جنس گراں

جنس گراں
علامتی تصویر

جنس گراں

افسانہ از، منزہ احتشام گوندل

بڑے عرصے سے اس کی عادت تھی بس میں بیٹھتے ہی دائیں طرف والی نشستوں میں سے کھڑکی والی نشست پکڑتی۔ کبھی کبھار یوں بھی ہوتا کہ دائیں طرف والی پوری رو میں کوئی نشست خالی نہ ہوتی ایسے میں اس کی حالت دیکھنے والی ہوتی تھی اس پر گھبراہٹ کا عالم طاری ہوجاتا اوراگر کسی دن بد قسمتی سے نشستوں کے درمیان کی راہداری میں کھڑے مسافروں کے بیچ کھڑا ہونا پڑتا تویہ اس کی زندگی کا نا خوش گوار اوربد قسمت ترین لمحہ ہوتا اورایسے لمحوں سے اس کو مفربھی نہیں تھا ایسے لمحات بڑے تواتر کے ساتھ اس کی زندگی میں آتے رہتے تھے وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اوردرمیان میں کسی وسیلے کو لائے بغیر براہ راست ہی خدائے عزوجل کے حضور پہنچ جاتی۔ وہ جس کی رسائی زمین کے عام زمین زادوں تک بھی نہ تھی خدا تک پہنچ جاتی۔

اللہ جی! جوانہیں لوگوں میں پیدا کرنا تھا تومزاج بھی ان جیسا دیا ہوتا اوراگرمزاج بدل دیا تھا توحالات بھی بدل دے آخر توکس دھن میں مگن ہے اللہ میاں جی یہ کردے اللہ میاں جی وہ کر دے۔ مگراللہ میاں جی کو اس سے کیا دل چسپی ہوسکتی تھی اس کا کام توچل رہا تھا لوگوں کے حالات پر توجہ دیے اوران کے شکوے سنے بغیر بھی۔ اللہ کے ساتھ اس کا تعلق مکمل طورپر یک طرفہ تھا، اللہ کی طرف سے کبھی اس کے شکوے کا جواب نہ آیا تھا جیسے علامہ اقبال کوآیا تھا، یک طرفہ تعلق بھی ایک عذاب کی طرح ہوتا ہے، خدا کا جب ارادہ بن جاتا ہے کسی کو ذلیل کرنے کا تو وہ اس کو کسی نہ کسی کی یک طرفہ چاہت میں مبتلا کردیتا ہے

روگ دشمن کو بھی یارب نہ لگانا دل کا

جب دائیں طرف کھڑکی کے ساتھ والی نشست اس کو مل جاتی تو وہ سارے گلے شکوے بھول جاتی، زندگی کو نفع و نقصان کے ترازو میں تولتی نشست پر بیٹھ جاتی اور پھرجونہی آٹا پیسنے والی چکی شروع ہوتی اس کی متلاشی نگاہیں اس کو ڈھونڈنا شروع کردیتیں وہ آٹا پیسنے والی چکی سے لے کر اس کے دفتر تک کے سترہ کلومیٹر کے درمیان گھومتا پھرتا رہتا تھا کبھی آتا ہوا دکھائی دیتا اورکبھی جاتا ہوا۔ وہ ہمیشہ پیدل چلتا تھا۔ وہ زندگی کو نفع اورنقصان میں تولتی رہتی۔

خدا سے الجھنا توایک طرف رہا گھروالوں سے الجھنا بھی اب روز کا معمول بن گیا تھا۔ عمر کے ساتھ ساتھ وزن بھی بڑھتا جارہا تھا۔ کیا وزن کے بڑھنے سے آدمی کی قیمت کم ہوجاتی ہے؟

جسم بے ڈھب ہوجائے توکیا آدم آدمیت کے معیار کے گرجاتا ہے؟ کیا وہ اتنا سستا پڑجاتا ہے کہ ٹھکرا دیا جائے؟ آخر یہ نام نہاد شریف، متقی پرہیز گار، صوم وصلوٰۃ کے پابند، بہو بیٹیوں اور بہنوں کو برقعے اوڑھا کر رکھنے والے جب شادی کرنے لگتے ہیں توایک طوائف کے کوٹھے میں کیوں کھڑے ہوجاتے ہیں؟

اماں لڑکی وہ لانا جو سولہ سال کی ہو، جس کی بیس انچ کمر ہو، نازک بدن ہو، زلف دراز ہو، اوران چھوئی کنواری ہو۔ یہی ساری ڈیمانڈز گاہک کی نائیکہ سے ہوتی ہیں۔ ارے بیگم جان! گاہک آنٹی نہیں چھوکری مانگتا ہے، پتلی کمر، سولہ کاسن، کنواری، ان چھوئی، طوائف کے نام پر تھوکنے والے اس کا ذکر آتے ہی کانوں کو ہاتھ لگانے والے بھی وہی معیارات لے کر آجاتے ہیں جو بازار حسن میں دکان داری چمکانے کے لیے ایک لڑکی کے پاس ہونے ضروری ہوتے ہیں۔ رنگ سفید ہو، آنکھ بڑی ہو، ناک اونچی ہو، سینہ دودھ پلانے والی عورت کی طرح ابھرا ہوا ہو مگرکمردوشیزہ کی طرح پچکی ہوئی۔ شرافت، تہذیب، علم، دانش جائیں کوڑے کے ڈھیر پر اور پھریہاں سے تان ہٹتی تو رزق اور عہدے پر جاکر ٹوٹتی۔ بڑے بڑے عہدیداروں، صنعت کاروں اور جاگیرداروں کی ڈھلتی عمر کی بہنوں اوربیوہ، مطلقہ بیٹیوں کے بھی بیاہ ہوجاتے ہیں۔

عورت کا بیاہ ہوتا ہی کب ہے؟ بیاہ توملوں، زمینوں، کوٹھیوں، کاروں، عہدوں کا ہوتا ہے یا پھردنیا کودکھانے کے لیے یعنی ایک معزز طرز کا مجرا دکھانے کے لیے پرفیکٹ حسینہ ڈھونڈی جاتی ہے جوساتھ چلتی ہوئی حور لگے چاہے پہلومیں لنگور ہی کیوں نہ ہو۔ برادری، خاندان میں جائے تو ہرقابل ذکر نوجوان اس کا عاشق ہوجائے اورخاندان میں بیٹھی ڈھلتی عمر کی کنواریوں کو اپنی کمر اورپیٹ پر جمی چربی من من وزنی لگنے لگے اورپھران معیارات سے نیچے گر کر کہیں سمجھوتا کرنا پڑگیا توگھر میں نوکرانی اٹھا لائے جوسارا دن چولہا جھونکے اورخون جلائے۔

خون تووہ بھی جلاتی تھی اورکرتی بھی کیا؟ لوگ توایک طرف رہے جو اس کی کمر پر چڑھی چربی کو دیکھ کر چپکے سے اٹھ جاتے تھے۔ اس کی ماں ہی اس کو نہ ٹکنے دیتی تھی۔

خیالات پاک ہوجائیں توبلند ہو جاتے ہیں۔

اس کے پاکیزہ بلند خیالات کو ماں جوتے جوتے مار کر زمین پر لے آتی یہ ایک عجیب المیہ تھا اس کو کوئی بلندی کی طرف نہ جانے دیتا تھا نہ حالات اورنہ ہی ماں، جب ان دونوں سے مایوس ہوجاتی توتیسری سمت خدا کی طرف جا نکلتی۔ مگرخدا کوبھی اس کے پاک اور بلند خیالات سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ حالات تونہ بدلے مگراس کے مشاغل میں ایک اورمشغلے کا اضافہ ہوگیا۔

بس میں دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر آتے جاتے اب وہ لوگوں کے پیٹ اور کمر جانچنے لگ جاتی جیسے ہی کوئی مرد یا عورت بس میں سوار ہوتے اس کی نظرفوراً ان کے پیٹ کی طرف لپکتی جانے کتنے ہی بڑے بڑے، گول مٹول، تھرکتے ہوئے، آپریشن زدہ، لٹکتے ہوئے، کسے ہوئے، پھرتیلے، پیٹ کمر کے ساتھ لگے پیٹ اس نے دیکھ لیے تھے اورجب کوئی مرد یا عورت بس سے نیچے اترنے لگتے تو وہ فوراً اپنی نگاہیں ان کی کمر پر اتارتی موٹی، چربیلی، بے ڈھب، پھرتیلی، چست، غرض طرح طرح کی کمریں بھی اس نے دیکھ لی تھیں وہ حیران ہوتی کہ ہرطرز کے پیٹ اورہر ناپ کی کمر کے مرد وخواتین شادی شدہ ہوتے ہوتے تھے۔

 اپنا وزن کم کرو، موٹی دلہن اچھی نہیں لگتی، چالیس سال کی لگتی ہو، محترمہ آپ کی عمر پینتیس سال تو ہوگی، موٹی لڑکیوں کے ہاں اولاد نہیں ہوتی۔

طرح طرح کے جملے تھے جواس کو سننے پڑتے ٹی وی پرچلتے اشتہاروں میں لٹکتی، تھرکتی، چست، پھرتیلی اور پتلی پتنگ لڑکیوں کی کمر دیکھ دیکھ کر اس کو خلجان ہونے لگا تھا تنگ آکر اس نے ٹی وی دیکھنا ہی چھوڑ دیا زندگی کو آسان کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ موٹی لڑکیوں کے ساتھ کوئی شادی نہیں کرتا آخر جب ایک دن اس کی دفتر کی ایک ساتھی نے اس کو کہا تو آگ کا ایک شعلہ اس کے دماغ کے اندر سے لپکا اور پیروں کے ناخنوں سے باہرنکل گیاِ، مردوں نے بیوی لانی ہوتی ہے یا مجرا کرانا ہوتا ہے اس سے۔ ہانڈی روٹی، دال دلیہ، گھر کی صفائی، بچوں کی پیدائش توموٹی لڑکی بھی کرلیتی ہے سمارٹ ہوجاؤ، یہ کرو، وہ کرو سلمنگ سنٹر، ڈائیٹ، شربت، بھاگو دوڑو، اف خدایا یہ دنیا ہے یا کچرا کنڈی کچرا، کچرا، کچرا،  کچرا

وہ ہمیشہ پیدل چلتا تھا۔ ایک ہاتھ میں گندا بوسیدہ ٹاٹ کا گٹو اٹھائے وہ کچرے کے ڈھیروں کے اردگرد منڈلاتا نظرآتا، یا کبھی کسی ڈھیر کے اوپر بیٹھا کچرے کو الٹ پلٹ کر رہا ہوتا تھا سردی، گرمی، دھوپ، چھاؤں بارش سے بے نیاز گٹو کو ایک ہاتھ میں لٹکائے وہ تارکول کی سڑک پر ننگے پاؤں چلتا رہتا، وہ موسموں سے بے نیاز تھا، فطرت اس کے سامنے سرنگوں تھی۔

وہ کھڑکی سے باہر دیکھتی رہتی تھی درخت، کچے پکے مکان، جانورجھگیاں، اینٹوں والا بھٹہ، مالٹے کی فیکٹریاں، کینو گریڈنگ اینڈویکسلنگ فیکٹری، مالٹے کے باغات، پٹرول پمپ کے بعد مذبحہ خانہ آ جاتا جہاں ایک دن اس نے قطار میں کٹے کٹیاں اور جھوٹے جھوٹیاں لٹا کرقصابوں کو ان کی گردنوں پر چھریاں چلاتے دیکھا تھا۔

مذبحہ خانے کے بعد نالہ آتا تھا جہاں ایک طرف قصائی جانوروں کا اوجھڑ دھو رہے ہوتے اور دوسری طرف ساتھ والی آبادی کی عورتیں گھروں کے برتن اور بچوں کے پوتڑے دھورہی ہوتی تھیں اس سے آگے دائیں ہاتھ سڑک پر ایک امام بارگاہ تھی، پتا نہیں اب وہ امام بارگاہ کیسے بن گئی چند مہینے پہلے تک وہاں پیپل کے بڑے درخت کے نیچے سادہ سا اینٹوں کا ایک کمرہ تھا ایک دن کوئی کالے سیاہ تیل سے اٹے ہوئے پیالے اس پیپل کی جڑوں میں رکھ گیا اس سے اگلے دن سبز چولا پہنے گلے میں مالائیں ڈالے ایک فقیر سائیں بھی وہاں حاضر ہوگئے۔

فقیر سائیں اب روز دھونی رمائے وہاں بیٹھے نظرآنے لگے کہ چند دنوں بعد کسی مخیرنے نلکا بھی لگوادیا۔ نلکا لگنے کے بعد کالا علم بلند ہوا۔ اورپھرپیپل، علم، فقیرسائیں اور کوٹھڑی کے ارد گرد اونچی دیوار آگئی اورپہلا عرس بھی دھوم دھام سے ہوگیا۔

چیزیں کتنی تیزی سے وجود میں آتی ہیں۔ مگراس کا مقدر تھا کہ ایک انچ بھی بدلنے کو تیار نہ تھا اور پھرایک دن اس نے اچانک اس کو امام بارگاہ کے دروازے سے نکلتے دیکھ لیا ایک ہاتھ میں گندہ، شکستہ بوسیدہ گٹواٹھائے وہ چلا جارہا تھا اس کے بدن پر صرف ایک شلوار تھی جس کو اس نے گھٹنوں تک اڑس رکھا تھا غلاظت سے اٹی ہوئی تھی۔ اس کی نظر اس کے بالوں کی طرف چلی گئی۔ بے تحاشا بڑھے ہوئے اور آپس میں الجھے ہوئے بال تھے جوکہ مسلسل میل اور مٹی کے ملنے کی وجہ سے لکڑی کی سخت تیلیوں سے بنے گھونسلے کی شکل اختیار کرگئے تھے وہ اتنا ہی دیکھ پائی تھی کہ بس آگے نکل گئی۔ چند دن بعد وہ پھرنظرآیا۔ مگر وہ صرف اس کی ننگی پیٹھ دیکھ سکی۔ وہ وقفوں وقفوں سے نظرآتا رہتا تھا۔ اسی غلیظ شلوار میں بوسیدہ شکستہ گٹو اٹھائے کبھی اس کے گھر اور دفتر کے بیچ کے سترہ کلومیٹر سے باہر نہ جاتا تھا۔ وہیں اسی سڑک پر آتا جاتا دکھائی دے جاتا یا کبھی کسی کچرے کے ڈھیر کے پاس بیٹھا ہوا۔

اور پھر ایک دن اسے تفصیل سے اسے دیکھنے کا موقع مل گیا۔ یہ دسمبراورجنوری کے دھندوالے دن تھے ان دنوں کینو فیکٹریاں گریڈنگ کے بعدچھوٹے سائز کے اوربیمار مالٹے چھانٹ کر باہر نکال دیتی ہیں۔ جن کو ٹرکوں اور مزدوں میں لاد کر باہر کسی نالے یا کہیں سڑک کے کنارے ڈھیر کر دیا جاتا ہے۔ جہاں سے مزید چھانٹ کر ضرورت مند اٹھا لیتے ہیں اورباقی وہیں گلتے سڑتے اوربدبو چھوڑتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک دن دو کینو فیکٹریوں کے درمیانی علاقے میں پھینکے گئے ان فاضل مالٹوں کے ڈھیر کے پاس بس کا ٹائر پنکچر ہو گیا اوربس ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر بھی نیچے اترآئے اور ٹائر بدلنے میں لگ گئے۔

یونہی وقت گزاری کے لیے اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا توٹھٹک کر رہ گئی۔ وہ مالٹوں کے گندے ڈھیر کے پاس گم صم کھڑا بس کو دیکھے جارہا تھا۔ بوسیدہ گٹو اس کے کندھے کے ساتھ لٹک رہا تھا۔ داڑھی اورمونچھوں کے بال کچھ اس طرح سے گڈ مڈ ہو گئے تھے کہ اس کے ہونٹ چھپ گئے تھے۔ صرف متوحش آنکھیں اورستواں ناک نظرآتی تھی۔ کلوں، جبڑوں اور گردن کو بھی بالوں نے ڈھانپ لیا تھا البتہ باقی کا جسم واضح تھا۔ وہ دنگ رہ گئی۔ فلموں میں دیکھے فلمی ہیروؤں اور ولنوں کے ورزشی جسم اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ چوڑے کندھے، پُرگوشت سینہ، پتلی کمر، ہموار پیٹ، بازوؤں کی مچھلیاں اور کلائیوں کی رگیں ابھری ہوئی اوربالوں کی ایک ہموار لکیر جو ناف کے نیچے سے لے کر سینے تک آرہی تھی اورسینے پر آکر پھیل جاتی تھی۔

جس معیار کا اس کا جسم تھا اس معیار کے جسموں کی تو دکھاوے کی دنیا میں بڑی مانگ ہے۔ ایسے جسم تو کروڑوں میں بکتے ہیں۔ مگریہ کیسا شخص ہے کہ اس جنس گراں کے ہوتے ہوئے کچرا چنتا ہے۔

شاید نصیب کا جسموں کی ساخت کے ساتھ کوئی سمبندھ نہیں۔ جانے کب پہیہ بدلا اور بس جھٹکے سے چل پڑی۔

اس نے سر کو اگلی سیٹ کی پشت کے اوپر ٹکا لیا اور آنکھیں موند لیں۔

1 Trackback / Pingback

  1. یک بوسۂِ شیریں — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.