کوئٹہ کا سانحہ 8 اگست ، لواحقین کی بے بسی اور ریاست کی بے حسی

Ahmed Jameel Yousufzai

کوئٹہ کا سانحہ 8 اگست ، لواحقین کی بے بسی اور ریاست کی بے حسی

از، احمد جمیل یوسفزئی

کہتے ہیں درد دو قسم کا ہوتا ہے؛ ایک وہ جو آپ کو تکلیف پہنچائے اور دوسرہ وہ جو آپ کو بالکل بدل کے رکھ دے۔

8 اگست 2016 نے ایسا ہی درد کوئٹہ کے بلوچ اور پختون علاقوں میں سینکڑوں گھروں میں بھر دیا جس نے نا صرف لواحقین کی زندگیاں بدل دی بَل کِہ ایک پوری با شعور اور پڑھی لکھی نسل چھین کر اُس پورے طبقے کو بدل کے رکھ دیا جو قانون کی بالا دستی کے لیے کام کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ اُس دن وہ خود ہی لا قانونیت کی نظر ہو گیا تھا۔

اس صوبے میں پچھلے ایک عشرے سے عام شہری کے اختیار میں جنازے پڑھنے کے سوا کچھ نہیں رہا لیکن اُس دن صرف شہر کوئٹہ میں دوستوں، استادوں اور جاننے والوں کے اتنے جنازے اٹھے کہ سمجھ نہیں پڑ رہا تھی کہ کس کس تک کیسے پہنچا جائے۔

ایسے درد ناک حادثات میں اچانک جانے والے اپنے پییچھے ان گنت سوالات چھوڑ جاتے ہیں۔

ہمیں بار بار پڑھایا گیا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔ اور ایک ماں کی طرح ہی ہر پل وہ تحفظ کا احساس دلاتی ہے اور اگر خدا نخواستہ وہ اس میں نا کام ہو جائے تو اس درد اور غم کو محسوس کرتے ہوئے ظالموں کا نہ صرف سراغ لگاتی ہے بل کہ ایسے ٹھوس اقدامات اٹھاتی ہے کہ آئندہ کسی بے گناہ کی زندگی ایسی بے بسی کی نظر نہ ہو۔ اور مجرموں کو نشانہ عبرت بنا کر آئندہ کے لیے ایسے بے درد قیامت صغراء جیسے الم ناک واقعات کی روک تھام بھی ممکن ہو سکے۔

افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ایسے ہر درد ناک واقعے کے بعد تحقیقات کرنے اور ملزموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔ لیکن ستر عشروں کی ملکی تاریخ میں ہزاروں ایسے واقعات کی نہ تو کوئی سنجیدہ تحقیق ہوئی تا کہ وجوہات کے ساتھ ذمہ داروں کا بھی تعین ہوتا، اور نہ ہی ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی عملی اقدامات کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے واقعات تواتر سے ہوتے رہے ہیں۔

وجوہات معلوم کرنے اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے سپریم کورٹ نے 6 اکتوبر کو ایک رکنی جوڈیشل کمیشن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں “کوئٹہ انکوائری کمیشن” کے نام سے تشکیل دیا۔ اس کمیشن کی 110 صفحات پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ کے ویب سائٹ پر دیکھی اور ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھی جاسکتی ہے۔


مزید و متعلقہ: اسلام آباد کا کوفہ اور بلوچ طلبا  از، عابد میر


یہ رپورٹ پڑھنے سے “ہمارے اداروں کی بے حسی، ذمہ داری سے جان چھڑانے کی ان کی فطرت ثانیہ اور اپنی نا کامیاں دوسروں کے سر تھوپنے کی عادات واضح محسوس کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً:

۱۔ اداروں نے اس واقعے کو ہونے سے روکنے کے لیے نہایت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔

۲۔ واقعہ ہونے کے بعد پولیس، ہیلتھ ورکرز، صوبائی اور وفاقی حکومت کا رویہ سنگ دِلی پر مبنی تھا۔

۳۔ نہ صوبائی اور نہ ہی وفاقی حکومت نے مستقبل میں ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات کرنے میں کوئی سنجیدگی دکھائی۔ دونوں حکومتیں مناسب تحقیقات کرنے، دھشت گردوں  اور ان کی تنظیموں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اسے محفوظ کرنے، فارنزک سائنس، ہسپتالوں میں فرسٹ ایڈ کِٹس اور زندگی بچانے والے دوسرے ضروری آلات پر آنے والی لاگت خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں۔

۴۔ وقوعہ کے فوراً بعد کہ جب ابھی تک تحقیقات بھی شروع نہیں ہوئی تھی صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے بیان دیا کہ انہیں ننانوے فیصد یقین ہے کہ اس میں پاکستان کے دو ہمسایہ ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ اگر منسٹر صاحب نے پہلے سے فیصلہ کر لیا تھا اور علی الاعلان کہہ دیا کہ اس کو سر انجام دینے والے کون ہیں تو یہ صاف و شفاف تحقیقات کو مشکوک کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی کار کردگی پر بھی سوالات کھڑے کرتی ہے۔

۵۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یا تو تحقیقات کرنے والے سِرے سے تحقیقات ہی نہیں کریں گے کیوں کہ وزیر داخلہ نے پہلے سے ملزموں کے بارے میں بتا دیا ہے اور یا وہ تحقیقات اس خیال سے کریں گے کہ اسی نتیجے پہ پہنچیں جو وزیر داخلہ نے پہلے سے بتا دیا ہے۔

۶۔ رپورٹ میں اس بات پہ حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ خود کُش حملہ آور کا سَر کیسے نہیں مل سکا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ خود کش جیکٹ کا ڈیزائن تبدیل ہو گیا ہو۔

۷۔ سپاہ صحابہ پاکستان، ملت اسلامیہ پاکستان، اور اہل سنت والجماعت وزارت داخلہ کی کالعدم تنظیموں کے لسٹ میں شامل تھیں پھر بھی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے 1 اکتوبر 2016 کو اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع پنجاب ہاؤس میں ان تینوں کالعدم تنظیموں کے مشترکہ رہنماء مولانا محمد احمد لدھیانوی سے ملاقات کی اور ان کے مطالبات کو سنا اور پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

اس پر چیف سیکرٹری بلوچستان کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے وفاقی حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ نہیں۔ وفاقی وزیر نے اپنے ہی محکمے کے اصولوں کی خلاف ورزی کی۔ یہی نہیں اہلسنت والجماعت کچھ دن بعد اسلام آباد کے آبپارہ میں جلسہ کرنے کی اجازت بھی دی گئی، ایسے وقت میں جب کسی اور جماعت کو اجازت نہیں تھی۔

16 اگست اور اس کی طرح کئی ایسے درد ناک واقعات ان دو سالوں میں نا صرف بلوچستان بل کہ ملک کے کئی دوسرے شہروں میں پھر بھی رُو نُما ہوئے اور ہمارے اداروں کا رویہ وہی کا وہی رہا۔

بہت پیارے، معصوم اور بے ضرر انسانوں کو اس بد نصیب زمین کے باسیوں نے کھویا۔ اب لوگوں کے اداروں کی اہلیت پر سوالات میں شدت آئی ہے مگر کیا ہوا اگر کچھ لوگ بد قسمت موت مر کر سوالات کے انبار چھوڑ گئے کیوں کہ یہاں جوابات کہاں جو ملیں۔

اب تو شاید یہاں ریاست نے بھی ماں ہونے کا شرف آہستہ آہستہ کھو دیا ہے۔