خودی کوبیچ دے سادگی کے نام پہ

منزہ احتشام گوندل

خودی کوبیچ دے سادگی کے نام پہ

از، منزہ احتشام گوندل

یہ وہ قوم تھی جن کے قومی فلسفی نے انہیں خودی کو نہ بیچنے اور غریبی میں نام پیدا کرنے کا فلسفہ دیا تھا۔ اُمت پہ مگر عجب وقت تب آ کے پڑا جب ایک رات اچانک امیر المؤمنین نے اعلان کر دیا کہ قوم اب سادہ زندگی گزارے گی۔

سادہ قوم اس سادگی کے فلسفے میں پوری طرح ذہنی طور پہ مقبوض ہو گئی؛ یہ جانے بغیر کہ آنے والے دنوں میں اس کے کیا کیا نتائج اور رنگ کِھل نکلیں گے۔ امیر المؤمنین اور ان کے خُلَفاء کا اپنا طرزِ زندگی کچھ ایسا تھا جسے آسان لفظوں میں بیان کر پانا مشکل ہے۔ وہ قرض اور بد عنوانی کے مخالف تھے، مگر چندہ لینا اور تحائف وصول کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہی نہیں ان کے روز گار کا وسیلہ بھی تھا۔

جس رات امیر المؤمنین نے یہ اعلان کیا اس سے اگلی صبح سعاد نے طنزیہ نظر سے اپنی والدہ کو دیکھا۔ والدہ سمجھ گئی تھیں کہ اب وہ ان پہ نَشتر چلانے والی ہے۔ ان پہ طعنہ زنی کرنے والی ہے۔ اس لیے انہوں نے جلدی سے مُنھ دوسری طرف پھیر لیا۔ کیوں کہ یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا تھا کہ جب بھی کوئی سماجی قاعدہ پائمال ہوتا وہ ان پہ طنز کرتی۔ انہوں نے ہی تو اس کو ان اعلیٰ ترین اخلاقیات کی پَٹیاں پڑھائی تھیں اور خود داری کے سبق پڑھائے تھے۔ جو فی زمانہ کچرے کا سودا بن چکے تھے۔ جن کی کہیں مانگ تھی نہ ہی طلب رہ گئی تھی۔

وہ انا کے، غیرت کے، خود داری کے، سبھی اسباق اب نئے زمانے کی جامعات میں خارج اَز نصاب ہو چکے تھے۔ وہی گِھسے پِٹے سبق پڑھاتے رہنے پر وہ ہمیشہ والدہ کو مُوردِ الزام ٹھہراتی، کیوں کہ والد پہ تنقید کرنے کا اس میں یارا نہ تھا۔ اور یہ بھی والدہ ہی کی تربیت تھی۔


مزید ملاحظہ کیجیے:  مقامی زبان و محاورہ، اور پیارے بلاول کیا کر سکتے ہیں؟  از، یاسر چٹھہ

نو جوانوں کے خواب، عمران خان اور ہمارے تنقیدی رویے


پہلے تو وہ اسے پاگل ٹھہراتیں اور اپنے خاندانی طور طریقوں پہ مُتفخر رہا کرتی تھیں۔ مگر جب سے انہوں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ ان کے نزدیک جو غیر نسلی لوگ تھے وہ کیسے غیرت بیچ کر دنیاوی شان و شوکت میں آ گے نکل گئے ہیں اور ان جیسے پرانی فرسودہ قدروں کے ساتھ چپکے لوگوں کو سلام تک لینا گوارا نہیں کرتے تو انہیں بھی اپنی غلطی کا احساس ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس لیے اب وہ اس وقت سے ڈرتیں جب سعاد ان کی طرف طنز بھری نظر سے دیکھے۔

سن رہی ہیں ماں۔ آپ کی اعلیٰ تربیت کے فیضانِ فیض ہم نے خودی کما کے خود کو آسائشوں بھری زندگی سے دُور رکھا اور انجامِ کار زمانے کے ہاتھوں دھول کھائی۔ اور اب تو امیرِ شہر کی زوج نے فخریہ لوگوں کو یہ بتانا شروع کر دیا ہے کہ وہ تحائف پہ اپنی گزر بسر کر رہے ہیں۔ جانتی ہو ماں! اُمَراء و سُلاطین کی سوچ اور طرزِ زندگی ان کی عوام کے لیے سند ہوتے ہیں۔ کیسے کیسے تحائف کی پیشکشیں تھیں۔ کوٹھیاں اور گاڑی، مگر تمہاری خودی والی تربیت آ ڑے رہی۔

بتا ماں تو نے ہمیں کس دو راہے پہ لا کے کھڑا کر دیا ہے۔ ہمارے معاوضے کاٹے جا رہے ہیں۔ اشیاء ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگی ہو رہی ہیں۔ چندہ لینا اور تحائف وصول کرنا قابلِ فخر سمجھا جا رہا ہے۔ ماں تجھے ہاتھ جوڑتی ہوں کہ اس وقت سے پہلے مَر جا جب تیرے خود دار بچے بچیاں بھی مانگے تانگے اور بخشیش پہ سینہ تان کر فخر سے جی رہے ہوں گے۔ تب تو زندہ ہوئی تو کہاں جا کے مُنھ چھپائے گی۔