ہماری سیاست میں لفظوں کا بدشکل ہونا

Kishwar Naheed aik Rozan
کشور ناھید، لکھاری

ہماری سیاست میں لفظوں کا بدشکل ہونا

کشور ناہید

کچھ لفظ بے پناہ استعمال سے پہلے بوسیدہ اور پھر غلیظ ہوجاتے ہیں بلکہ دوسروں کا مذاق اڑانے کےلیے ان لفظوں کا استعمال ہوتاہے۔ قائداعظم کے زمانے میں جمہوریت کا لفظ، سب چھوٹے بڑوں نے سنا۔ پسند بھی آیا اور جس سے جتنا ہوسکا، جمہوریت کو پاکستان میں رائج کرنے کےلیےجدوجہد بھی کی۔ بہت سے اپنوں کی قربانیاں دے کر پاکستان اور جمہوریت کو بچایا۔ قائداعظم جلد ہی رخصت ہوگئے‘ اگرچہ قائد ملت لیاقت علی خان کے ہوتے ہوئے جمہوریت چلے گی۔ پھر ڈیڑھ سال بعد، یہ خواب بھی خون میں لت پت ہوگیا۔

ابھی ہم چھوٹے تھے سوچا اب شاید کوئی اور بہتر آ جائے گا۔ بار بار قائداعظم کا نعرہ یاد آتا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ پھر بھی ابھی زندگی میں خوش فہمیوں اور خواب دیکھنے کا زمانہ، مسکراہٹیں دے جاتا تھا ۔ابھی آٹھویں کلاس میں پڑھ رہی تھی۔ جغرافیہ کی استاد ہر دفعہ کہتی تھیں پاکستان میں کس کی حکومت ہے اور اس کے ساتھ وزارتوں میں اور کون کون ہیں۔ ہر چھ ماہ بعد نیا نقشہ بنانا پڑتا کہ وزیراعظم بدل جاتا تھا۔

یہی بدلتے بدلتے میٹرک پاس ہوگیا۔سامنے ہر وقت ایک لفظ رہتا تھا دو قومی نظریہ، ہماری موٹی عقل سمجھتی تھی کہ چونکہ پاکستان کے ایک حصے کا نام مشرقی پاکستان اور دوسرے کا مغربی پاکستان ہے اس لیے یہ دو قومی نظریہ ہے۔ چلو یہ بھی مان لیا، اب کالج کے زمانے میں محترمہ فاطمہ جناح جب ایوب خان کے مقابل الیکشن میں کھڑی ہوئیں۔ پہلی دفعہ باقاعدہ عورت کی توقیر ذہن میں جانگزیں ہوئی۔

پہلی دفعہ لفظ آمریت سنا۔شورش کاشمیری، حبیب جالب ودیگر زعما کو مارشل ل ااور آمریت کے خلاف بولتے سنا۔ اب ہم ان کے ساتھ جلوسوں میں جارہے تھے۔ فاطمہ جناح کو الیکشن میں ہروادیا گیا اور اب فیلڈ مارشل کا لفظ ہماری لغت میں شامل ہوا۔ساتھ ہی بھٹو صاحب سے ملاقات اور سیاسی منظر نامے پر غریبوں کے حق میں تقریریں آنے لگیں۔استحصال کا لفظ ہر شخص بول رہاتھا۔بھٹو صاحب نے پھانسی لگنے سے پہلے تک لوگوں کو بتایا کہ مارشل لا کیسے غریبوں کا استحصال کررہاہے۔غریبوں کو آواز دینے والا شخص پھانسی چڑھ گیا،سب لوگ خاموش ،ڈرے ہوئے تھے کہ جب کوئی بولتااسے اسی دن 20 کوڑے لگادئیے جاتے تھے۔یہ خوف زندگی کا حصہ بن گیا۔

بے نظیر بھٹو نے1990 میں ہماری لغت میں ایک لفظ کا اضافہ کیا۔وہ لفظ تھا لانگ مارچ، زمانہ اب بھی مارشل لا کا تھا۔ہم لوگ جو مائوزے تنگ کے لانگ مارچ کے بارے میں پڑھ چکے تھے جوکہ6ہزار میل پر محیط تھا۔ جس کے دوران ایسے مشکل مرحلے بھی آئے کہ چو این لائی اس قدر بیمار ہوئے کہ حالت غیرہوگئی مگر لانگ مارچ جاری رہا۔یہ ساری داستان ہے جو کتابوں میں پڑھی تھی۔ بے نظیر کے لانگ مارچ کے دن پھر زندہ ہوگئی۔

ہماری لغت میں زنداں کا لفظ تو بچپن میں ابا کی گرفتاری کے وقت اور پھر فیض صاحب کی نظموں کے توسط دل میں بیٹھا ہوا تھا۔ پھانسی کا لفظ بھٹو صاحب کے حوالے سے، دنیا بھر میں دی جانے والی، خاص کر دوسری جنگ عظیم میں ہونے والے مظالم کے بارے میں پڑھ کر اور بھی اذیتیں یاد یوں آئیں کہ جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو بیگم بھٹو اور بے نظیرجیل میں تھیں۔

ہمیں یہ سب اذیتیں کبھی بھولیں گی نہیں۔بھولیں بھی تو کس طرح کہ جس طرح دن دیہاڑے بی بی بے نظیر کو قتل کیاگیا،سارا ملک بلک اٹھا مگر آخر اپنی جگہ بیٹھا رہا۔اب پھر چنگیزخاں کی کہانیاں یاد آنے لگیں۔ آمریت جاری رہی۔ مصلحتیں آڑے آتی رہیں۔ حکومتیں بنتی رہیں اب ہماری لغت میں بھولا ہوا لفظ عدلیہ شامل ہوگیا۔ وہ بھی یوسف رضاگیلانی کو جب عدلیہ نے گھر بھیج دیا۔ وہ کوئی بڑا سیاست دان نہیں تھا۔

ایک وہم زدہ سوچ سروں میں گھرکرگئی۔ آخر یہ کیا ہورہاہے۔ ان کے بعد جو وزیراعظم آئے ان کا تو ذکر ہی کیا۔بنی ہوئی سڑکوں پر سڑکیں بناتے اور رقم خرچ کرتے رہے۔ یہ منظر دیکھا تو آنے والی حکومت نے کہا ہمارے بھی رستے کھلے ہیں۔1984 سے  لے کر اب تک کے شریف خاندان کے اثاثے سب کی نظر میں آگئے ،کسی بات کو بھولی ہوئی داستان نہ بننے دیا ایک جاگا تو کئی جاگے اور اب پرانے خلیفائوں کی طرح ایمان دار عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔

یہ تو ایلس ان ونڈر لینڈ والا نقشہ کھینچا گیا لوگ چسکے لینے لگے۔سارے افسر اپنی اپنی فائلیں سنبھالنے لگے جو ریٹائر تھے وہ دوسرے ملکوں میں کمائی دولت کے توسط، پھر چین کی نیند سونے لگے۔ عدلیہ نے فیصلہ سنادیا۔ زبانیں گنگ ہوگئیں۔ اب نہ سیاست دان بول رہے تھے نہ دانشور، بولے تو صرف خوشامدی (بقول تہمینہ درانی) اور اب فیصلہ ہوا لانگ مارچ کا ہمارے ذہن میں تو تھا بے نظیر کے علاوہ چوہدری افتخار کےلیے چھ دفعہ لانگ مارچ کرتے ہوئےہمارے عزیز اعتزاز احسن کو مسلسل گاڑی چلانی پڑی تھی۔ اب بھی شاید ویسا ہی منظرہوگا۔

زمانہ بدل چکا تھا لانگ مارچ کےلیے کنٹینر بنوایا گیا۔ کوئی بات نہیں بے نظیر کے لیے بھی تو کنٹینر بناتھا۔ اب آگے آئیں چار گھنٹے چلنا،آٹھ گھنٹے ٹھہرنا۔ یہ کیسا لانگ مارچ تھا۔ میں لکھتی جارہی ہوں اور سوچتی جارہی ہوں یہ کیسا لانگ مارچ تھا۔ میں نے شروع میں کہاتھا کچھ لفظ بدشکل ہوجاتے ہیں لانگ مارچ کا لفظ بھی ہمارے ملک میں بدشکل ہوکرہی آیا۔