ٹریننگ

ٹریننگ
علامتی تصویر

ٹریننگ

افسانہ از، جواد حسنین بشر

مشین گن کی آوزیں۔۔۔

شاٹ گن کی آوازیں۔۔۔

پسٹل کی آوازیں۔۔۔

دستی بموں کے پھٹنے کی آوازیں۔۔۔

چیخنے چلانے اور گرجنے برسنے کی آوازیں ۔۔۔

اور

فضائی نگرانی کرتے ہیلی کاپٹرز کی آوازیں۔۔۔

اسٹریٹ میں یہ تمام آوازیں گونج رہی تھیں۔۔۔

دو طرفہ فائرنگ کا پُر شور اورخوفناک منظر بنا کسی رکاوٹ کے جاری تھا۔ دو بڑی اسٹریٹس کو آپس میں ملاتی یہ چوڑی اسٹریٹ پچھلے ایک گھنٹے سے میدانِ جنگ بنی ہوئی تھی۔ اس اسٹریٹ میں گاڑیوں کا داخلہ ممنوع تھا شاید اسی لیے دونوں کھلی اطراف کو بڑے بڑے، اونچے اورچوڑے بلاکس سے بند کیا گیا تھا۔ لیکن اس وقت یہی بلاکس اسٹریٹ کے ایک سرے پر کمانڈوز کو اوٹ مہیا کر رہے تھے تو دوسرے سِرے پردہشت گردوں کے گروہ کے لیے مورچوں کا کام دے رہے تھے۔ ۔۔۔

اور ان بلاکس کے پیچھے سے کبھی شاٹ گن، کبھی مشین گن اور کبھی پسٹل بردار ہاتھ ابھر ابھر کر اورخالی جگہوں سے ہتھیاروں کے دہانے نکل نکل کر فائرنگ کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ ۔۔

اسٹریٹ میں گھروں کے گیٹ اور ان کے پلرز اور دیگر اوٹ مہیا کرنے کی ممکنہ جگہیں بھی دونوں طرف ہی زیرِ استعمال تھیں۔ کبھی کبھی دونوں طرف سے کوئی دستی بم بھی پھینک دیا جاتا جس کے پھٹنے کی آواز فائرنگ کی بے ہنگم آوازوں کو ایک لمحے کے لیے روک دیتی ۔ اگلے ہی لمحے کان پھاڑ دینے والی آوازوں کا تسلسل پھر سے قائم ہو جاتا۔۔۔

دہشت گرد تعداد میں چار سے پانچ تھے اور کچھ اتنی ہی تعداد کمانڈوز کی بھی تھی۔ ۔۔

ہر دہشت گرد نے کمر پر ایک بیگ لٹکا رکھا تھا ، لباسوں کے نیچے خود کش جیکٹ اور ہر ایک نے چہرے پر رومال باندھ رکھا تھا۔ مشین گن، شاٹ گن، پسٹلز۔ ۔۔

ایک دہشت گرد بے تکان مشین گن کا امتحان لیے جا رہا تھا ۔ ایک دہشت گرد کے دونوں ہاتھوں میں پسٹلز تھے۔ ایک اور دہشت گرد نے شاٹ گن تھام رکھی تھی۔ خودکارچھوٹا ہتھیاراورشاید اے ۔کے فورٹی سیون ۔۔۔ دہشت گرد چیختے چلاتے اشارے کرتے پوری فرض شناسی اور جذبے سے گولیاں داغے جا رہے تھے۔ ۔۔۔

ادھر کمانڈوز لیزر گنوں اور دیگر نوعیت کے اسلحے سے لیس ،سیاہ ٹوپیوں سے چہروں کو ڈھانپے، دہشت گردوں کو برابر کی ٹکر دے رہے تھے ۔۔۔

ہنگامہ خیزی ابھی تک خون ریزی میں نہیں بدلی تھی۔۔۔

دونوں طرف نہ کوئی زخمی ہوا تھا نہ کسی کی ہلاکت یا شہادت واقع ہوئی تھی۔۔۔

ایک عجیب بات یہ بھی تھی کہ اس قدر پُرہول اور متوجہ کرنے والا منظر نامہ اسٹریٹ کے آس پاس اور بغل کی دو بڑی اسٹریٹس سے گزرتے راہگیروں کے لیے شاید کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔گویا وہ اس سے بے خبر تھے ۔۔۔ سب گزر رہے تھے اور بس گزرتے جا رہے تھے ۔ گھروں کی کھڑکیاں اور چھتیں خالی تھیں۔ جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ یہاں تک کہ کئی پولیس موبائلز بھی گزر ی تھیں لیکن ایسی بے اعتنائی کے ساتھ کہ جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا۔۔۔سب کے لیے شاید یہ ایک معمول کی کاروائی تھی۔۔۔

اور کافی دیر سے ہو رہا تھا۔۔۔

ابھی تک میڈیا والوں کا بھی کوئی نام و نشان نہیں تھا۔کمانڈوز اور دہشت گرد تماشائیوں سے محروم اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے ۔ ابھی تک دونوں طرف خیر و عافیت تھی ۔۔۔

اور پھر اچانک ایک اور عجیب بات ہوئی۔ ۔۔

جس طرف کمانڈوز تھے ادھر سے چند راہگیر اسٹریٹ میں داخل ہوئے اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے آئے۔ جاری منظرنامے کی پرواہ کیے بغیروہ راہگیر بڑی بے فکری سے اسٹریٹ میں سے گزرتے چلے جا رہے تھے اور ان کا ہر قدم ان کو دہشت گردوں کے گروہ کے قریب سے قریب تر کرتا جا رہا تھا۔۔۔

لیکن وہ بے دھڑک بڑھتے چلے جا رہے تھے ، یوں کہ جیسے انھوں نے سر سے پاؤں تک بلٹ پروف لباس پہن رکھا ہو اور ان کے کان ساؤنڈ پروف اور ان کی آنکھیں جیسے ویوپروف ہوں ۔ ۔۔

اور پھر وہ چند راہگیر بڑے سکون سے گپیں ہانکتے اسٹریٹ کی دوسری طرف سے دہشت گردوں کے درمیان سے نکل کر نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ جو کچھ ہو رہا تھا، ہو رہا تھا۔۔۔اُن کی بلا سے ۔۔۔

اور پھر مسلسل جاری اس بھیانک کھیل میں ایک دلچسپ موڑ آیا اور ایک کمانڈو سینا تھامے بلاک کی اوٹ سے نکل کر اسٹریٹ کے درمیان ڈھیر ہو گیا۔ شاید مشین گن کا بریسٹ اس کے سینے کے آر پار ہو گیاتھا۔ بس پھر کیا تھا۔ کمانڈوز پر جیسے جوش سا طاری ہو گیا اور اگلے ہی لمحے ایک دہشت گرد بھی کٹے ہوئے شہتیر کی مانند گرا اور حساب برابر۔۔۔

ہنگامہ خیزی خون ریزی میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ۔۔

دونوں طرف تھکن کے آثار بھی صاف دکھائی دے رہے تھے ۔سورج آگ اگل رہا تھا اور گرمی کی شدت ناقابلِ برداشت تھی۔۔۔ دونوں ہی طرف سے اب اس کھیل کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوششیں تیز ترہو گئی تھیں۔ ۔۔

اب کمانڈوز نے ایک دوسرے کو ہاتھوں اور انگلیوں سے مخصوص اشارے کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کو بیک اپ دیتے ہوئے پیش قدمی شروع کر دی تھی۔۔۔ دہشت گردوں کی جانب سے بھی چیخ و پکار بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔

پھر اچانک ایک دہشت گرد اوٹ سے نکل کر کمانڈوز کی جانب دوڑا اور اس نے گولیوں کی بوچھاڑ کی پرواہ کیے بغیر ایک معروف نعرہ بلند کرتے ہوئے پہلا خود کش حملہ کیا یا شاید گولیوں سے اسکی خود کش جیکٹ خود بہ خود پھٹ گئی تھی۔ ساتھ ہی دہشت گردوں کی جانب سے دو تین دستی بم بھی پھینکے گئے۔ ۔۔۔

کمانڈوز دہشت گردوں کے قریب سے قریب تر ہو رہے تھے ، اس کوشش میں ایک اور کمانڈو شہادت کا جام نوش کر چکا تھا۔ دہشت گردوں کا خاتمہ قریب تھا۔ باقی ماندہ دہشت گردوں اور کمانڈوز کا فاصلہ کمانڈو زکی مسلسل پیش قدمی کی وجہ سے کم سے کم ہوتا جار ہا تھا۔۔۔

اور پھر دونوں طرف سے معروف نعرے بلند ہونے لگے۔ ایک ہی جیسے نعرے ۔ ۔۔

دو اور دہشت گرد ڈھیر ہو چکے تھے۔ ۔۔۔

اگلے چند لمحوں میں باقی کمانڈوز آخری دہشت گرد کے سر پر لیزر گنیں تانے چیخ چیخ کراسے ہتھیار پھینکنے کا کہہ رہے تھے۔ دہشت گرد بھی پستول تانے چلاّ رہا تھا۔۔۔

قریب مت آنا، گولی مار دونگا۔ ۔۔گولی مار دونگا۔۔۔ اور یہ کہتے ہوئے اس نے کمانڈوز پر چھلانگ لگائی اور خود کو اڑا دیا۔۔۔

آوازوں کا تسلسل ٹوٹ چکا تھا۔۔ ۔۔

لاشیں بچھی پڑی تھیں۔۔۔

ہنگامہ سرد ہو چکا تھا۔۔۔

لیکن اسٹریٹ میں نہ خون تھا نہ اب تک فائر ہو چکی بے شمار گولیوں کے خولوں کا کوئی نام و نشان تھا۔۔۔

نہ کسی گیٹ کو کوئی نقصان پہنچا تھا نہ کسی باڑ کو نہ بلاک کو۔۔۔

آوازیں پھر سے بلند ہونے لگیں۔۔۔

ہانپنے، کھانسنے اور ہنسنے کی آوازیں۔۔۔

اور پھر گھروں کے دروازے کھلنے لگے اورایک ساتھ کئی عورتیں باہر نکلیں۔۔۔ اوربے دھڑک سیدھا دہشت گردوں اور کمانڈوز کی جانب بڑھیں۔۔۔

کسی کو بازو سے پکڑا اور کسی کوکان سے ۔۔۔اورانھیں گھسیٹتے ہوئے واپس اپنے اپنے گھر میں داخل ہو گئیں۔ ۔۔

تم نے چھٹی والے دن یہ اسکول بیگ کیوں پہن رکھا ہے؟ یہ کون سا طریقہ ہے کھیلنے کا۔۔۔ ایک ماں نے اپنے بیٹے کو ڈانٹا۔

تم نے پھر اپنی گن توڑ دی؟ ابھی کچھ دن پہلے ہی تو لی تھی۔۔آنے دو تمہارے ابا کو۔۔۔اب دیکھتی ہوں وہ تمہیں کیسے نئی گن لے کر دیتے ہیں۔۔۔اتنی جلدی توڑ دیتے ہو۔۔۔ تمہاری یہی سزا ہے ۔۔۔ ایک اور ماں چلّائی ۔۔۔

اوہ میرے خدا؟ اتنی گرمی میں یہ سردیوں والی ٹوپی اور وہ بھی پورے مُنھ پر؟ اس میں سوراخ کیوں کیے تم نے؟ ٹھہرو بتاتی ہوں تمہیں۔۔۔

قریب مت آنا گولی مار دوں گا۔۔۔کھلوناپستول تانے ایک چھوٹا بچہ بہن کو قریب آ تا دیکھ کر چیخا۔۔۔

اور پھر تمام بچے غٹا غٹا پانی پینے لگے۔ فائرنگ، ہیلی کاپٹر اور دستی بموں کے پھٹنے کی آوازیں اور مسلسل نہ جانے کون کون سی آوازیں نکال نکال کر ان کے نازک گلے خشک ہو چلے تھے۔ ۔۔۔