خانہ بدوش صفت شاعر: ساغر صدیقی

خانہ بدوش صفت شاعر: ساغر صدیقی

۱۹ جولائی: ساغر کی برسی کے سلسلے میں لکھی گئی ایک تحریر

از، فارینہ الماس

 

1928میں امبالہ میں پیدا ہونے والا عظیم شاعر ’’محمد اختر‘‘ ۔۔۔جو گھر بار، اہل وعیال سے محروم عجب بے سروسامانی کی سی زندگی گزار گیا ۔نہ ماں کی آغوش نصیب ہوئی نہ باپ کی شفقت ۔کوئی ناز اٹھانے والی بہن تھی نہ ساتھ نبھانے والا بھائی اور نہ ہی پر پیچ زندگی کے آزار سہلانے کے لئے کوئی ہم سفر ،بھلا یہ بھی کیا زندگی تھی جس میں کسی رشتے کا بار تھا نہ اپکار۔سہارنپور اور انبالا کی گلیوں میں بچپن بیتایا تو زندگی کا ایک احسان ہوا کہ استاد حبیب حسن جیسی شخصیت کا ساتھ نصیب ہوا۔انہی کی بدولت طبیعت کو شاعرانہ مزاج اورشعر کہنے کا ہنر نصیب ہوا ۔کام کی تلاش میں سرگرداں اس خانہ بدوش صفت انسان نے امرتسر کا رخ کیا وہاں کچھ عرصہ ہال بازار کے کسی دکاندار کے ہاں لکڑی کی کنگھیاں بنا نے کا کام کیا ۔شعر کہنے کی ابتدا ء تو آٹھ سال کی عمر سے شروع ہوئی لیکن تقریباً 16سال کی عمر سے مشاعروں میں باقاعدہ شرکت کا آغاز کرتے ہوئے کم عمری میں جالندھر،لدھیانہ اور گورداسپور کے مشاعروں کو رونق بخشی۔حاضرین محفل اس دبلے ،پتلے ،جدید طرز کی پتلون اور بوسکی کی شاندار شرٹ میں ملبوس کرلی زلفوں والے لڑکے کی مترنم آواز کی چاشنی میں ڈوبے کلام کو سن کر مبہوت رہ جاتے ۔وہ جی بھر کے اسے داد دیتے اور اسکے حوصلے بڑھاتے۔جب شاعری کا آغاز کیا تو شروع شروع میں قلمی نام ’’ناصر مجازی ‘‘رکھا۔1947میں وہ 19برس کی عمر میں پاکستان ہجرت کر آیا۔حکومت اس زمانے میں ہجرت کرنے والے بے گھر لوگوں کو معمولی ٹھکانے سونپا کرتی تھی۔اس خوددار اورانا پرست انسان نے حکومت کی دی امداد قبول کرنے کی بجائے کرائے کے ٹھکانے میں رہنے کو ترجیح دی ۔سستے ہوٹل کے معمولی کمرے کا کرایہ اکثر اوقات اپنی شاعری کو اونے پونے داموں بییچ کر بھی پورا نہ کر پاتا۔اس عظیم شاعر کو بعد ازاں دنیا ’’ساغر صدیقی‘‘ کے قلمی نام سے سے جاننے لگی ۔ جو دنیائے ادب کا ایسا چمکتادمکتا ستارہ بنا کہ جس کی لو کے آگے بہت سوں کا نام اور کام دھندلا گیا ۔ساغر نے لاہور کی فلمی دنیا کو بھی اپنا فن عنایت کیا جو بہت سے انمٹ اور جاوداں نغمات میں اک طویل مدت تک ڈھلتا رہا۔ان کے دوست احباب میں امین گیلانی ،زہیر کاشمیری ،احمد راہی ،ساحر لدھیانوی ،شاد ،نریش کمار،لطیف گورداسپوری وغیرہ شامل تھے جن کا ساغر بے حد ادب و احترام کیا کرتے ۔ہفت روزہ تصویر سمیت کئی روزناموں اور ہفتہ وار پرچوں سے منسلک رہے۔1947 سے 1952تک کا دور ساغر کا سنہرا دور تھا،لیکن 1952میں کچھ بد اعمال دوست احباب نے پہلے مارفیا،بھنگ اور پھر چرس افیون کا عادی بنا ڈالا۔یہ اس کی بدنصیبی اور بد بختی ہی رہی کہ جلد ہی حالات پلٹا کھا گئے ۔جو ہفت روزہ ہاتھ میں تھا وسائل کی کمی اور دوستوں کے عدم تعاون کی وجہ سے اسے سواپانچ روپے میں فروخت کرنا پڑگیا۔کامیابی سے شروع کئے گے سفرکو اچانک ایک غمگین موڑ ملا جس نے ساغر صدیقی کے حوصلوں کو پستی کی طرف دھکیل دیا یا شاید ان کے ٹوٹنے کا سبب برے وقتوں میں دوست احباب کا سنگدلانہ اور بے درد رویہ رہا ہو کیونکہ جس انسان کے پاس گھر بار اور اپنوں کے التفات نہ ہوں اس کی تمام تر امیدوں اور توقعات کا مرکز اس کے دوست احباب ہی ہوا کرتے ہیں جو اکثر اس وقت ساتھ چھوڑ دیتے ہیں جب ہمیں ان کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔دوست احباب کی کم ظرفی کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کے عوض وہ ان سے ان کی متاع حیات بصورت غزل یا گیت لے جایا کرتے اور کمال بے ڈھٹائی سے اپنے نام سے چھپوالیا کرتے ۔کہا جاتا ہے کہ ساغر نے حفیظ جالندھری سے پہلے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا۔یہ گیت کشمیر کی سر سبز وادیوں میں فلمایا گیا ساغر نے اسے اپنی ہی آواز میں دی اس کے آغاز میں بول کچھ یوں تھے ’’سلام اے قائد اعظم۔۔‘‘حکومت پاکستان نے اس ترانے کو منظور نہیں کیا۔کتنی عجیب سی بات ہے کہ وہ شخص جسے اس ملک نے محض رسوائی اور دربد ری، اپنی بے حسی اور بے قدری کی تھالی میں دھر کردی اور وہ بھی ایک خیرات سمجھ کر۔ جس شخص نے اس ملک میں پلنے والی اقرباء پروری ،کرپشن اور استحصالی نظام کے بھیانک روپ سے بددل ہوکر اپنے اندرون ا ور بیرون کو گھائل کر ڈالا کبھی وہ بھی اس وطن کے عشق میں مبتلا تھا ۔وہ پرُ امید تھا،پرُ جوش تھا۔لیکن کاش وہ حد سے زیادہ حساس نہ ہوتا۔کاش اس نے صرف اپنے ہی بارے سوچا ہوتا تو کبھی مطلب پرستوں اور مفاد پرستوں کے ہاتھوں زخم نہ اٹھاتا۔ساغر کی زندگی میں ہی مہدی حسن نے ان کی ایک غزل

’’چراغ تو جلاؤ بڑا اندھیرا ہے۔۔ ‘‘

گائی جسے بہت پزیرائی ملی۔ایوب خان نے ان کی شاعری سے متاثر ہو کر انہیں ملاقات کے لئے بلاوا بھیجا لیکن مگر ان کی انا نے گوارا نہ کیا کہ انہیں حکومتی امداد دی جائے سو اس بلاوے کو ٹھکراتے ہوئے جوابی پیغام میں فقط یہ شعر بھجوادیا ’’ہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی کھلونوں سے بہل جایا کرتے ہیں ‘‘ میر تقی میر کے بعد ساغر صدیقی کو درد کا شاعر مانا جاتا ہے۔ درد نہ صرف اس کے قلبی اظہار کا ذریعہ بنا بلکہ اس کا اوڑھنا بچھونا بھی درد ہی تھا۔اسی درد نے اسے دنیا جہاں سے بیگانہ کر دیا: ’’اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہ دل فگار بن کر مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمۂ نو بہار بن کر دیارِ پیر مغاں میں آکر یہ اک حقیقت کھلی ہے ساغر خدا کی بستی کے رہنے والے تو لُوٹ لیتے ہیں یار بن کر ‘‘ لوحِ جنوں،شیشۂ دل،غم بہار،شبِ آگاہی،مقتل گل،ان کے کلام کی کتابیں اور غزلیات کا مجموعہ ’’کلیات ساغر‘‘ان کے باطن کا وہ نچوڑ ہے جس کا ترنم اور نغمگی ہمیشہ ترو تازہ رہے گی۔اس کے علاوہ کلام باہو کا اردو ترجمہ اور سوہنی مہینوال کا وہ ترجمہ بھی جو پورے شعری مجموعے کی شکل میں محفوظ نہ رہ سکا۔ ساغر ایک سچا شاعر تھا۔اسکی شاعری درد اور مفلسی کی تصویر تھی ۔اسے اسکی معاشی کسمپرسی سے ذیادہ ادبی اجارہ داری کی ستم ظریفیوں نے رگیدہ۔بے درد زمانے کے سفاک رویے اس کے احساسات اور جذبات کو مجروح کرتے رہے۔وہ غم کو پینے کا عادی ہو گیا تو اس غم کو سہنے کا درماں مصنوعی نشے سے کرنے لگا اوراپنے زخموں کو سہلانے لگا ۔ اے دل بے قرار چپ ہو جا جا چکی ہے بہار چپ ہو جا اب نہ آئیں گے روٹھنے والے داد اشک بار چپ ہو جا لوگ اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے اور کہتے ’’ساغر تو نے پی رکھی ہے ‘‘ اور وہ مسکراتا اور کہتا ’’ میں تلخی حیات سے گھبرا کے پی گیا غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت دنیا کے حادثات سے گھبرا کے پی گیا ۔‘‘ لوگ کہتے ہیں کہ ساغر ایک دیوانہ تھا لیکن اگر حال کی دیوانگی باطن کی بیداری ہوجائے تو جذب و سرور کی وہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس کی واردات قلبی سے ساغر گزر رہا تھا۔وہ دنیا کے لئے مجذوب تھا جسے وقت اور زمانہ اپنے قدموں تلے روند رہا تھا جب کہ عین انہی لمحوں میں ساغر اس دنیا اور اس کی آلائشی خرافات کو اپنے قدموں تلے روند رہا تھا ۔وہ ننگے پاؤں،شانوں پہ کالی چادر اوڑھے ،مٹی سے اٹے ملگجے بالوں اور دھول سے لتھڑے وجود کو لئے لاہور کی سرکلر روڑ،انارکلی ،اخبار مارکیٹ ،شاہ عالمی روڑ،ایبک روڑ اور داتا دربار کے علاقوں میں عجب بے سروسامانی کے عالم میں گھومتا پایا جاتا۔اس نے فلمی گانوں سے کمائی گئی آمدنی خود سے بھی ذیادہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دی تھی اور خود کئی برس بھیک کی روٹی کھا کے گزار دئے ۔وہ اکثر رات کی تاریکی میں موم بتی کی لو میں، فٹ پاتھ پہ بیٹھا اپنا کلام لکھا کرتا کبھی اسے پڑھ کے لوگوں کو سناتا کبھی اسے اسی موم بتی کی لو میں جلا کر خاکستر کر دیتا۔
’’روداد محبت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دو دن کی مسرت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
کچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کچھ ماضی کے عیار سجن
احباب کی چاہت کیا کہئیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے

دنیا کی حقیقت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے‘‘
اس کا اب کوئی وفادار نہ رہا تھا نہ یہ وقت نہ زمانہ ہاں ایک سگ ضرور اسکا وفادار تھا جو اصحاب کہف کے سگ کی طرح اسکے ساتھ ہی گہری نیند سوجانے کو بھی تیار تھا۔وہ تقریباً چھ سالوں تک اس کے سنگ رہا۔ساغر دکانداروں سے ملی روٹی سے ایک بڑا حصہ اس وفادار ساتھی کو سونپ دیتا۔۔جب کبھی بے سروسامانی کے عالم میں فضا یخ بستہ ہوجاتی تو اپنے وجود کو برفانی ہوا کی سل میں مدفن ہونے سے بچانے کے لئے وہ ایک بجھے ہوئے تندور کے قریب لیٹ کے رات بیتا لیتا۔ایک مہربان دوست عبدالرحمان نے ایک عدد لحاف عنایت فرما تودیا لیکن یونہی رستے پہ چلتے چلتے اک ٹھٹھرتے فقیر کو جو دیکھا تو اسے خود سے ذیادہ مستحق جان کے لحاف اس کے حوالے کر دیا اور خود کو اک بار پھر سرد ہواؤں کے تھپیڑوں کے سپرد کردیا۔ ایسا درویش اور مجذوب کہ جسے سب کے حال کی فکر تھی ہاں اگر خبر نہ تھی تو اپنے ہی حال کی نہ تھی۔ زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں اس کے آخری ایام بہت تکلیف میں گزرے جب وہ بیماری سے خون تھوکنے لگا تھا ۔بڑی ہی درد بھری زندگی تھی جس کی بظاہر دنیا والوں کے لئے کریہہ یادیں چھوڑ کے وہ سن 1974کے ایک دن 19جولائی کی تاریک صبح کوملک عدم سدھار گیا ۔اس مجذوب کا بے جان وجود مال روڈ کی الفلاح بلڈنگ کے سامنے فٹ پاتھ پہ پایا گیا ۔کہا جاتا ہے کہ ساغر کا وجود بیماری سے نہیں بلکہ رات بھر پڑنے والی کہر سے اکڑ گیا تھا۔وہ کریہہ وجود تو مٹی کے حوالے ہو گیا لیکن اس کی شاعری امر ہو گئی۔کہتے ہیں اس کے اولین ساتھی نے اس جگہ کو نہ چھوڑا جہاں ساغر کا بے روح جسم پایا گیا تھا اور ٹھیک ایک سال بعد اسی جگہ لوگوں نے اسکا بے جان وجود بھی دیکھا۔میانی صاحب کے قبرستان میں ساغرکے مزار کی ’’ لوح تربت ‘‘پہ لکھا گیا اس کا اپنا شعر اس کی دنیا سے محض اتنی سی التفات کا تقاضہ کرتا دکھائی دیتا ہے

یاد رکھنا ہماری تربت کو

قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا