جنون کی عظمت سازی

naseer ahmed
naseer ahmed

جنون کی عظمت سازی

ہمیں سے سنت منصور و قیس زندہ ہے

فیض احمد فیض

دونوں پاگل۔

از، نصیر احمد 

نظریاتی جنون کا علاج ہو سکتا ہے، بس تھوڑا سا کُھلا دماغ اور حِسّی تجربات سے رابطہ چاہیے ہوتا ہے۔

روزانہ ہونے والے حادثات اور جرائم بڑی آسانی سے قائل کر سکتے ہیں کہ عقل کی بہت ضرورت ہے اور جنون کی عظمت سازی کے نقصانات بھی سامنے آ سکتے ہیں، لیکن جذبۂّ جنون سانحے تماشے کرنے کے باوجود ہمت ہی نہیں ہار رہا۔

جنون کی تسلسل سے عظمت سازی نے ذہنوں میں یہ باتیں بٹھا دی ہیں کہ عقل، قانون، سائنسی طریق ہائے کار، قاعدے ، ضابطے، تحفظ کی تدابیر اور احتیاط وغیرہ بنیادی طور پر انگریز ہیں جن کے خلاف جہاد ضروری ہے، اور ان سب کے خلاف احتجاج قومی ذمے داری ہے اور ان سب کی شکست و ریخت مقصدِ حیات ہے۔

اس سب کی مخالفت سے دنیاوی فوائد بھی منسلک ہیں۔ اور اس سنت کو تا ابد قائم رکھ کر ہم اپنا پن محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ فیض صاحب بھی اسی جذبے کے تحت ایک فوجی آمریت قائم کرنے کے لیے اپنے ملک کی اس حکومت پر حملہ آور ہوئے تھے جس کے ہاں ابھی عقل، قانون، سائنسی طریق ہائے کار ، قاعدے اور ضابطے مکمل طور پر بے دَم نہیں ہوئے تھے۔ 

فیض صاحب اور ان کا جتّھا نا کام ہو گیا تھا، لیکن باقی جتھے کافی کام یاب رہے اور جنُوں کی سنت کو خوب فروغ دیا اور ایسے ایسے فیصلے کیے جن میں عقل، قانون اور سائنسی طریقوں کو ڈھونڈنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔

اب ایک ملک جس میں اتنے مختلف قسم کے لوگ موجود ہیں، وہ سودوں اور سمجھوتوں سے ہی چل سکتا ہے، اور جمہوریت سے سودوں اور سمجھوتوں کا مِعیار بہتر ہوتا ہے، صرف رئیسوں میں ہی سودے بازی نہیں ہوتی رہتی، بَل کہ کچھ فائدہ متوسِّط طبقوں اور غُرَباء کا بھی ہو جاتا ہے۔ کچھ تحفظ اقلیتوں کو بھی مل جاتا ہے۔ ایسے ملک کے لیے فوجی آمریتیں اچھا حل نہیں ہیں۔

فوجی آمریتوں کے نتیجے میں ملک کی اکثریت، اقلیتوں جیسے مظالم سہتے ہوئے جدا بھی ہو چکی ہے، مگر جمہوریت نا کام ہی ہے اور فوجی آمریتوں کے سلسلے مسلسل چلتے رہتے ہیں۔ اور جمہوریت کبھی کوئی ذرا بہتر سودا ترتیب دینے میں تھوڑی سی کام یاب بھی ہو جائے تو اس سودے کو بے کار بنانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔

فیض صاحب اور ان کے جتھے نے کچھ دشائیں دکھائیں کہ جمہوریت کو معطل کرتے ہوئے ایک کاملیّت پرست آمریت پاکستان میں قائم کی جا سکتی ہے اور جنون کی عظمت سازی کرتے ہوئے خِرد اور جمہوریت کو معاشرتی گُفت گو سے غائب کیا جا سکتا ہے۔

دونوں تجربے بڑی کام یابی سے پاکستان میں نافذ ہو گئے۔اب یہ بات اتنی اہم نہیں کہ کس نے نافذ کیے کہ انتہاؤں پر قدامت پسندی اور ترقی پسندی آمریتیں ہی ہوتی ہیں، اور دونوں کے اعمال مختلف نہیں ہوتے۔ 

لیکن ظاہر ہے، جتھے ہیں، جتھے جنون سازی کرتے ہیں اور انتہائی شدید جذباتی کیفیات کی مدد سے شخصیت سازی کی جاتی ہے جس کے نتیجے افراد راکٹ سے روبوٹ بنے رہتے ہیں اور جمہوریت، قوانین، خِرد ، دلیل، ثبوت، شہادت، علم اور سمجھ داری کا قلع قمع کرتے رہتے ہیں، رومانوی اور نا ممکن خیالات نافذ کرنے کے لیے۔

کاملیت پرستی کے زیرِ اثر محبت اور انسان دوستی بھی جعل سازی ہوتی ہے۔

دیکھنا اور سمجھنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہوتا، لیکن دیکھنے اور سمجھنے کی ہمت ہی نہیں پیدا ہو سکتی۔ ہو بھی جائے تو جہاں جتھے اور ریلے سب کچھ کُچلے جا رہے ہوں، وہاں خِرد مندی بھی بے بس سی ہو جاتی ہے کہ اب جو ہو رہا ہوتا رہے گا، کیا کیا جا سکتا ہے؟

اب یہ جمہوریت، قانون کی عمل داری، انسانی حقوق، سائنسی طریقے اور ہوش مندی اجتماعی طور پر ایک نظام اور ثقافت ترتیب دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسانی زندگی کا اجتماعی مِعیار بہتر ہو جاتا ہے۔ اور اس بہتری کی بہت ساری مثالیں ہمارے سامنے ہیں اور جہاں جہاں ان کا زوال بھی ہو رہا ہے وہاں ان سب کے معیار گر رہے ہیں۔

اور ہمیں بھی چیزیں بہتر کرنے کے لیے جنون کی عظمت سازی ترک کرنی ہو گی، ورنہ وہ حادثات ہوتے رہیں گے، جن سے تھوڑی ہوش مندی کے ذریعے آسانی سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔