ماسٹر گل محمد: شہرِ محبت کوئٹہ اور کوئٹہ وال (قسطِ دوئم)

شہرِ محبت کوئٹہ اور کوئٹہ وال
Photo courtesy wikimedia

ماسٹر گل محمد: کوئٹہ، خوابوں کے دریچے سے (قسطِ دوئم)

از، نعیم بیگ 

میں نے گزشتہ اَقساط میں عرض کیا تھا کہ کاسی روڈ پر رہائش کے دوران ابا نے ہم بھائیوں کو یٹ روڈ پر پرائمری سکول میں داخل کرا دیا تھا۔ ان دنوں سرکاری سکولوں کی دھوم ہوتی تھی۔ جب ابا میری انگلی پکڑے سکول کی عمارت میں داخل ہوئے تو میں لمحہ بھر کو شَشدر رہ گیا۔ یہ کوئٹہ کی گورنمنٹ پرائمری سکول کی پُر شِکَوہ عمارت تھی جو میرے ذہن میں آج بھی اسی طرح نقش ہے۔ آس پاس کے مکانات، سیون ٹائپ ہونے کی وجہ سے سکول کی پیلی اینٹوں سے بنی پختہ عمارت اس وقت مجھے عالی شان محل کی طرح لگی۔

شاید یہ بات بھی تھی کہ پیلی اینٹیں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ پنجاب میں اینٹوں کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ مجھے یہاں جماعت دوئم میں داخل کرنے کے لیے لایا گیا تھا۔ (گو جماعت دوئم کے لیے میری عمر کم تھی لیکن جماعتِ اوّل کا نصاب مجھے فَر فَر یاد ہونے کی بنیاد پر جماعتِ دوئم میں داخلہ ملا۔)

ضروری کاغذی کارِ روائی کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب نے جماعتِ دوئم کے انچارج ٹیچر کو بلایا اور مجھے اُن کے حوالے کرتے ہوئے ابا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں میرزا صاحب کا بیٹا ہوں میرا خاص خیال رکھا جائے۔

یہ ماسٹر گل محمد تھے۔ سُرمئی شلوار قمیض میں ملبوس دبلے پتلے سے درمیانے قد کے ساتھ ان کی شخصیت مجھے بالکل عام سی لگی۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور میرے کندھے پر ٹہوکہ دیتے ہوئے چلنے کا اشارہ کیا۔ مجھے کچھ عجیب سا لگا لیکن خاموش رہا۔

ہم دونوں ایک ساتھ ہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرے سے نکل کر کوریڈور سے ہوتے ہوئے جماعتِ دوئم کی طرف چل پڑے۔ کوریڈور میں کئی ایک کلاسیں جاری تھیں اور ننھے ننھے بچے جھولتے ہوئے دوسرا یا تیسرا پہاڑا رَٹ رہے تھے۔

بعد میں معلوم ہو ا کہ یہ بچے کچی، پکی اور جماعتِ اوّل کے طالبِ علم تھے جنہیں زمین پر بٹھایا جاتا ہے، ڈیسک کی سہولت جماعتِ دوئم سے شروع ہوتی ہے۔ ہم اپنے کمرے میں پہنچے تو میں نے دیکھا کہ کوئی تیس پینتیس لڑکے اپنے اپنے ڈیسک پر چڑھے مرغِ چمن و خوش الحان بنے پہاڑے رَٹ رہے تھے۔


قسطِ اوّل کا لنک:کوئٹہ اور کوئٹہ وال (قسطِ اوّل)


صرف ایک فرق تھا کہ اس بار پہاڑا بارہ کا تھا۔ اور ایک تنو مند لڑکا ہاتھ میں بید لیے کسی کو پیچھے سے نیچے نہیں ہونے دیتا ہوا انہیں ہینڈل کر رہا تھا۔ جس کا نام مجھے بعد میں آصف خان معلوم ہو ا، یہ کلاس مانیٹر تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی ماسٹر گل محمد نے دوسری قطار میں ایک لڑکے کی پشت پُر زور سے ہاتھ مارتے ہوتے اسے نیچے اترنے کو کہا جب وہ سیدھا کھڑا ہوا تو انہوں نے اسے بستے سمیت سب سے آخری نشست پر جانے کا حکم دیا اور مجھے کہا کہ یہ تماری سیٹ ہے۔

میں سیٹ پر ابھی بیٹھ ہی رہا تھا کہ انہوں نے کہا چلو بنچ پر چڑھو اور مرغا بن جاؤ۔ میں حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میرا کیا قصور ہے؟ لیکن معلوم ہوا کہ یہ اس کلاس کا اصول ہے کہ جب سزا ملے گی تو اجتماعی ہی ملے گی۔ چار و نا چار میں سکول داخل ہونے کے چند ہی لمحوں بعد مرغ بنا اس سکول کے سنہری اصولوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔

کہتے ہیں کہ آپ کی زندگی میں جہاں انسان اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں وہیں قدرت اپنا فطری نظام بھی ساتھ ساتھ چلا رہی ہوتی ہے، یہی وہ وقت تھا کہ جس بنچ پر مجھے مرغا بنے کو کہا گیا وہیں میرے ساتھ بلوچستان یونی ورسٹی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر فاروق احمد مرغِ بادِ نُما بنے اپنے بائیں بازو کی آڑ لیتے ہوئے کَن انکھیوں سے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہے تھے۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔

 کافی دیر تک مرغا بنے رہنے سے جب میری ٹانگیں کپکپانے لگیں تو پیچھے والے لڑکوں نے ہنسنا شروع کر دیا۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ سب تو عادی مجرم لگتے ہیں، میں کہاں پھنس گیا ہوں۔ یہ صورتِ حال نا جانے کب تک رہتی کہ اچانک ریسیس (آدھی چھٹی) کا گھنٹہ بج گیا اور ساری جماعت نے اپنے اپنے بنچوں سے اتر کر سکون کا سانس لیا لیکن میرے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔

میں لاہور سے بہتر ماحول میں پڑھا ہوا طالب علم تھا جہاں سزا کا تصور بالکل الگ تھا۔ بہ ہر کیف، ماسٹر گل محمد نے گھنٹی کی آواز سنتے ہی اپنا حاضری رجسٹر اٹھایا اور جماعت سے باہر جاتے ہوئے فاروق کی طرف معنیٰ خیز نظروں سے دیکھا۔ فاروق نے بھی انہیں دیکھ کر اَثبات میں سر ہلایا۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اچھا یہ ان وقتوں کی بات ہے جب سکول میں بچوں کو کسی تعارف یا دوستی کے لیے کسی رسماً علیک سلیک کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ جب ہم ساتھ ساتھ بیٹھ گئے تو یہ طے ہو رہا کہ ہم دوست ہیں۔

 فاروق نے مجھ سے پوچھا، چلو گے؟ میں نے کہا، کہاں؟ تو اس نے کہا،  چلو بتاتا ہوں۔ اور یہ کہہ کر اس نے کلاس روم کے ایک کونے میں پڑی ہوئی مٹی کی صراحی اٹھائی اور مجھے ساتھ لیے باہر نکل آیا۔

ریسیس کوئی آدھ گھنٹے کے لیے ہوتی تھی۔ فاروق نے صراحی اٹھاتے ہوئے مجھے سے میرا تعارف پوچھا، یہ اتفاق ہی تھا کہ ہمارے گھر قریب قریب ہی تھے۔ اس نے مجھے بتایا، یہ صراحی ماسٹر گل محمد کی ہے جو وہ گھر سے لاتے ہیں۔ دو پہر کو ہم قریبی سرکاری ٹیوب ویل جو انسکمب روڈ پر ہوا کرتا تھا، سے اس میں شفاف پانی بھر کر لا دیتے ہیں جسے وہ چھٹی ہونے پر اپنے ساتھ سائیکل کے کیریئر پر باندھ کر گھر لے جاتے ہیں۔

اس کام پر انہوں نے دو لڑکوں کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے کہ واپسی پر دونوں لڑکے باری باری اس صراحی کو اٹھاتے۔ ان کا خیال تھا کہ کہیں کوئی لڑکا راستے میں صراحی کے بوجھ سے تھک کر اسے توڑ نہ دے۔  اس زمانے میں کوئٹہ میں پینے والے پانی کی اَز حد قلت ہوا کرتی تھی۔ لوگ عموماً کاریز سے آنے والا پانی ہی پیتے تھے۔

میں نے کہا کہ یہ تو بہت سخت گیر ماسٹر ہیں ان کا کام کیوں کرتے ہو؟ فاروق کہنے لگا، ہاں یہ تو ہے لیکن دوسرے استاد ماسٹر گل محمد سے زیادہ سنگ دِل ہیں۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی۔

سکول کے سخت ماحول کو دیکھ کر میرے اندر یہ خواہش جاگنے لگی کہ یا اللہ تُو میرے حال پر رحم فرما۔ یہ بات جب میں نے اماں کو بتائی تو اماں نے کہا اچھا اللہ پر بھروسا رکھو کوئی سبب بنے گا۔

اِن کی اس بات کے اندر چند روز میں ہی سکول میں یہ اعلان ہوا کہ نارمن والے آ رہے ہیں۔ مجھے حیرت تھی کہ یہ نارمن والے کون ہیں؟ یہ خبر سُن کر سارے سکول کے بچے خوشی اور مسرت سے ناچنے لگے تھے۔ مجھے اب بھی نہیں معلوم کہ یہ نارمن والے کون تھے؟ لیکن شاید کوئی سینئر استاد اس کی مکمل تاریخ بتا سکیں۔

آخرِ کار وہ دن آ گیا کہ جس دن نارمن والوں نے سکول کا چارج سنبھال لیا۔ سارے اساتذہ چھٹی پر چلے گئے ما سِوائے ہیڈ ماسٹر صاحب۔  نارمن والوں جن میں گوری خواتین بھی شامل تھیں، نے پہلے دو دن بچوں کی مدد سے سارا سکول صاف ستھرا کیا۔ باتھ روم دھوئے گئے۔ نئی کیاریاں بنائی گئیں۔  چند ایک خواتین نے جنہوں نے رِسیس میں بچوں کو کھانے کے لیے پیکٹ بنانے کا انتظام سنبھال لیا تھا۔

رسیس میں ہمیں قطار میں لگا کر زَبر دستی گرم گرم دودھ پلایا جاتا اور اس کے بعد کھانے کے پیکٹ دِیے جاتے اور مانیٹر کیا جاتا کہ ہم کھا رہے ہیں یا ضائع کر رہے ہیں۔ کلاس میں پڑھائی کا طریقِ کار بدل چکا تھا، تصویروں سے پڑھایا جاتا۔ بنچ پر مرغ بننے کی بَہ جائے ٹافیاں ملتیں۔ چھُٹّی کے وقت روزانہ کوئی نہ کوئی تھیلا یا لفافہ تھمایا جاتا جس میں کسی وقت گھی کے بند ڈبے ہوتے جن پر دو ہاتھ ملتے ہوئے دکھائی دیتے تھے، کسی وقت خشک دودھ کے سیل بند لفافے … ۔

یہ سارا ماحول کوئی دو ہفتے جاری رہا۔ یقین کیجیے کہ ان دنوں سکول میں بچوں کی حاضری سو فیصد تھی۔ البتہ ایک بات دیکھی کہ دیگر اساتذہ میں واحد ماسٹر گل محمد تھے جو اِن دنوں بھی بڑی با قاعدگی سے سکول آتے تھے، اور نارمن والوں کے ساتھ مل کر کام کرتے اور میرا خیال ہے کہ ماسٹر گل محمد نارمن والوں سے متاثر بھی تھے، وضع دار اور ایمان دار ہونے کے ناتے شاید وہ چھٹی کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔

یہ ان کی شخصیت اور شرافت تھی کہ انہوں نے بعد میں بنچوں پر مرغا بنانے کی رسم ترک تو نہ کی لیکن بہت کم کر دی تھی، اور فاروق سے اس کے مؤدبانہ رویے کی وجہ سے ان کی محبت بہت بڑھ چکی تھی، یہ بات مجھے فاروق سے ہی معلوم ہوئی کہ ان کی شادی نہ ہوئی تھی اور وہ بیچلر ہی سکول سے ریٹائر ہو گئے تھے۔

(جاری)

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔