غزل گائیکی کی 110 سال کی ہوشربا داستان

Kishwar Naheed
کشور ناہید، لکھاری

غزل گائیکی کی 110 سال کی ہوشربا داستان

از، کشور ناہید

برصغیر میں اردو غزل کی گائیکی کے110سال مکمل ہوگئے ہیں۔ یاد کرنے لگوں تو ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم سے لیکر بیگم اختر تک ابتدائی مقبول ناموں میں شمار ہوتےہیں۔ روشن آرا بیگم نے بہت کم غزلیں گائیں، وہ بھی اکثر فرمائشی کہ میری غزل گادیں۔ ورنہ کلاسیکی شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ بیگم اختر نے غزل ہر عرس اور ہر ہندو تقریب خاص طور پر درگا پوجا پر بھی گائی۔ پنڈت نہرو اور سروجن نائیڈو،دونوں ہی انکی آواز کے دیوانے تھے۔ وہ غزل بھی کونسی،

دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنادے

ورنہ کہیں تقدیر تماشہ نہ بنادے

یہ غزل اور گائیکی اس لیے بھی مشہور ہوئی کہ استاد غلام علی خان نے سارنگی پر ان کا ساتھ دیا تھا۔ سروجن نائیڈوکو ان کی گائی ہوئی غزل’ اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا‘ بہت پسند تھی۔

پاکستان میں مختار بیگم نے’ میرے قابو میں نہ پہروں دلِ بیتاب آیا ‘کیاگائی، غزل کی مانگ گلی گلی ہوگئی۔ ملکہ غزل نور جہاں نے ہزاروں فلمی گانوں کے علاوہ اساتذہ اور ہم عصر شعرا کی غزلیں اور نظمیں بھی گائیں۔

اب ستارہ چڑھنے لگا مہدی حسن، فریدہ خانم اور اقبال بانو کا۔ کہنے کو تو نسیم بیگم، استاد امانت علی خاں، غلام علی، حامد علی خاں، اسد امانت علی اور شفقت امانت علی خان بھی غزل گانے میںبہت نامی گرامی ہوئے مگر مصرعوں کی ادائیگی کو سر اور لے کے ساتھ جیسا اقبال بانو ، فریدہ خانم، امانت علی خان اور مہدی حسن نے غالب ہو کہ عزیز حامد مدنی یا پھر احمد فراز، کیا خوب گایا اور مقبولِ  عام بھی ہوئے۔ مہناز کی تربیت اس کی والدہ کجن بیگم نے ایسی کی کہ نوحے اور مرثیہ پڑھنے میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔ بالکل اسی طرح طاہرہ سید کو ان کی والدہ، ملکہ پکھراج نے کلاسیکی تعلیم کے ساتھ کشمیری زبان کے ہر لہجے یعنی ڈوگری، پہاڑی کے علاوہ غزل کی گائیکی میں عدم کی غزل’’ ارے میگاروں سویرے سویرے‘‘، حفیظ جالندھی کی ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘حفیظ صاحب کے انداز میں ہی گایا۔ اور فیض صاحب کی نظم’’میرے قاتل مرے دلدار مرے پاس رہو‘‘بہت سلیقے سے، جیسا کہ اقبال بانو نے’’دشت تنہائی میں‘‘ اور لازم ہےکہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘، تو مارشل لاکے زمانے میں ایسی گائی کہ نوجوانوں کا قومی ترانہ بن گئی۔

نیرہ نور بھی عجب آواز تھی اور ہے۔ شروع میں وہ حلقہ ارباب ، ذو ق میں میرا جی کے یوم ِ وفات کی تقریب میں جے جے ونتی راگ چھیڑا کرتی تھی۔ ٹیلی وژن، ارشد محمود کی استادی نے نیرہ نور کو بے مثل بنادیا۔ یہیں کراچی سے ایک اور آوازابھری جو پہلے مائی بھاگی کا گیت’’کھڑی نیم کے نیچے‘‘ گاکر، لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ آواز اور کھلی تو کیا نظم اور کیا غزل، ٹینا نے بھی خوب گائی۔

موسیقی نے پینترا بدلا، سارنگی بجانے اور بنانے والے غائب ہونے لگے، طبلہ اور ہارمونیم کے ساتھ ، مغربی موسیقی کے ساز، گویا آرکسٹرا، گانے والوں کو مرغوب ہوگیا۔ ہر چند عابدہ پروین، جب پنجابی اور سندھی کلاسیکی شاعری گاتی ہیں تو ڈھولک، منجیرہ اور ہارمونیم زندہ ہیں۔ غزل میں بھی’’ ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘‘۔ جیسا عابدہ پروین نے گایا، وہ اسلوب ہر ایک کو نصیب نہیں ہوا۔

سندھی، پنجابی کلاسیکی شاعری کو الن فقیر ، ریشماں، ثریا ملتانیکر، ثریا خانم، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی، بلوچستان میں فیض محمد بلوچ اور کے پی میں معشوق سلطان اور اندرون سندھ میں الغوزہ بجانے کے لیےخمیسو خان مشہور ہوئے۔

آج کل غزل گانے والے مشرقی او مغربی موسیقی کو ملاکر گانے کی کوشش کررہے ہیں۔ نعتوں اور قوالیوں کے بول بھی عاطف اسلم، علی سیٹھی اور راحت فتح علی خان، اپنے انداز میں کمال کررہے ہیں۔ غزل کی نئی آوازوں میں معصومہ، جاوید بشیر اور حنا نصر اللہ عباس اور صنم ماروی کوشش کررہے ہیں کہ لوک موسیقی کے علاوہ نعت، سلام اور کبھی کبھی غزل بھی گاسکیں۔

لوگ پوچھتے ہیں کہ غزل تو پڑھنے کی چیز ہے۔ گائیکی کیوں، اُدھر مثالیں دیکھیں تو فیض صاحب سےکہتے تھے کہ مہدی حسن والی غزل سنائیں۔ فرازسے ہندوستان میں بھی مہدی حسن والی غزل سنانے کی فرمائش ہوتی تھی۔ پروین شاکر کی ایک غزل مہدی حسن نے گائی اور اس کو امر کردیا۔ کوئی کوئی غزل میں گل بہار بانو، پرویز مہدی، اخلاق احمد، بلقیس خانم، روبینہ قریشی، سجاد علی، اپنے ایک ایک غزل گانے میں خود کو امر کردیا۔

قوالی، ہرچند امیر خسرو کے زمانے سے چلی آرہی ہے مگر اب تک اردو، فارسی اور پنجابی میں ایسے زندہ ہے کہ کسی کا بھی گھر ہو، قوالی کے بول، اپنی طرف ایسے کھینچتے ہیں کہ رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہی وصف خوبصورت نعت خواں میں بھی ہوتا ہے۔ وہ ایک شخص نصرت فتح علی خاں، جس کا یہ کمال تھا کہ قوالی سے لیکر گیت تک ، ہر بول کو لازوال بنا دیتا تھا۔

نئی گائیکی میں نام پیدا کیا تیرہ سال کی عمر میں اور 32 برس کی ہوئی تو کیسنر میں مرگئی؛ یہ تھی نازیہ حسن۔ اب ضرورت ہے کہ نئے لہجے کی غزل اور نظم کو کلاسیکی طرز میں پھر فروغ دیا جائے۔ ناصر کاظمی سے لے کر منیر نیازی تک کی غزلوں کو فلموں میں1960 کی دھائی میں رکھا گیا اور بے پناہ مقبول ہوئیں۔ تو نوجوان فلمساز، جن پر مجھے بہت فخر ہے۔ نئے موضوعات کے ساتھ اچھی موسیقی کی جانب بھی توجہ کریں۔

بشکریہ: روزنامہ جنگ