نیلی فلموں کی تاریخ اور سیاسی معیشت

نیلی فلموں کی تاریخ اور سیاسی معیشت

از، عامر رضا

انسانی  تہذیب اور پرنوگرافی کا ساتھ اتنا ہی پرانا ہے جتنی انسانی تاریخ خود ہے ۔ پتھر کے زمانے سے انسان اپنے جنسی عمل کو کسی نہ کسی طریقے سے ریکارڈ کرتا آیا ہے۔ غاروں کی دیواروں پر تصویر کشی کے ساتھ  وجود میں آنے والی پرنو گرافی  وقت کے ساتھ ساتھ اظہار کے نئے نئے طریقے اپناتی گئی۔

پہلا نظریہ تو یہ ہے کہ  پورن  فلمز انڈسٹری  نے  دیگر  انڈسٹریز کی طرح  جدید ٹیکنالوجی کو اپنا  کے اپنے وجود کو نہ صرف  برقرار رکھا  بلکہ    فلم سازی کی اس صنف میں جدت بھی پیدا کی ، سائیکالوجی  کے  جدید نظریات  کے سامنے رکھتے ہوئے  نئے نئے یانراز بھی  تراشے گئے۔ ریاست جو کہ پورن فلمز  کو سختی سے کنٹرول  کرتی تھی وقت پڑنے کے ساتھ ساتھ اس کی گرفت  کمزور پڑتی گئی اور پھر رفتہ رفتہ ختم ہو گئی۔ اور اب ریاست کی طرف سے ہتھیار ڈالنے والی کیفیت نظر آ رہی ہے ۔کیونکہ  اب اس انڈسٹری کے ساتھ کارپوریٹ سیکٹر کے معاشی مفادات بھی وابستہ ہیں۔

موشن پکچرزکی ایجاد کے ساتھ  ہی پورن فلمیں بھی وجود میں آ گئیں۔ اس وقت ان فلمز کو سٹیگ فلمز کہا جاتا تھا ۔‘‘ اے فری رائیڈ’’ دنیا کی سب سے پرانی سٹیگ فلم ہے جو کہ انیس سو گیارہ میں بنائی گئی( فلم کی ریلیز کے حوالے سے  کچھ  فلم  مورخین کا کہنا ہے کہ فلم انیس  سو پندرہ میں بنائی گئی اور ریلیز کی گئی )۔ سٹیگ فلمز کو بنانا اور انہیں نمائش کے لیے پیش کرنا ایک مشکل کام تھا ۔ڈیوڈ ٹامس کی کتاب   ‘‘ ان بلیک وائٹ اینڈ بلیو۔۔اروٹک سینما  فرام  وکٹورین ایج ٹو وی سی آر’’ میں  اس سلسلے میں کچھ دلچسپ  حقائق بیان کئے  گئے جو مختلف سفرنامے اور دیگر تاریخ ریکاڑد سے اکٹھے کئے گئے ہیں کہ کس طرح  پورن فلمز ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچتی اور ان کو دکھانے کے لیے ہال کرائے پر لیے جاتے اور پھر  ایجنٹوں کے مدد سے انڈرگراونڈ نیٹ ورک کے ذریعے  لوگوں کو فلم دیکھنے کے لیے گھیر کے لایا جاتا ۔ ان فلمز کے ڈائریکٹر پروڈیوسر ہی ان کے تقسیم کار بھی تھے۔ جو کہ فلمز کو مختلف شہروں اور قصبات میں نمائش کے لیے پیش کرتے۔ ہم  انہیں پورن ٹورنگ سینما کہہ سکتے ہیں ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ان فلمز پر کریک ڈاون کرنا  آسان تھا۔ اس لیے  فلم کی نمائش کرتے ہوئے  خاص احتیاط سے کام لیا جاتا تھا ۔ مال کو  صارف تک پہنچانے کے لیے بہت بڑے  نیٹ ورک  اور قابل اعتماد ایجنٹوں کی ضرورت ہوتی تھی جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں میں آئے بنا گاہک  یا تماش بین کو گھیر کر لا سکتے۔

سکسٹین  اور ایٹ ایم ایم کیمرہ کی ایجاد نے فلم کی عکسبندی میں آسانی پیدا کر دی۔ ان کی ارزانی اور آسان استعمال  نے  بہت سے شوقین حضرات کو بھی فلم سازی کے فن سے روشناس کروایا۔ ان کیمروں کی ایجاد کے بعد پورن فلم کی عکس بندی میں  آسانی پیدا ہوئی ،  اور بہت سے  امیٹور لوگ اس کاروبار میں قسمت آزمانی کرنے نکلے ۔ کیمرے اور پروجیکٹر کے سائز میں  کمی  کی وجہ سے فلم  کی ترسیل اور نمائش قدرے آسان ہو گئی ۔ قانون نافذ کرنے والے  اداروں  کے لیے ان فلمز کو ٹریس کرنا  اور  انہیں ضبط کرنا مشکل ہو گیا ۔ یوں ریاست کی گرفت   پورن فلمز  پر ڈھیلی ہونا شروع ہو گئی ۔

وی سی آر کی آمد کے بعد پورن فلمز کا سائز نہ صرف چھوٹا ہو گیا بلکہ ان کی ایک ملک  سے دوسرے ملک ترسیل اور  بھی آسان ہو گئی ۔ کسٹم حکام کی ملی بھگت  اور زیر زمین نیٹ ورکس کی مدد سے ان فلمز کو ایک ملک سے دوسرے ملک سمگل کرنا بھی آسان ہوگیا۔

سویت یونین میں پورن فلمز کے بنانے پر سخت پابندی عائد تھی۔ گورباچوف کی پالیسی پریس ٹرایکا کے بعد  سوویت سینما میں برہنہ مناظر  کی فلم بند ی کا آغاز ہوا۔ ایک فرانسیسی ڈائریکٹر نے سوویت  یونین پہنچ کر  پہلی سافٹ کور فلم  سکیس اینڈ پریس ٹرایکا بنائی ۔ فلم کا ٹائیٹل  چند لڑکیوں سے   شروع ہوتا ہے -جو کہ  ہتھوڑے اور درانتی کو کاٹ  رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے کپڑے  بھی اتار رہی ہیں

سوویت یونین میں  پورن فلمز کی نمائش ، ترسیل اور دیکھنا بھی قابل گرفت جرم تھا جس پر سزا اور جرمانے کی قید سنائی جاتی تھی ۔ سوویت یونین میں وی سی آر  این ٹی ایس فارمیٹ پر چلایا جاتا تھا جبکہ امریکہ اور یورپ میں وی سی آر  پال   فارمیٹ  استعمال کیا جاتا تھا ۔ فارمیٹ کے اس فرق کی وجہ سے امریکہ یا یورپ سے آنے  والی فلمز  سوویت وی سی آرز پر نہیں چلتی تھی۔ فارمیٹس کے  اس فرق کو دور کرنے کے لیے خاص قسم کے اڈاپٹرز بنائے گئے تھے، جو یورپ سے سوویت یونین میں سمگل کیے  جاتے تھے۔ یہ انہی اڈاپٹرز کا کرشمہ تھا کہ  لوگ گھروں میں نہ صرف ان سمگل شدہ فلمز سے خود  لطف اندوز ہوتے بلکہ  گھر کے ڈرائنگ رومز یا پھر بیچلر اپارٹمنٹس میں محدود پیمانے پر نمائش بھی منعقد کر لیتے تھے ۔ جس کا ٹکٹ ایک سے دو روبل ہوتا تھا۔

وی ایچ ایس کیمرہ  اور ہینڈی  کیم کی ایجاد نے اس انڈسٹری کو اور مہمیز دی ۔یہ ان کیمرون کا ہی کرشمہ ہے کہ پورن فلمز میں  سٹوری  سٹرکچر  اور کریکٹرائزیشن  کا خاتمہ ہو گیا اور اس کی جگہ گانزو پورن کا یانرا متعارف  ہوا۔ پورنو گرافی کی  عکس بندی اور ترسیل میں مزید جدت پیدا ہوئی ۔

انٹر نیٹ کی ایجاد    نے  ڈیٹا کی ترسیل کو پر لگا دئیے۔ ریاستیں  ٹرانس بارڈر ڈیٹا فلو کو کنٹرول کرنے میں نہ صرف ناکام  ہوئیں بلکہ اہم ریاستی رازوں پر ان کا کنٹرول کمزور پڑ گیا۔ جس کی ایک بڑی مثال وکی لیکس ہے ۔ پورن فلم انڈسٹری  نے انٹر نیٹ سے بھرپور استفادہ کیا۔ انٹر نیٹ نے صارف اور  فلم پروڈیوسر کے درمیان میں موجود نہ صرف مڈل مین کا کردار ختم کر دیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ریاست کی گرفت اس مواد پر اور بھی  ڈھیلی پڑ گئی ۔

انٹر نیٹ سے صرف پورن انڈسٹری کی چاندی نہیں ہوئی بلکہ انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپیناں بھی اس  پیسے کی اس گنگا میں خوب ہاتھ دھو رہی ہیں ۔کوئی صارف جتنی زیادہ آن لائن پرنوگرافی دیکھتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ  ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ جس کا فائدہ سروس پروائیڈر کو ہوتا ہے کیونکہ زیادہ ڈیٹا استعمال ہونے کا مطلب زیادہ ریونیو ہے ۔

سمارٹ فونز کے آنے کے بعد پورن انڈسٹری  پاکٹ انڈسٹری  بن  گئی ۔ وہ فلمز جن کی نمائش قانون نافذ کرنے والے اداروں سے چھپ کر  کی جاتی تھی اور بازاروں اور چوکوں میں ایجنٹوں کے مدد سے صارف  تلاش کیا جاتا تھا اب اس تک  مال  کی ترسیل صرف ایک  بٹن دبانے سے ہو جاتی۔ یورپ میں ایک اندازے کے مطابق آنے والے چند سالوں میں  موبائل پر پرنوگرافی دیکھنے کی مارکیٹ  چھبیس بلین یورو سے زیادہ کی ہو جائے گی۔

پاکستان میں  ایک پراپرٹی ٹائیکون  چند اخبار  نویسوں کی مدد سے  پورن سائٹس کو بلاک کرنے کی کامیاب مہم  چلا چکا ہے۔ یہ مہم  فاکس نیوز کی  اس خبر کے بعد چلائی گئی ، جس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان گوگل سرچ میں سکیس اور پورن سائٹس کو  سرچ  کرنے میں  اول نمبر پر ہے۔ اس خبر کےبعد لاہور کے ایک انٹر نیٹ کیفے پر ہینڈ گرنیڈ سے حملہ بھی کیا گیا۔ پی ٹی اے کی طرف سے  پورن سائٹس پر فلٹر  لگا کر انہیں بلاک بھی کیا گیا لیکن پراکسی سائٹس کے ہوتے ہوئے  فلٹر کوئی خاص معنی نہیں رکھتا ۔ اس کے لیے موبائل فون پر انٹر نیٹ دینے والی کمپیناں  پورن سائٹس کو بلاک نہیں کرتی۔ کیونکہ ڈیٹا کی کھپت اور ریونیو والا اصول  ملکی قوانین اور قومی مفادات سے زیادہ نفع بخش ہے ۔

ریاست کو پرنوگرافی کی ترسیل کو روکنے  کے لیے نئے قوانین اور ذرائع کا استعمال کرنا پڑے گا۔ خاص طور پر چائلڈ پرنوگرافی کی طرف  سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ قصور اور سوات میں جو واقعات  رونما ہوئے ہیں وہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں ۔ لیکن قوانین سے زیادہ ان حالات و واقعات کا تجزیہ کرنا زیادہ ضروری ہے جو کہ انسان  کو پرنوگرافی دیکھنے -کی طرف مائل کرتے ہیں

3 Comments

  1. معلوماتی تحریر ہے ۔ پورن کا کلچر ہر معاشرے کا ایسا حصہ رہا ہے جس کو پوشیدہ رکھا گیا ہے اور شاید اسی پوشیدگی نے تجسس پیدا کیا ہے

  2. آپکی تحریر نیلی فلموں کی تاریخ کے حوالے نہایت عمدہ ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ جنسی عمل کے اظہار کی تاریخ بہت پرانی ہے. لیکن اسے باقاعدہ انڈسٹری کی شکل یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد ملی. اور اس کی روک تھام میں ریاست کے محدود ہوتے ہوئے کردار کی وجہ تیکنیکی سے زیادہ قانونی و انتظامی ہے. اور اس کی پشت پر مغرب کی لبرلزم اور سرمایہ داری نظام کی تحریکیں ہیں. لبرلزم کی وجہ سے فرد پر ریاست کا عمل دخل انتہائی درجہ تک کم ہوگیا ہے. اور سرمایہ داری نظام میں سرمایہ اصل ہونے کی وجہ سے باقی تمام چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں یہ باقاعدہ ایک صنعت کا روپ دار چکی ہے. اور آسکر ایوارڈز کی طرز پر ان فلموں کے بھی ایوارڈز منعقد ہوتے ہیں.
    اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ سائنسی ترقی نے ان فلموں کی صارف تک رسائی بہت آسان کر دی ہے. لیکن مضبوط سیاسی نظام جس طرح سے اپنے قومی مفاد کو دیکھتے ہوئے ملٹی نیشنل اداروں کے آگے بند باند سکتا ہے. اسی طریقے انٹرنیٹ سروس پروائڈرز کو بھی مجبور کر سکتا ہے. کہ وہ ایسے ڈیٹا کی ترسیل پر مکمل پابندی عائد کر دے.

  3. اس آرٹیکل کے معلوماتی ہونے سے زیادہ اس کی آخری تین سطروں پر مضمون کا احاطہ ہونا کہیں سود مند ہوتا ….عامر رضا اگر اس پہلو پر لکھیں تو واقعی داد کے مستحق ہیں ۔۔۔۔۔ شکریہ

Comments are closed.