نیو لبرل ازم کے احسانوں پر کچھ گزارشات

aik rozan writer
شاداب مرتضٰی ، صاحبِ مضمون

نیو لبرل ازم کے احسانوں پر کچھ گزارشات

(شاداب مرتضیٰ)

جرمنی میں G-20 اجلاس کے درران سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مظاہروں پر سرمایہ دارانہ نظام کے بعض وکیلوں نے فرمایا کہ اظہار کی آزادی آپ کو ان ملکوں میں نظر آئے گی جنہیں آپ سرمایہ دار کہہ کر مطعون کرتے ہیں۔ گویا لوگ اگر اس انسانیت دشمن نظام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں تو یہ بھی اس کا عوام پر ایک احسان ہے! یہ اگر عوام کو احتجاج کا حق نہ دیتا تو اس کے ظلم اور ناانصافی کے ستائے لوگ بیچارے لب سی لیتے!

یہ احسان سرمایہ دارانہ نظام کے دفاع میں ایک عام لیکن اتنی ہی بودی اور لغو دلیل ہے جتنا خود یہ نظام ہے۔ یہ اس نظام کی پیدا کی گئی نفسیات، تعلیم اور ذہن سازی کی ہی ایک فکری پروڈکٹ ہے۔ یہ کس قدر درست ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے چند مثالیں کافی ہیں۔

امریکہ میں 1940 کی دہائی میں میکارتھی ازم کے تحت کمیونسٹ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی قید و بند اور 1954 میں بنایا گیا “کمیونسٹ کنٹرول ایکٹ” جس کے تحت امریکہ کی کمیونسٹ پارٹی کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور اس کی ممبر شپ کو جرم جس کی سزا 10 ہزار ڈالر جرمانہ اور قید تھی۔ انڈونیشیا میں پینل کوڈ میں ایسی دفعات شامل ہیں جن کے تحت لفظ “کمیونزم” کے استعمال پر یا کمیونسٹ آئیڈیالوجی کی تشہیر پر 7 سے 10 سال تک آج بھی قید کی سزا موجود ہے۔

برطانیہ، جرمنی،  فرانس، آسٹریلیا،  کینیڈا،  جنوبی افریقہ وغیرہ میں سرد جنگ کے دوران کمیونسٹ پارٹیوں پر، ان کے اخباروں اور رسالوں پر قانونی پابندیاں عائد تھیں۔ سول سروس میں کمیونسٹوں کی ملازمتوں پر  امریکہ اور جرمنی میں آج بھی پابندیاں موجود ہیں۔ 2015 میں یوکرین میں کمیونزم کے خلاف قوانین منظور کیے گئے جن کے تحت کمیونسٹ علامتوں کو استعمال کرنا، کمیونسٹ فکر سے تعلق رکھنا اور کمیونسٹ پارٹی قائم کرنا یا اس کا ممبر بننا قابلِ سزا جرم قرار دیے جاچکے ہیں۔
تاریخ سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں کی کمیونسٹ تحریک کے خلاف ان طالع آزما سازشوں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن ان سب حقائق کے باوجود آپ کو سرمایہ دارانہ نظام کے ایسے بے ضمیر اور منافق وکیل ملتے رہیں گے جو یہ حقائق جاننے یا بتائے جانے کے باوجود یہی اصرار کریں گے کہ شرافت،  مساوی حقوق اور منصف مزاجی کے اس نام نہاد پیکر میں ہر شخص کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔

اسی طرح سرمایہ داری کے وکیل اس کی برتری ثابت کرنے کے لیے عموما یہ بات بھی اکثر کہتے ہیں کہ سرمایہ داری نظام فری مارکیٹ سسٹم ہے جس میں سب کو اپنی صلاحیت اور ذہانت کے مطابق معاشی ترقی کرنے کے مواقع میسر ہیں۔ لیکن کیوبا اور شمالی کوریا جیسے سوشلسٹ ملکوں پر سرمایہ دار ملکوں نے نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اقتصادی اور سماجی پابندیاں لگا رکھی ہیں! یہی نہیں بلکہ نیم سوشلسٹ سمجھے جانے والے یا قومی خودمختاری کے جمہوری حق کی بنیاد پر نیو لبرل سرمایہ دارانہ نظام سے الگ اپنا راستہ خود طے کرنے والے ملکوں کی ترقی بھی اس نظام کے علمبرداروں کی برداشت سے باہر ہے۔ لاطینی امریکی ملک خصوصا وینزویلا اور بولیویا اس کی مثالیں ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کے ان وکیلوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ کیپٹل (سرمائے)  کے بغیر کوئی بھی معیشت نہیں چل سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی معاشرے میں معاشی نظام کا چلنا ہمیشہ سرمائے کا مرہونِ منت رہا ہے۔ حالانکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سترہویں صدی میں انسانی معاشرے میں رائج ہوا۔ اس سے قبل انسانی معاشرے کی معیشت سرمائے کے بجائے اجناس کے تبادلے کے نظام پر استوار تھی۔ اس معاملے میں سرمایہ داروں کے وکیلوں اور ملاؤں کے استدلال میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا جو معاشرے کے تاریخی ارتقاء سے انکار کرتے ہوئے یہ اصرار کرتے ہیں کہ اسلام دنیا میں ہمیشہ سے موجود تھا۔

کمیونزم کے بارے میں سرمایہ دارانہ نطام کے مدافعین کا خیال ہے کہ اس میں ملکیت فرد کے بجائے حکومت کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے اور اشرافیہ کے تسلط کے خاتمے کے بجائے ایک نئی قسم کی اشرافیہ وجود میں آجاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اشرافی نظام کے یہ حامی سرمایہ دار اشرافیہ اور معاشرے کے وسائل پر اس اشرافیہ کی اجارہ داری کا دفاع تو خوب کرتے ہیں لیکن انہیں کمیونسٹوں کے “اشرافیہ” بن جانے پر اعتراض ہے! حقیقت لیکن یہ ہے کہ سوشلزم میں حکومت محنت کش “عوام” کی ہوتی ہے اس لیے حکومت کی ملکیت عوام کی ہی ملکیت ہوتی ہے۔ ملکیت پر چند “افراد” کا تسلط ختم کر دیا جاتا ہے۔

معاشرے کے وسائل پر عوام کا حق اور ان کی ملکیت قائم کرنا ہی سوشلزم کا مقصد ہے جو انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اس لیے سوشلزم کو مطعون کرکے اسے عوامی حمایت حاصل کرنے سے روکنے کے لیے یہ اس قسم کی دروغ گوئیوں کا کثرت سے سہارا لے کر عوام، تعلیم یافتہ افراد اور خصوصا نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔  سرمایہ دارانہ نظام کے یہ بے ضمیر وکیل اور ان کے افکار عوام اور معاشرے کی ترقی اور خوشحالی سے کتنے مخلص ہیں اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پورے سماج کی ملکیت پر چند افراد کے، سرمایہ داروں کے ناجائز تسلط کو ناحق قرار دینے کے بجائے ان افراد کا “حق”  سمجھتے ہیں!

1 Comment

  1. بالکل درست فرمایا شاداب صاحب آپ نے!
    زرائع ابلاغ اور تعلیمی نظام پر قبضہ اور لوگوں کی ذہنی سطح پست کرکے جتنی مرضی نام نہاد آزادی دے دی جائے ، کس کام کی!
    سرمایہ داری نظام کو جب عوامی شعوری جدوجہد سے خطرہ درپیش ہو تب اس کی اصلیت سامنے آتی ہے۔۔

Comments are closed.