مائنس تھری ، مائنس فور یا اس سے بھی آگے کچھ اور۔۔۔

اللہ بخش راٹھور (اے بی راٹھور)
اللہ بخش راٹھور، صاحب مضمون

مائنس تھری ، مائنس فور یا اس سے بھی آگے کچھ اور۔۔۔

تحریر : اللہ بخش راٹھور؛ سندھی سے اردو ترجمہ: ابراہیم صالح

پاکستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے دنیا کے تین مقتدر اخبارات فنانشیل ٹائمز، نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے بھی تبصرے کیے ہیں۔ ان تینوں تجزیات میں اس بات پر ان سب کا اتفاق دیکھا گیا ہے کہ ان کی نظر میں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کا ہی نتیجہ ہے۔ لیکن اصل کہانی سے پردہ NDTV کی صحافی ’برکھا دت‘ نے اٹھایا ہے جنہوں نے نوازشریف سے انٹرویو بھی کیا تھا جس میں نواز شریف نے کہا تھا کہ ’فوجی اسٹیبلشمنٹ پر سویلین بالا دستی ضروری ہے۔‘

یہاں تک کہ نواز شریف نے اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر کہا کہ ’The prime minister is the boss, not the army chief. This is what the constitution says. We all have to live within the four walls of the constitution.‘( فوج کا سربراہ نہیں بلکہ وزیر اعظم ہی فیصلے کرنے کے لیے باس ہوتا ہے، یہی آئین کہتا ہے اور ہمیں اسی آئین کی چاردیواری میں رہنا چاہیے۔)

برکھا دت نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے مضمون میں ’Why Sharif’s ouster is dangerous for Pakistan‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ ’نواز شریف کا ہٹنا پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ہے ‘ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ ’ نواز شریف پاکستان اور بھارت کے درمیاں بہتر رشتوں کے امین تھے‘۔ جبکہ عمران خان کی پارٹی اقتدار کے ان سرچشموں کی بی ٹیم ہے جو خود براہ راست حکمرانی نہیں کر سکتے لیکن پس پردہ رہ کر اپنا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔

اب تو وہ عدلیہ بھی کہ جو نظریہ ضرورت کو بمشکل دفن بھی نہیں کر پائی تھی اس نے ایک بار پھر اسی لاش کوکندھوں پر اٹھائے سول حکمرانی کے راستے میں رکاوٹیں لیے آں کھڑی ہوئی ہے۔ کیا الطاف حسین کے بعد نواز شریف کے سیاسی منظر نامے سے ہٹنے یا ہٹانے کے بعد کی صورتحال پائیدار ہوگی؟ کیا اس سے ملک میں سیاسی استحکام آ جائےگا؟ کیا اسٹیبلشمنٹ کو محض اپنے ہی کسی پیٹی بھائی کے چشم و چراغ کا انتظار تھا یا ہے؟ مائنس تھری والا فارمولا برقرار رہیگا یا مائنس فور پر عمل کیا جائیگا ؟ یا اس سے بھی آگے محض سیاستدانوں کی ہی مستقل قربانی کا یہ عمل کس حد تک لے جایا جائیگا؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات امریکی میڈیا میں تجزیہ نگاروں نے دینے کی کوشش کی ہے۔ امریکی اخبار فنانشل ٹائمز میں تجزیہ نگار احمد رشید لکھتے ہیں کہ ’مائنس تھری میں الطاف حسین، میاں نواز شریف اور آصف زرداری شامل ہیں‘ دو اہم رہنما ہٹانے کے لیے عدلیہ کے کندھوں کا استعمال کیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ وہی عدلیہ ہے جو کچھ عرصہ قبل ہی فوجی بغاوت کو غیر قانونی اور غیر آئینی تک قرار دے چکی ہے لیکن اب کی بار پھر وہ انہی طاقتوں کے نزدیک تر ہو چلی ہے ! تجزیئے میں ان تین کے سوائے بھی کئی اور سیاستدانوں کے خلاف کاراوئی کا اشارہ بھی دیا گیا ہے اس حوالے سے جب واشنگٹن ڈی سی میں موجود ایک اور سینئر صحافی سے ’کئی اور سیاستدانوں‘ کی تعداد کی بابت پوچھا گیا کہ باقی اور کتنے سیاستدان نااہل ہو سکتے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ’اب مائینس تھری، مائنس فور میں بدل چکا ہے اور اس چار کے آنکڑے میں اب عمران خان بھی شامل ہے’! ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب بات محض یہاں تک نہیں رکے گی بلکہ کم از کم پچاس سے زائد سیاستدانوں کے نااہل قرار دیے جانے کے امکانات ہیں ’ تو پھر اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل اسٹیبلشمنٹ اپنے کنبے کے علاوہ یا وہ جو کمر درد کا بہانہ کر کے ملک چھوڑ بھاگ نکلے ہیں ، بقایا تمام سیاتدانوں کی فیملی پلاننگ کا عمل خشوع اور خضوع کے ساتھ جاری و ساری رکھے گی !

بقول مرحوم پیر صاحب پگارو کے کہ جن کی یہ پیشگوئی صادق ہوتی نظر آتی ہے کہ ’جھاڑو پھرے گی اور سیاستدانوں کی فیملی پلاننگ میں جو سیاستدان بچ نکلیں گے وہی آئندہ عام انتخابات لڑ سکیں گے ’‘! امریکہ میں موجود سینیئر صحافی کے مطابق اس بات کے واضح امکانات ہیں کہ عمران خان مائنس فور میں شامل ہوں گے۔ دن بدن اس کے گرد گھیرا تنگ کیا جا تا رہے گا۔

مقتدرہ اصل میں صرف ان سیاسی رہنماؤں کو اپنی آنکھ کا تارا دیکھنا چاہتی ہے جو ان کے اپنے ہی قبیلے کی باقیات ہوں یا وہ جن کی ان کے ادارے کے ساتھ وفاداری کا ایک لمبا ریکارڈ موجود ہو۔ گو کہ نواز شریف کا شمار بھی وفاداروں کی اسی صف میں شامل تھے لیکن انہوں نے ان ان دیکھی لکیروں کو کراس کرنے کی سعی کی جہاں لوگون کے پر جل جاتے ہیں اور جس کے نتیجے میں انہیں بھی آئندہ کے لیے ایک قابل عبرت مثال بنا دیا گیا ہے، جو آنے والے وفاداروں کے لیے بھی ایک سبق ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’‘موجودہ سیٹ اپ میں شاہد خاقان عباسی وہ شخص ہے جو جنرل ضیا کی کابینہ میں پیداوار کے وزیر خاقان عباسی کا فرزند ہے جن کی موت ان کی کار کو اوجھڑی کیمپ کے قریب گذرتے ہوئے ایک میزائل لگنے سے ہوئی تھی اور خاقان عباسی کی دوسری اہلیت و اہمیت ان کا کشمیری اور رٹائیرڈ ایئر کموڈور ہونا ہے۔

اب ان کے فرزند نامدار کو وزارت عظمیٰ پر فائز دیکھ کر تو اصل صاحبان اقتدار کے دل خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوں گے۔ جب ملک میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کی بات چل رہی تھی تو نواز شریف کے بھائی شہباز کا تذکرہ بھی نکلا وہ شہباز شریف جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے کم ہی ٹکراؤ میں آتے ہیں اور جن کے آنے سے مقتدرہ کو ٹھنڈی سانسیں لینے کا بھی موقعہ ملتا کیونکہ وہ دفاعی اور خارجہ پا لیسیاں مکمل طور پر فوجی ادارے کے حوالے کرنے کو بھی تیار ہو جاتےجبکہ اس کے بر عکس نواز شریف ’انہیں‘ جو اہم اداروں کے نزدیک اسٹریٹیجک اثاثے سمجھے جاتے ہیں ان کو بھارت سمیت پڑوسی ممالک میں کاروائی کی اجازت نہیں دیتے تھے اور وہ کئی بار ان کی کاروائیوں میں رکاوٹ بھی بنے اور یہ بات مقتدرہ کو کسی صورت قابل قبول نہپں تھی۔

اس سے بھی زیادہ ان کے لیے قابل اعتراض بات یہ تھی کہ نواز شریف ان کی اجازت کے بغیر ہی جندال سمیت بھارتی حکومت کے غیر سرکاری ایلچیوں سے معاملات طے کر رہے تھے۔ شہباز شریف کے سافٹ ہونے کے باوجود مقتدرہ انہٰیں نواز کے بھائی ہونے کی وجہ سے قبولنے کو تیار نہیں تھی اسی لیے ایک کمزور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو سامنے لایاگیا۔

مستقبل کے سیاسی روڈ میپ کے حوالے سے اسلام آباد کے وہ حلقے جو آئبدہ تبدیلیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں ان کے مطابق عمران خان کی ناہلی کے چانسز ففٹی ففٹی ہیں اور اس بات پر واشنگٹن کے نبصرہ نگار بھی اتفاق کرتے دکھئی دیتے ہیں، اگر یہ صورتحاک اسی طرح جاری و ساری رہی تو مستقبل قریب میں سیاستدانوں کی نسل ہی خطرے میں پڑ جائیگی۔

وہ سیاستدان جو تھوڑی بہت سمجھ بوجھ کے مالک ہیں ان کے سائیڈ لائن کر دیے جانے سے سیاسی قیادت کا بحران کھڑا ہو جائیگا اور ملک کی مقتدرہ کا منشا بھی یہی نظر آتا ہے ہے کہ اب وہ سیات میں نوآموز کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہیں۔ اب تک وائٹ ہاؤس نے نواز شریف کے ھٹنے سے لے کر شاہد خاقان عباسی کے آنے تک سارے معاملے پر سرد مہری کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ کو کوئی پروا نہیں کہ پاکستانی سیاست میں کیا تبدیلیاں آ رہی ہیں۔

انہوں نے تو افغانستان اور پاکستان کے معاملات دیکھنے کے لیے محض جونیئر سطح کے عملدار مقرر کیے ہوئے ہیں اور جس کی بابت تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاملات تو محض ایڈیشنل سکریٹری کی سطح تک کے افسر دیکھتے ہیں! امریکہ میں موجود واقف کار حلقوں سے جب اس سرد مہری کی بابت پوچھا جاتا ہے تو ان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ فی الوقت امریکا کے داخلی معاملات کو درست کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔

انہوں نے روس سمیت دیگر عالمی طاقتوں سے بہتر تعلقات کی بات کی تو امریکی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں متحرک ہونے نہیں دیا اسی لیے اب صدر چھٹی پر جانے کا زور لگا رہے ہیں! مائنس تھری یا مائنس فور فارمولے میں آصف زرداری کے خلاف اقدامات اٹھانے پر شکوک و شبہات کا اظہار ہوتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ اقتدار کے مالکوں نے جتنے ماضی میں اس کے خلاف اقدامات اٹھا لیے ان سے زائد اقدامات اٹھانے کی اب گنجائش نہیں نظر اتی کیونکہ ان اقدامت کے ذریعے بھی وہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکے تھے، لہٰذا ان پر مزید زور لگانے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔

زرداری اینڈ کمپنی اپنے خلاف کھیلے گئے شاٹس کو ریٹرن بیک کرنا بھی سیکھ چکی ہے۔ جبکہ واشنگٹن کے واقف کار حلقے زرداری کے خلاف اقادامت کو محض دھمکی سمجھتے ہیں ان کے مطابق ممکن ہے کہ وہ اس سیاسی فیملی پلاننگ سے بچ نکلیں، لیکن اگر واقعی زرداری کے خلاف اقدامت اٹھائے گئے تو اس میں بھی زرداری زیادہ گھاٹے میں نہیں رہیں گے، وہ تقریبن اپنی رٹائرمنٹ کے قریب ہی ہیں اور اب مستقبل کے سیاسی شاٹس بلاول بھٹو زرداری نے کھلینے ہیں۔

جہاں تک سیاست میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی بڑھتی مداخلت کی رسم ہے تو اب یہ انتہائی خطرناک وبائی صورت اختیار کرتی جارہی ہے جسے قابو میں رکھنا انتہائی ناگزیر ہو چکا ہے پھر اس کے لے لیے چاہے پارلیمنٹ میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ بقایا تمام مقدس گائیوں کے احتساب کے لیے کھل کر قانون سازی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔

اس ٹکراؤ میں بیک فائر بھی ہو سکتا ہے اور جس مارشل لا کی بات پرویز مشرف کی زبان پر ہے ممکن ہے کہ ایسی انتہائی صورتحال کے مدنظر اس پر عمل کیا جائے، لیکن اب کی بار ایسا کیا گیا تو اس کے ملک پر انتہائی مہلک اثرات ہوں گے اور ایک بڑی تباہی کا سامنا کرنا ہوگ ا۔۔۔