یہ صاحب جھوٹ ہی بولتے ہوں گے

Yasser Chattha, the writer

یہ صاحب جھوٹ ہی بولتے ہوں گے

 از، یاسر چٹھہ

ملک میں پہلے دس ماہ میں کوئی مہنگائی ہوئی ہے، نہیں ہوئی؛

جن لوگوں کو رمضان میں ٹماٹر مفت مل رہے تھے، ان کو آج بھی مفت مل رہے ہیں؛

 تندور والا بھی گیس کی بَہ جائے رانا ثنا اللہ کی لوٹ کھسوٹ سے تَپ کر، اور ڈیلی میل کی ڈکیتیوں کی خبر سے جَل کر تندور پَخا لیتا ہے، اس لیے روٹی بھی سستی کی سستی، بَل کہ، cheap سے cheap تر ہو چکی ہے؛

سب دنیا کے موٹر سائیکل اور کاریں پانی سے چلتی ہیں؛

بچوں نے ہینڈسم خلیفہ کو دیکھ کر پیمپروں کا تقاضا چھوڑ دیا ہے اور فیس بک پر ہی سب ہلکے ہو لیتے ہیں،

تنخواہوں پر ٹیکس نہیں بڑھے، وہ تو بینکوں والے مذاق میں اس بار سے زیادہ کٹوتی کر رہے ہیں، جس کا ستر گنا زیادہ اجر روزِ قیامت ملے گا؛ خلیفہ کی نا مانیں تو مُرتد ٹھہریں کیا، اور یوتھنون کرام کی گالیوں، ٹویٹوں اور بَتیوں سے راکھ ہو جائیں کیا؟….

شام ہو رہی ہے، ورنہ تو باتیں بہت ہیں،

انٹرنیٹ دَم کرنے سے سگنل پکڑ لیتا ہے، اور ISPs کی طرف سے روز روز کی ٹیکس بڑھنے کی خبر اور انٹرنیٹ پیکیجز مہنگے ہونے کی چِٹھی مریم نواز کے وٹس ایپ گروپ کی شرارت ہوتی ہے،

دکانوں والوں کا آپ لاکھ تَرلا منت کریں کہ کیش لے لو، وہ ضد کر بیٹھتا ہے کارڈ سے پیسے لوں گا، اور بَہ خوشی لوں گا،

Governor State Bank Pakistan

اور یہ جو آپ سب چوروں، بے ایمانوں کی سانسیں پھول رہی ہیں، یہ آپ کے گناہ جھڑ رہے ہیں، جلدی موت قیامت والے دن ہلکا ہلکا سا احساس دیتی ہے، خلیفہ نے دو ڈھائی انچ کے مُصلّے پر بیٹھ کر دیوار کے پار سے دیکھ کر کہا تھا۔

 مختصراً کہتا ہوں، یہ جو تصویر میں صاحب ہیں یہ مہنگائی کے ہونے کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، ریاست مدینہ لَسّی شاپ و جنرل سٹورز کے خلاف خروج کی دعوتِ عام دے رہے ہیں، کسی یوتھنون سے کہیے:

مُنھ نوچ لے اس بیان و ٹِکر دراز کا

ریاستِ مدینہ لَسّی شاپ و جنرل سٹورز کے جو خلاف ہے، غدار ہے، وہ غدار ہے، مودی کا یار… (نہیں,اب تبدیلی آ گئی ہے یار)، منظور پشتین کا وہ یار ہے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔