو نہیں؛ ہاں اسے جماعتوں کا مربّہ کہہ سکتے ہیں۔

چوہدری: (حیرانی سے) پیر بخش! سیب گاجر کا مُربّہ تو سنا تھا یہ جماعتوں کا مُربّہ کیا چیز ہے؟

پیر بخش: (شرارت سے) چوہدری جی یہ خاص مُربّہ کسی ملک کے حاکم اعلیٰ کے لیے تیار کیا جاتا ہے، تا کِہ بے حسی کی بیماری کا بَر وقت علاج ممکن ہو سکے۔

چوہدری: (آنکھیں پھاڑتے ہوئے) احقموں کی طرح کچھ بھی بَکتا نا رہا کر۔ اچھا یہ بتا اس کا اثر عام آدمی کی زندگی پر بھی ہوتا ہے کیا؟

پیر بخش: (آہ بھرتے ہوئے) چوہدری جی! کائنات کے سبھی رنگ انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ کبھی یہ ہنسی خوشی کی صورت انسان پر جھلکتے ہیں تو کبھی آہوں، سسکیوں، حسرتوں کی صورت اثر انداز ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم پہ کچھ ایسی چیزیں مسلط کر دی جاتی ہیں جنہیں نا چاہتے ہوئے بھی ہم قبول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جن کی بنا پہ المیے جنم لیتے ہیں۔ جو کسی قوم کا تشخص مسخ کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔

انہی المیوں میں سب سے بڑا المیہ غربت، بے روز گاری اور انسانی قدروں کا پامال ہونا ہے۔ عزتِ نفس سے محروم یہ قوم اپنی بے بسی کا ماتم تو منا لیتی ہے، مگر ظلم سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے سے قاصر ہے۔

رہی عام آدمی کی بات وہ تو یہ سب سہنے ہی دنیا میں آتا ہے۔ روز اک نئی امید لے کر، کاسہ اٹھائے چل دیتا ہے، اور ہر شام مایوسی کے امڈتے بادل بَہ آسانی اس کے چہرے پہ دیکھے جا سکتے ہیں۔

چوہدری: (آہ بھرتے ہوئے) پیر بخشا! یہ وہی ملک خدا داد ہے ناں جسے حاصل کرنے کے لیے تیرے اور میرے پُرکھوں نے جانیں دی تھیں، عزتیں گنوائی تھیں، مال و زر لٹایا تھا؛ اور آج ہم ایک قوم بننے کی بَہ جائے کس رستے پہ چل نکلے ہیں۔ جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو کاٹنے کے درپے ہے۔

پیر بخش: (چوہدری کے بازو دباتے ہوئے) چوہدری جی بچپن میں ہمارے ابا ہمیں بتایا کرتے تھے کہ کیسے ہمارے پُرکھوں نے اذیتیں برداشت کر کے یہ ملک حاصل کیا۔ شاید ہم آنے والی نسل کو وہ احساس منتقل نہیں کر سکے جس سے وہ ایک گرہ سے بندھے رہتے اور فرقوں، جماعتوں، ٹولیوں میں نا بٹ جاتے۔ ہم زندہ قوم ہوتے ہوئے بھی مُردوں کو عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔

چوہدری: (گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے) ہاں پیر بخشا! ہے تو یہ برہنہ حقیقت۔ آج بھی ہم اپنا قبلہ درست کر کے محبتوں کے امین بن سکتے ہیں۔ چل اب گرما گرم چائے پلا۔

پیر بخش: (آنکھیں صاف کرتے ہوئے) ابھی لایا چوہدری جی۔

از، منصور انجم