پنجاب کے اندر مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کے مستقبل سے جڑے اہم سوالات

ایک روزن لکھاری
ذولفقار علی

پنجاب کے اندر مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کے مستقبل سے جُڑے اہم سوالات

(ذوالفقار ذلفی)

پنجاب کا سیاسی کردار مُلکی سیاست میں کافی اہم رہا ہے۔ لاہور اور راولپنڈی پنجاب کے دو اہم شہر ہیں اور ان دو شہروں نے اقتدار کی غُلام گردشوں میں اپنی طاقت کا لوہا خوب منوایا ہے۔ موجودہ صورتحال میں پنڈی اور لاہور کے درمیان عجیب کھینچا تانی نظر آتی ہے۔ لگ ایسے رہا ہے جیسے طاقت کے دونوں مراکز اپنی  حیثیت کو منوانے کیلئے اپنے اپنےداؤ پیچ کا خوب استعمال کر رہے ہیں۔

حصول اقتدار اور طاقت کے پلڑے کو دونوں شہر اپنے اپنے حق میں جُھکانے کیلئے میدان سجا رہے ہیں اور جس کا واضح اثر تینوں بڑی پارٹیوں کی سیاست میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اقتدار کے داؤ پیچ سے واقف طاقت کے مراکز اپنی اپنی ٹیموں اور کھلاڑیوں کی نیٹ پریکٹس کروا رہے ہیں۔ یہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کے بارے میں واضح طور پر کُچھ نہیں کہا جا سکتا مگر قیاس آرائی تو کی جا سکتی۔

مثلا سکندر لنگڑیال جن کا تعلق پییپلز پارٹی سے ہے موجودہ اکھاڑ پچھاڑ کی دلیل میں سوشل میڈیا پر فرماتے ہیں:

پاکستان پیپلز پارٹی کی وکٹیں نہیں اکھڑ رہیں، گند صاف ہو رہا ہے اور پیپلز پارٹی کو پی ٹی آئی کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ وہ اس کا گند سمیٹ رہی ہے۔

وہ مزید فرماتے ہیں:

بلاول کے جو انکل اور آنٹیاں اس وقت پارٹی چھوڑ رہے ہیں، وہ کسی نظریاتی اختلاف کی وجہ سے نہیں بلکہ فقط اپنی کرپشن کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں اور بیشتر لوگوں کا تعلق سینٹرل پنجاب سے ہے۔ وہ موجودہ صرتحال کو ماضی کے معروضی حالت کو مد نظر رکھ کر کہتے ہیں کہ ۲۰۰۸ کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو سنٹرل پنجاب کے اکثر اضلاع سے چند ایک سیٹیں ملی تھیں اور جیتنے والوں کو حکومت میں نمائندگی دینے کے لئے وزیر بنانا پڑا۔

ان لاڈلے وزیروں نے اپنے خاندانوں سمیت اپنی اپنی وزارتوں کو سونے کی کانیں سمجھا، پارٹی کی بدنامی کا باعث بنے اور اب اپنے کرپشن کیسز معاف کروانے کے لئے پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ میڈیا انہیں بڑے بڑے برج قرار دے رہا ہے حالانکہ یہ محض کرپشن کے مگر مچھ ہیں، پیپلز پارٹی پر بدنما داغ بن چکے ہیں، اپنے اپنے حلقوں میں قدر کھو چکے ہیں۔

پارٹی کے پاس ان سے جان چھڑانے کا نہ کوئی طریقہ تھا اور نہ ہی از خود پارٹی سے نکالا جا سکتا تھا۔ جب تک یہ پارٹی میں تھے،کرپٹ تھے، پی ٹی آئی میں جاتے ہی کرپشن سے پاک ہو گئے ہیں۔

ذوالفقار ذلفی کے اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجئے: مختلف سیاسی پارٹیوں کے مائینڈسیٹ اور مستقبل کا منظرنامہ

بلاول کے لئے بہتر ہو رہا ہے کہ پارٹی صاف ہو رہی ہے، نئے لوگوں کو آگے لانے کا موقع ملے گا۔ بلاول نئی ٹیم اور بھٹوازم کی اصل للکار کے ساتھ میدان میں اتریں گے اور سنٹرل پنجاب میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑیں گے۔

اس طرح کی قیاس آرائیوں پر مبنی تجزیئے تینوں پارٹیوں کے کارکُن اپنی اپنی پارٹیوں کے حق میں دے رہے ہیں۔ کارکُنوں کی اپنی مجبوری  مگر حالات کہیں اور جا رہے ہیں۔ حالات کے بہتر تجزیئے کیلئے کُچھ اہم سیاسی سوالات کا جائزہ لینا پڑیگا:

  • جیسے کیا مسلم لیگ نون کے بغیر پنجاب کو جمہوری طریقے سے چلایا جا سکتا ہے؟
  • کیا عمران خان نون لیگ کا مُتبادل ہو سکتے ہیں اور پنڈی کو بھی عمران خان پر بھروسہ ہے؟
  • کیا زرداری صاحب پنڈی کے دل میں نرم گوشہ پیدا کر سکتے ہیں؟
  • کیا پانامہ کیس میں نواز شریف نا اہل ہو کر آرام سے بیٹھ جائیں گے اور آنے والے الیکشن میں نااہلی کی صورت میں فائدہ کس کو  ہوگا؟
  • مُسلم لیگ ق اور جماعت اسلامی کو پنڈی  تخت لاہور کو سُپرد کرنے کا رسک لے سکتا ہے؟

میرے خیال میں ان سوالوں کا جواب ہاں میں تو نہیں ہے۔

خاص طور پر  اگر ان سوالات کا پنڈی کے مزاج اور سوچ کے تناظر میں گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو تینوں پارٹیاں اپنے اپنے تئیں منیر نیازی کے شعر:

کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن

کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی

کے عین مطابق عمل کرتی نظر آتی ہیں۔

جس چیز کا مُجھے ڈر ہے اس ساری لڑائی میں سب سے زیادہ نُقصان ان تینوں سیاسی پارٹیوں اور پاکستان کے جمہوری مسُتقبل کو ہوگا۔ کیونکہ واضح طور پر لگ رہا ہے کہ 2018 کے الیکشن میں پنجاب سے کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت سے جیت نہیں پائے گی اور پاکستان کی سیاست کا شعور رکھنے والوں کو یہ اچھی طرح سے پتا ہے کہ کمزور حکومتیں طاقت کے کس مرکزکے دل کو بھاتی ہیں۔

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔