پاناما کیس : جے آئی ٹی نے دو ماہ میں کیا کچھ کیا

پاناما کیس : جے آئی ٹی نے دو ماہ میں کیا کچھ کیا
Federal Judicial Academy, Islamabad
پاناما کیس : جے آئی ٹی نے دو ماہ میں کیا کچھ کیا

 

(بی بی سی اردو)

پاناما لیکس  (Panama Leaks) کے معاملے کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT) اپنی رپورٹ پیر کو سپریم کورٹ میں جمع کروا رہی ہے۔

اس ٹیم کی تشکیل کا حکم پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے 20 اپریل کو سنائے گئے فیصلے میں دیا گیا تھا۔

اس تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل عہدے کے افسر کو سونپنے کا حکم دیا گیا اور کہا گیا کہ تحقیقاتی ٹیم میں قومی احتساب بیورو، سٹیٹ بینک آف پاکستان، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے نمائندوں کے علاوہ فوج کے خفیہ اداروں انٹر سروسز انٹیلیجنس اور ملٹری انٹیلیجنس کا بھی ایک ایک افسر شامل ہوگا۔

عدالت کے اس حکم کے بعد فوج کی جانب سے کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے فوج پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ اس پر پورا اترے گی اور شفاف اور قانونی طریقے سے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی میں اپنا کردار نبھائے گی۔

جے آئی ٹی کو تفتیش کے لیے دیے گئے سوالات

عدالت نے اس چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو جن سوالات کا جواب تلاش کرنے کا حکم دیا وہ کچھ یوں تھے:

  1. میاں محمد شریف کی ملکیتی گلف سٹیل مل کیسے وجود میں آئی، یہ ادارہ کیوں فروخت کیا گیا، اس کے ذمہ واجبات کا کیا بنا اور اس کی فروخت سے ملنے والی رقم کہاں استعمال ہوئی اور یہ رقم جدہ، قطر اور پھر برطانیہ کیسے منتقل کی گئی؟
  2.  کیا نوے کی دہائی کے اوائل میں حسن اور حسین نواز شریف اپنی کم عمری کے باوجود اس قابل تھے کہ وہ فلیٹس خریدتے یا ان کے مالک بنتے؟
  3.  کیا (قطری شہزادے) حمد بن جاسم الثانی کے خطوط کا اچانک منظر عام پر آنا حقیقت ہے یا افسانہ؟
  4.  حصص بازار میں موجود شیئرز فلیٹس میں کیسے تبدیل ہوئے؟
  5. نیلسن اور نیسکول نامی کمپنیوں کے اصل مالکان کون ہیں جبکہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ نامی کمپنی کیسے وجود میں آئی؟
  6.  حسن نواز شریف کی زیر ملکیت فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور دیگر کمپنیوں کے قیام کے لیے رقم اور ان کمپنیوں کو چلانے کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟
  7.  حسین نواز شریف نے اپنے والد میاں نواز شریف کو جو کروڑوں روپے تحفتاً دیے وہ کہاں سے آئے؟

سپریم کورٹ کی جانب سے جے آئی ٹی کو تشکیل کے بعد تحقیقات مکمل کرنے کے لیے دو ماہ کی مہلت دی گئی جبکہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بیٹوں کو تحقیقاتی عمل کا حصہ بننے کو بھی کہا گیا۔

جے آئی ٹی اور نگران بینچ کی تشکیل

تین مئی کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کی نگرانی کے لیے تین رکنی خصوصی بینچ تشکیل دے دیا جو جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تھا۔ یہ وہی تینوں جج ہیں جنھوں نے پاناما لیکس کے فیصلے میں مزید تحقیقات کرنے کے لیے کہا تھا۔

پانچ مئی کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جس کی سربراہی ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کو سونپی گئی جبکہ اس کے ارکان میں قومی احتساب بیورو کے افسر عرفان نعیم منگی، سکیورٹی اینڈ سٹاک ایکسچینج کمیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بلال رسول، سٹیٹ بینک میں تعینات افسر عامر عزیز شامل تھے۔

ان کے علاوہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر نعمان سعید اور ملٹری انٹیلیجنس کے بریگیڈیئر کامران خورشید بھی اس تحقیقاتی ٹیم کا حصہ بنے۔

59 اجلاس، 23 افراد سے تفتیش

اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے چھ مئی کو کام شروع کیا اور دو ماہ کے عرصے میں اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے 59 اجلاس منعقد ہوئے اور اس دوران اس نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف اور ان کے اہلخانہ سمیت 23 افراد سے تفتیش کی۔

وزیراعظم نواز شریف کے بڑے بیٹے حسین نواز شریف سب سے زیادہ چھ مرتبہ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے۔

28 مئی کو انھیں پہلی مرتبہ طلب کیا گیا۔ اس کے بعد وہ 30 مئی، یکم، تین اور نو جون کو پیش ہوئے جبکہ ان کی آخری پیشی چار جولائی کو ہوئی۔

پہلی پیشی سے قبل انھوں نے تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان بلال رسول اور عامر عزیز پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تاہم 30 مئی کو تحقیقات کی نگرانی کرنے والے بینچ نے یہ اعتراضات مسترد کر دیے۔

تین جون کو حسین نواز کی پیشی کے بعد ان سے تفتیش کے عمل کی ایک تصویر بھی منظرِعام پر آئی جس پر سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی سے جواب طلب کیا اور تحقیقاتی ٹیم نے عدالت کو تصویر لیک کرنے والے شخص کا نام تو نہیں بتایا البتہ یہ ضرور کہا کہ اس شخص کی نشاندہی کے بعد اسے اس کے ادارے میں واپس بھیج دیا گیا ہے۔

حسین کے علاوہ وزیراعظم نواز شریف کے چھوٹے بیٹے حسن نواز بھی دو ماہ کے عرصے میں تین مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔

وزیراعظم کی پیشی

خود وزیرِاعظم نواز شریف کو جے آئی ٹی نے 15 جون کو طلب کیا اور جب وہ پیش ہوئے تو ان سے تین گھنٹے سے زیادہ عرصے تک سوالات کیے گئے۔

اس پیشی کے بعد نواز شریف نے باہر آ کر صحافیوں کے سامنے ایک تحریر شدہ بیان بھی پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا تھا کہ ‘وہ زمانہ گیا جب سب کچھ پردوں کے پیچھے چھپا رہتا تھا اور اب کٹھ پتلیوں کے کھیل نہیں کھیلے جا سکتے۔’

نواز شریف کے بعد ان کے بھائی اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی باری آئی جنھیں 17 جون کو طلب کیا گیا اور ان سے بھی کئی گھنٹے تک سوالات کیے جاتے رہے۔

نواز شریف کے سمدھی اور ملک کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار تین جولائی کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے میں اسحاق ڈار کو سب سے اہم گواہ سمجھا جاتا تھا لیکن جے آئی ٹی کے ارکان نے انھیں زیادہ انتظار بھی نہیں کروایا اور ان سے صرف ایک گھنٹے سے بھی کم پوچھ گچھ کی گئی۔

اسحاق ڈار سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف درج ہونے والے حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں وعدہ معاف گواہ بنے تھے۔

اپنے اس اعترافی بیان میں اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ وہ شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کرتے تھے تاہم جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعد انھوں نے کہا کہ یہ بیان انھوں نے اپنے ہاتھ سے نہیں لکھا تھا۔

نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کی پیشی 27 جون کو ہوئی جبکہ ان کی اہلیہ مریم نواز اس تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے والی ی شریف خاندان کی آخری رکن تھیں جو پانچ جولائی کو جے آئی ٹی کے سامنے بیان دینے گئیں۔
 

خیال رہے کہ جے آئی ٹی نے مریم نواز کو بطور گواہ طلب کیا تھا کیونکہ سپریم کورٹ نے جن افراد کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا ان میں مریم کا نام شامل نہیں تھا۔

ان اہم شخصیات کے علاوہ وزیرِاعظم کے رشتہ دار طارق شفیع دو مرتبہ جبکہ نیشنل بینک کے صدر سعید احمد، سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک، ایس ای سی پی کے سربراہ ظفر حجازی اور قومی احتساب بیورو کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) امجد شعیب اور موجودہ سربراہ قمر زمان چوہدری، اسحاق ڈار کا اعترافی بیان ریکارڈ کرنے والے ایف آئی اے کے دو افسران تبریز شہزاد اور جاوید علی شاہ اور ایس ای سی پی اور سٹیٹ بینک کے چھ افسران ایک ایک بار جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔

قطری شہزادے کا بیان

قطر کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے شہزادہ حمد بن جاسم کو دو مرتبہ ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے لیے بلایا تاہم انھوں نے پاکستان آ کر یا قطر میں پاکستانی سفارتخانے میں جا کر بیان دینے سے معذرت کی۔

تاہم ان کی جانب سے یہ پیشکش کی گئی کہ جے آئی ٹی کے ارکان قطر میں ان کی رہائش گاہ پر آ کر بیان لے سکتے ہیں۔

اس پیشکش کے بعد چار جولائی کو یہ خبر سامنے آئی کہ تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان عرفان نعیم منگی اور بریگیڈیئر کامران خورشید قطر گئے ہیں تاہم اس اطلاع کی نہ تو سرکاری سطح اور نہ ہی قطری شہزادے کی جانب سے کوئی تصدیق کی گئی کہ انھوں نے ان افراد سے ملاقات کی یا ان کے سامنے بیان دیا ہے۔

تبدیل ہوتا لہجہ

دو ماہ پر محیط اس تحقیقاتی عمل کے دوران جہاں آغاز میں پاکستان مسلم لیگ کے رہنماؤں کی جانب سے تحقیقات میں تعاون کرنے اور ‘سرخرو’ ہونے کے بارے میں بیانات سامنے آتے رہے وہیں اختتامی ہفتوں میں ان بیانات کا لہجہ سخت اور تلخ ہوتا گیا۔

پہلے وزیراعظم پاکستان نے لندن میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ احتساب کے نام پر تماشا ہو رہا ہے اور ان کے ذاتی کاروبار کو کھنگالا جا رہا ہے۔ نواز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘قوم کسی اور طرف جا رہی ہے جے آئی ٹی کسی اور طرف جا رہی ہے اور جے آئی ٹی کے سامنے ایسے لوگ پیش ہو رہے ہیں جو ہمارے بدترین دشمن ہیں۔’

انھوں نے یہ بھی کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو ان کے خلاف الزام کی حد تک بھی کچھ نہیں ملا۔

اور پھر جب وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار تین جولائی کو پیشی کے بعد باہر نکلے تو صحافیوں سے بات چیت میں ان کے لہجے میں غصہ عیاں تھا اور انھوں نے اپوزیشن رہنما اور تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان پر شدید تنقید کرتے ہوئے انھیں جھوٹا اور جواری قرار دیا۔

سپریم کورٹ میں اور دفاع اور پانی و بجلی کے وزیر خواجہ آصف نے اس مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ان کی جماعت سپریم کورٹ کے جانب سے قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گی جب تک قطر کے شہزادے حمد بن جاسم الثانی کو تفتیش کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔

۔